• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہرِ نبی ﷺ جیسا امن و سکون بَھری دنیا میں نہیں

ذرا تصوّر کی آنکھ سے دیکھیں کہ آپ سجدے میں ہیں اور جیسے ہی سر اُٹھا، تو خانۂ کعبہ اپنے پورے جاہ و جلال، شان و شوکت کے ساتھ نظروں کے سامنے ہے۔ یہ تصوّر ہی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے کہ ربّ کے دربار میں حاضری ہوگی، جہاں ہم سر جُھکائے کھڑے ہوں گے اور فرمان جاری ہوگا کہ ’’جو مانگنا ہے مانگ لو…‘‘وہاں ادا کی گئی نماز سے جو لذّت و سرورحاصل ہوتاہے، وہ لذّت کسی اور جگہ سجدے سے ممکن نہیں۔

اب ذرا دوبارہ تصوّر کریں کہ رات کے پچھلے پہر، تہجّد میں آنکھ کُھلتی ہے اور احساس ہوتا ہے کہ آپ آقائے دوجہاں، سرورِ کائنات حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کے شہر میں موجود ہیں۔ آپ اپنی قیام گاہ سے بلا خوف و خطر آدھی رات کو نماز کی ادَائی کے لیے چل پڑتے ہیں، باہر قدم بہ قدم سیکڑوں مرد و زن چل رہے ہیں۔پھرتہجّد کے وقت جب آپ مسجدِ نبویﷺ پہنچتے ہیں، تو اسے بقعہ نور پاتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں تِل دھرنے کی جگہ بھی نہیں بچتی۔ نبی کریم ﷺ کے شہر ، مسجدِ نبویﷺ میں سجود و قیام، اللہ اللہ…

اَن گنت مسلمانوں کی طرح ہمارے دل میں بھی مدّت سے یہ خواہش پنپ رہی تھی کہ ربّ کے دربار میں حاضری نصیب ہو، لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’وہاں حاضری پیسے سے نہیں، بلاوے سے ہوتی ہے۔ جس کا بلاوا آجائے ،اُسے دنیا کی کوئی طاقت،کوئی رکاوٹ نہیں روک سکتی اور جس کا بلاوا نہ ہو، وہ وہاں پہنچ کر بھی تشنہ لب رہ جاتا ہے۔ یعنی اگر بلاوا نہیں، تو مجال ہے کہ کوئی اس دربار میں پاؤں بھی دَھر سکے۔‘‘ تو بس، ہم بھی اِسی حاضری کے انتظار میں مدّت سے اپنی عمر گنوا رہے تھے۔ نہ وسائل ہوتے تھے، نہ بلاوا آتا تھا، لیکن پچھلے سال سے یہ تڑپ شدید ہوگئی، ہر وقت لبوں پر یہی دُعا رہتی کہ ’’اے ربّ! ہمارے جو بھی گناہ یا غلطیاں، ہماری حاضری کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اُنہیں معاف فرما۔

ہمارے لیے اپنے دَر کے دروازے کھول دے اور ہمارے لیے یہ سفر آسان بنا۔‘‘تو بس، وہ ربّ، جو دِلوں کے حال جاننے والا ہے، اس نے ایسا وسیلہ بنایا کہ ہم سمیت سب ہی دنگ رہ گئے۔امّی اور بھائی کا عُمرے کا ارادہ ہوا، تو بھائی نے جَھٹ پَٹ سارے انتظامات کرکے ہم سب کے ٹکٹس، ویزا، تمام انتظامات ترتیب دے کر ہمیں دن، تاریخ سے آگا ہ کردیا اور ہم بس یہی سوچتے رہ گئے کہ ’’کہاں مَیں اور کہاں یہ مقام، اللہ اللہ…‘‘سچ بتائیں تو ہاتھ میں ٹکٹ، ویزا سب آنے کے باوجود یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم جیسے دنیا دار،عاصی ،گناہ گار بھی وہاں جاسکتے ہیں۔

دل و دماغ پر جیسے سناٹا طاری تھا، اندر اِک کپکپاہٹ تھی کہ اللہ ہمارے کسی قول و فعل کی گرفت میں ہماری حاضری کو معطل نہ کردے۔ ایئر پورٹ پر پہنچنے، بورڈنگ ہونے کے با وجود کئی ایسے واقعات یاد آرہے تھے کہ لوگ جدّہ تک پہنچ گئے، لیکن مکّہ جانا نصیب نہیں ہوا۔ اِک عجیب و غریب خوف، دہشت، ڈر کا عالم تھا کہ کہیں ہماری پرواز ہی حادثے کا شکار نہ ہوجائے اور ہم حاضری سے محروم رہ جائیں ، پھر خیال آیا کہ چلو اگر کسی حادثے کا شکار ہوئے بھی تو بخشش کا اِک آسرا تو ہو جائے گا کہ اللہ کے گھر کے لیے عازمِ سفر تھے۔

بھائی نے بتایا کہ ہم پہلے مدینہ جائیں گے، نبی کریمﷺ کے دربار میں حاضری دیں گے، پھر مکّہ پہنچیں گے۔ سُن کر دِل میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔اللہ کے محبوبﷺ کے دربار میں حاضری…ہمیں تو آدابِ اُمّتی بھی نہیں معلوم۔ لیکن قربان جائیں ،محبوبِ خدا ﷺ پر کہ جب نبی کریمﷺ کے شہر میں اُترے ،تو دل و دماغ میں ایک ایسا سکون و اطمینان سا اُتر گیا کہ پھر کسی اور بات کی فکر ہی نہ رہی۔ جیسے کسی اپنے سے بہت مدّت بعد ملیں ،تو جی ہی نہیں چاہتا کہ اُس کو چھوڑیں۔

ایسے ہی مسجدِ نبویﷺ کی رونقوں، حسین گنبدِ خضرا،روضہ رسولﷺ اور سب سے بڑھ کر اُس شہر کےامن و سکون نے اپنا اسیر کرلیا۔ وہاں کوئی تیز آواز میں چیختا چلاتا، بات کرتا، ہارن بجاتا، شور مچاتا نظر نہیں آتا،کیوں کہ نبیﷺ کے شہر میں شور مچانا منع ہے۔ وہاں آقاﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آرام فرما ہیں۔ سچ کہیں، تو اس شہر سے واپسی بڑی بھاری ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے، جیسے دل پھٹ جائے گا۔

وہاں سے رخصت لیتے لیتے یہی دُعا دل سے نکلتی ہے کہ ’’اللہ! ہمیں بھی یہاں کی مٹّی نصیب کردے۔‘‘روضۂ رسولﷺ کے سامنے کھڑے ہو کردُعا کی کہ ’’اے اللہ! اپنے محبوبؐ کے صدقے میرے والدکو، جو کہ آپ کے محبوبؐ کو محبوب رکھتے تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی آقاﷺ کی زندگی کے ہر ہر گوشے پر تحقیق و تصنیف میں گزار دی، پیارے نبیؐ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائیے گا۔ اُن کی دانستہ اور نادانستہ غلطیوں کو معاف فرماکےاپنے پسندیدہ بندوں میں شامل رکھیے گا۔نیز،تمام مرحوم عزیز واقارب،دوست احباب اور دیگرمسلمانوں کی مغفرت اور زندوں پر رحم و کرم فرمائیے گا۔‘‘

یقین جانیے، مدینے میں ایسا سکون ہے کہ بَھری دنیا میں ایسا سکون کہیں نہیں۔ اپنے گھر میں بھی نہیں، مسجدِ نبویﷺ میں بیٹھے دل ایسا شانت ہوتا ہے، جیسے دنیا میں کوئی غم ہی نہیں۔ لرزتے دِل، نم آنکھوں، کپکپاتے قدموں اور درود پاک کا ورد کرتی زبان کے ساتھ جب درِ رسالتﷺ پر حاضری دی ،تو ایسا لگا، جیسے کسی نےکاندھے پر بڑے پیار سے تسلّی کی تھپکی دی ہو۔سارے رنج و غم آپ ہی آپ دُور ہوگئے۔

پھر مسجد نبویؐ کے اونچے، روشن ،چمکتے دمکتے مینار، مِیلوں دُور ہی سے نگاہوں کو خیرہ کرتے ہیں۔ سرسبز گنبد کا حُسن، گھنٹوں اُسے دیکھنے پر مجبور کرتاہے۔ وہاں وہ نعت بہت یاد آئی؎ مدینے کا سفر ہے اور مَیں نم دیدہ، نم دیدہ…جبیں افسردہ، افسردہ، قدم لرزیدہ، لرزیدہ… چلا ہوں ایک مجرم کی طرح مَیں جانبِ طیبہ…نظر شرمندہ، شرمندہ، بدن لرزیدہ ،لرزیدہ۔

ہماری تو یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کی غلطیوں کو معاف فرما کر اپنے دَر کی حاضری نصیب فرمائے۔ آمین ،ثم آمین۔ مکّے، مدینے سے واپسی پر جو تشنگی کا احساس ہوتا ہے،دوبارہ حاضری کی جو طلب ہوتی ہے، وہ ناقابلِ بیان ہے کہ دل یہی چاہتا ہے کہ بار بار وہاں جائیں، بار بار اُن گلیوں سے گزریں، جہاں سےکبھی ہمارے پیارے نبیﷺ اور ان کے صحابہ کرامؓ گزرتےتھے۔ لیکن وہ کیا ہے کہ حاضری پہلی بار ہو یا بار بار ،نصیب ہی سے ملتی ہے۔