ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
نعمان آپ کا نام، کُنیت ابوحنیفہ اور امامِ اعظم لقب ہے۔’’کُوفہ‘‘ امامِ اعظم ابوحنیفہ ؒ کا مولد و مسکن ہے۔ علاّمہ نوویؒ کے مطابق اسے’’دارالفضل و الفضلاء‘‘ ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ صحابۂ کرامؓ میں سے ایک ہزار پچاس حضرات یہاں مستقل سکونت پزیر ہُوئے۔ شیرِ خُدا، سیّدنا علیِ مرتضیٰؓ نے اس مشہور شہرکو اپنا پایۂ تخت بنایا۔ یہ ہے امام ابوحنیفہؒ کا علمی گہوارہ جس کی آغوش میں رہ کر ان کی علمی پرورش ہُوئی۔
فِقہ حنفی کے بانی، امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ خُوش رو، خُوش لباس، خُوش مجلس، نہایت کریم النفّس اور اپنے رُفقاء کے بڑے ہمدرد تھے،آپ کی گفتگو نہایت شیریں، آواز بڑی دل کش اور بڑے قادر الکلام تھے، خُوشبو کا بکثرت استعمال کرتے، آپ کی نقل و حرکت کا اندازہ خُوشبو کی مہک سے ہوجاتا تھا۔ (خطیب بغدادی؍ تاریخِ بغداد330/13)
آپ نے مکّہ، مدینہ،کُوفہ، بصرہ غرض یہ کہ عراق و حجاز دونوں مقامات کی روایات کو حاصل کیا، اور وہاں کے نام ور محدّثین، فُقہاء اور علما سے خُوب علمی فیض حاصل کیا۔
مدینۂ طیبّہ کو اگر مہبطِ وحی ہونے کا شرف اور فخر حاصل ہے توکُوفہ کو اکابرِ صحابۂ کرامؓ کا مرجع و مسکن ہونے کا بجا فخر حاصل ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ جو فقہ اس سرزمین میں مدوّن کی گئی ہو، وہ سرِ مو بھی کتاب و سُنّت، دین کی حقیقی رُوح اور اسلامی تعلیمات سے انحراف اور تجاوز کرسکتی ہے۔
آپ کے اساتذہ میں خصوصیت کے ساتھ حضرت حمادؒ کا نام آتا ہے، یہ مشہور صحابیِ رسولؐ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے فقہی سلسلے اور ان کے علوم کی آخری کڑی تھے، امامِ اعظم ابوحنیفہؒ حضرت حمادؒ کے خصوصی تربیت یافتہ اور علمی جانشین ثابت ہُوئے۔
علم الانساب کے ماہر، نام ور تذکرہ نگار، علاّمہ سمعانیؒ امام ابوحنیفہؒ کے متعلق لکھتے ہیں،’’وہ طلبِ علم میں مشغول ہُوئے تو اس درجہ انہماک کے ساتھ کہ جس قدر علم اُنہیں حاصل ہُوا، دوسروں کو نہ ہوسکا۔‘‘ (بحوالہ مولاناعبدالرشید نعمانیؒ ،ابنِ ماجہ اور علمِ حدیث ص166)
امامِ اعظمؒ کے نام ور شاگرد، مشہور حنفی فقیہ، قاضی ابو یوسفؒ کا بیان ہے کہ میں نے احادیثِ نبویؐ کی تشریح اور اس کے فقہی اسرار و رموزکا امام ابو حنیفہؒ سے زیادہ جاننے والا نہیں دیکھا۔ اُن کا بیان ہے،’’بعض مسائل میں، میں نے امام ابو حنیفہؒ سے اختلاف کرکے ان میں غور کیا تو معلوم ہُواکہ ان کا مسلک دُرست ہے، امام ابوحنیفہؒ صحیح حدیث کے بارے میں مجھ سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔‘‘(صیمری، اخبار ابی حنیفہؒ ۔ص11)
امامِ اعظم ابوحنیفہؒ فقہِ اسلامی کے ساتھ ساتھ حدیثِ نبویؐ کے تمام سرچشموں سے سیراب اور فیض یاب تھے، آپ علمِ حدیث میں گویا امامت کے درجے پر فائز تھے، ایک مرتبہ مشہور عبّاسی خلیفہ ابو جعفر منصورکے ہاں تشریف لے گئے، وہاں نام ور محدّث عیسیٰ بن موسیٰؒ نے امام ابوحنیفہؒ کا تعارف ان الفاظ میں کرایا:’’ھٰذا عالم الدّنیا الیوم‘‘ آج یہ رُوئے زمین کے سب سے بڑے عالم ہیں۔
اس پر ابو جعفر منصور نے سوال کیا کہ آپ نے کس سے علم حاصل کیا ہے؟امامِ اعظمؒ نے جواب دیا، ’’حضرت عمرؓ کا علم اصحابِ عمرؓ سے، حضرت علیؓ کا علم اصحابِ علیؓ سے، حضرت ابنِ مسعودؓ کا علم اصحابِ ابنِ مسعودؓ سے،حضرت ابنِ عباسؓ کا علم اصحابِ ابنِ عباسؓ سے اور ابنِ عباسؓ کے مقابلے میں کوئی ان سے بڑھ کر عالم نہ تھا۔‘‘ یہ سُن کر ابوجعفر منصور نے کہا،’’آپ نے بہت ہی معتبر اور مستند علم حاصل کیا ہے۔‘‘(خطیب بغدادی؍تاریخِ بغداد 334/13)
علاّمہ ذہبیؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے عہدِ طالب علمی کے رفیق مِسعر بن کِدامؒ کا قول نقل کیا ہے کہ’’میں نے اور ابو حنیفہؒ نے ساتھ ساتھ علمِ حدیث حاصل کیا، تو وہ ہم پر غالب رہے اور زُہد میں بھی وہ ہم پرفائق رہے۔ فقہ ان کے ساتھ شروع کی تو ہم دیکھتے ہیں کہ کیا کمال ان سے ظاہر ہُوا۔ (ذہبی؍مناقبِ ابی حنیفہؒ ص27)
برّصغیرکے نام ور محدّث، ناقد اور علم اسماء الرّجال کے ماہرمولانا عبدالرشید نعمانیؒ امامِ اعظم ابوحنیفہؒ کی محدّثانہ شان اور علمی جلالت کے متعلق لکھتے ہیں:۔
’’یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ آج دُنیائے اسلام میں احادیثِ صحیحہ کی سب سے قدیم ترین کتاب امامِ اعظم ابو حنیفہؒ کی تالیف کردہ ’’کتاب الآثار‘‘ ہے، جسے امام موصوف نے احادیثِ احکام میں صرف صحیح اور معمول بہ روایات کا انتخاب فرماکر ابوابِ فقہ پر مرتّب کیا اور بعدکے ائمّہ اور محدّثین کے لیے ایک عمدہ نمونہ قائم فرمایا۔
چناں چہ علاّمہ جلال الدین سیوطیؒ ’’تبییض الصحیفہ فی مناقب الامام ابی حنیفہؒ ‘‘ میں لکھتے ہیں،’’امام ابو حنیفہؒ کے ان خصوصی مناقب میں سے کہ جن میں وہ منفرد ہیں، ایک یہ بھی ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں، جنہوں نے علمِ شریعت (احادیثِ نبویؐ) کو مدوّن کیا،اور اس کی ابواب پر ترتیب کی، امام مالکؒ نے ’’موطّأ‘‘ میں انہی کی پیروی کی اور اس بارے میں امام ابوحنیفہؒ پرکسی کو سبقت حاصل نہیں۔‘‘
جب کہ فقہِ اسلامی میں امامِ اعظم ابوحنیفہؒ کو جو مقام حاصل ہُوا، وہ کسی اور کے حصّے میں نہ آیا۔ آپ نے فقہِ اسلامی کی ترتیب و تدوین میں جو عظیم الشّان اور قابلِ فخر خدمات انجام دیں، وہ محتاجِ بیان نہیں، فقہِ حنفی کی بنیاد صحابیِ رسولؐ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے فتاویٰ، خلیفۂ راشد حضرت علیؓ کے فیصلوں، قرآن و سُنّت سے ماخوذ صحابۂ کرامؓ اور تابعینؒ و فُقہاء کے فیصلوں اور فتاویٰ پر ہے۔ (شاہ ولی اللہ ؍ الانصاف فی سبب الاختلاف)
بیان کیا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے جس قدر فقہی مسائل بیان کیے،اُن کی تعداد بارہ لاکھ ستّر ہزار سے زائد ہے۔ امامِ اعظمؒ کے فقہی مسلک کی ابتدائی نشوونما دارالعلم و الفضلاء کُوفے میں ہُوئی۔ آپ کا فقہی مسلک، فقہِ حنفی عہدِ تدوین اور آغاز سے ہی عالمگیر حیثیت اور شہرت و تداول کا حامل رہا ہے۔ فقہِ حنفی کو امام ابوحنیفہؒ کی زندگی ہی میں اور وفات کے صرف 8 برس بعد عملاً نفاذکے مواقع میسّر آئے۔
جس کی واضح ترین مثال امامِ اعظمؒ کے فقہی ترجمان اور معروف حنفی فقیہ قاضی ابو یوسفؒ کی ہے، جنہیں عہدِ عبّاسی کے نام ور خلفاء کے عہدِ خلافت میں قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کا منصب حاصل تھااور تمام اسلامی قلمرو میں قضاۃ کا تقرّر اُن ہی کے دائرۂ اختیار میں تھا۔ چناں چہ امام ابوحنیفہؒ کے پچاس نام ور تلامذہ عبّاسی عہدِ خلافت میں منصبِ قضاء پر فائز رہے۔ اس لحاظ سے فقہِ حنفی کو جو تداول،شہرت اور عملاً اشاعت کے مواقع حاصل ہُوئے، وہ کسی اور فقہ یا مسلک کو حاصل نہ ہوسکے۔
امامِ اعظم ابوحنیفہؒ نے اپنا فقہی مسلک اپنے اصحاب اور نام ور حنفی فقہاء کے درمیان مشاورت کے ذریعے مدوّن کیا تھا۔ وہ اپنی رائے پر اصرار نہیں کرتے تھے، بلکہ مجلسِ بحث و تحقیق میں پیش آمدہ مسئلہ پیش کرکے شرکائے مجلس کی آراء سُنتے اور اپنی رائے سُناتے تھے۔ بعض اوقات یہ علمی مباحثہ ایک ماہ سے بھی زیادہ دنوں تک جاری رہتا۔ یہاں تک کہ کسی رائے پر اتّفاق ہو جاتا اور امام ابو یوسفؒ اسے قلمبند کرلیتے۔ (موفق مکّی؍ مناقب الامام الاعظمؒ 133/2)
امام ابوحنیفہؒ کی قائم کردہ اس فقہی کمیٹی یا مجلسِ بحث و تحقیق کی تعداد 40 بتائی جاتی ہے۔ یہی اجتماعی اجتہاد اور شورائیت، فقہِ حنفی کا امتیاز اور اس کی خُصوصیت ہے، جس کی وجہ سے اسلامی دُنیاکی اکثریت اس کی اتباع کرتی ہے۔ قرآن و سُنّت نے دینی اور فقہی مسائل کے حل کے لیے شورائیت اور اجتماعیت کا جو حکم دیا۔ وہ دراصل امامِ اعظمؒ کے فقہی مکتب کی بنیاد اور فقہِ حنفی کی نُمایاں ترین خُصوصیت ہے۔