پاکستان کے سابق صدر ،سابق آرمی چیف اور مرد آہن جنرل (ر) پرویز مشرف کی اتوار کو دبئی میں طویل علالت کے بعد دنیائے فانی سے عالم جاودانی کی جانب رحلت سے ملکی تاریخ کا ایک انتہائی اہم باب ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گیاجسے اپنی خامیوں اور خوبیوں سمیت کئی لحاظ سے یاد رکھا جائے گا۔ پرویز مشرف اعضا کی بیماری میں مبتلا اور 18مارچ 2016ء سے دبئی کے امریکی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ ان کا جسد خاکی پیر کو خصوصی طیارے کے ذریعے کراچی لایا جارہا ہے جہاں انہیں سپرد خاک کیاجائے گا۔ وہ ایک دلیر سپاہی، بہادر جرنیل اور نکتہ رس انسان تھے لیکن فوجی طاقت سے سیاسی اقتدار پر قبضہ کیا اور بے شمار خوبیوں کے باوجود سیاسی تنازعات کی زد میں آ کر متنازع کردار کے حامل بن گئے۔ ان کے اقتدار کا عرصہ تقریباً 9 سال پر محیط رہا۔ اس دوران انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح کے کئی دشوار مراحل سے گزرنا پڑا اور قومی اہمیت کے فیصلے کرنا پڑے۔ اپنے فیصلوں کی وجہ سے اندرون ملک جہاں ایک متنازعہ شخصیت بنے وہاں معاشرے کے کئی موثر طبقات نے ان کے اقدامات کو دور اندیشانہ اور جرات مندی کا اظہاریہ بھی قرار دیا اور ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان پر سب سے بڑا اعتراض ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر چوتھی آمریت کے نفاذ کے حوالے سے ہے جبکہ ان کے کریڈٹ میں سب سے پہلے پاکستان، کا نعرہ متعارف کرانا ہے۔ 11اگست 1943ء کو دہلی میں پیدا ہونیوالے پرویز مشرف 1964ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور اگلے ہی سال پاک بھارت جنگ میں بہادری کی سند حاصل کی۔اپنی شاندار عسکری کارکردگی کی بنیاد پر تیزی سے ترقی کرتے ہوئے 17اکتوبر 1998ء کو آرمی چیف کے منصب پر پہنچے اس دوران اسپیشل سروسز گروپ میں بطور کمانڈو بھی نام کمایا۔ 12اکتوبر 1999ءکو نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے۔ان کے اچھے کاموں میں نئے بلدیاتی نظام کا نفاذ کو یاد کیا جاتا ہے۔ جبکہ جہاد افغانستان میں امریکہ کیساتھ شراکت کو بعض طبقات مثبت اور بعض منفی قرار دیتے ہیں۔ بلوچستان آپریشن،بینظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کے قتل ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تذلیل، لال مسجد راولپنڈی میں کارروائی اور شمالی سرحدی علاقوں میں دہشت گردی اور ڈرون حملوں جیسے واقعات ان کے خلاف سیاسی سماجی اور عوامی ردعمل کا باعث بنے ۔ سیاسی محاذ پر قومی مفاہمتی آرڈی ننس (این آر او) کا اجرا آج بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔کارگل میں بھارت سے جنگ بھی بعض کے نزدیک اچھا اور بعض کے نزدیک غلط اقدام تھا،پرویز بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش کردار ہیں۔ ان پر دو مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے جن میں وہ بال بال بچے۔ ججوں کی برطرفی ان کا سب سے قابل اعتراض اقدام تھا جس کیخلاف عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلی۔ ان کیخلاف کئی مقدمات قائم ہوئے اور سزائے موت بھی تجویز کی گئی مگر اس سب کچھ کے باوجود وہ 18اگست 2008ء کو منصب صدارت سے مستعفی ہوئے تو انہیں پورے سرکاری اعزاز کیساتھ بیرون ملک روانہ کیا گیا۔ یہ ایک سیاستدان کو نہیں بلکہ ایک سپاہی کو خراج تحسین تھا جس نے ملکی سرحدوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کیا۔ انکی قائم کردہ آل پاکستان مسلم لیگ عوام میں پذیرائی حاصل نہ کر سکی۔ بطور قومی لیڈر ان کی ناکامیوں کی فہرست بھی ہے مگر اپنے شعبے میں اور پھر بطور صدر مملکت انکے کئی اقدامات قابل ستائش بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر صدر پاکستان، وزیر اعظم، عسکری قائدین اور سیاسی رہنمائوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے اور ان کی بخشش اور مغفرت کی دعا کی ہے۔ اللہ تباک و تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔