عالمی معاشرہ اپنے اپنے قومی تشخص کے اعتبار سے رنگا رنگ دنیا ہے۔ پاکستان اپنی قومی زندگی میں اتنے ہی تضادات کا حامل ہے جیسے پوری دنیا تضادات سے بھری پڑی ہے گویا اکیلی اسلامی جمہوریہ ہوتےہوئے بھی ہماری پیچیدگی دنیاکے برابر ہے۔اسی لئے پاکستان کی سب سے بڑی پہچان ہماری بلند درجے کی یہی پیچیدگی ہے جو اب تو شہرہ آفاق بن گئی ہے ۔پاکستان کا فطری حسن اور قدرتی پوٹینشل جتنا مختلف النوع ہے اتنا ہی ہمارے منفی اور غیر مطلوب قومی رویوں سے پیدا ہونے والے تضادات ہمارے پائوں کی بیڑیاں بن گئےہیں جنکے باعث ہمیں بحیثیت قوم آزاد تشخص بھی حاصل نہ ہوسکا۔ہم ایسی ریاست اور قوم ہیں جو دنیا میں ہمارے دشمنوں کی آنکھ میں کھٹکتی ہے اور ہم خود اپنے حاکموں کے اسیر ہیں اور حاکم مکمل آزاد ہیں پاکستان میں کوئی حکومت جمہوری ہو سکتی ہے نہ مکمل آمرانہ اس بڑی پیچیدگی نے ہماری معیشت کو مکمل ترقی کرنے دی اور نہ سیاسی عمل میں تسلسل پیدا ہونے دیا لیکن 75سالہ سیاسی تاریخ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ ہماری آمرانہ حکومتیں سول کی بیساکھیوں کے بغیر اقتدار کا عشرہ مکمل کرسکیں اور سول منتخب حکومتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد کے بغیر قائم ہو سکتی ہیں نہ چل بڑھ سکتی ہیں ۔
پاکستان کی یہ انوکھی پیچیدہ اور گنجلک تصویر ذہن کے پردہ اسکرین پر یہ خبر سنتے ہی نظر آئی کہ دبئی میں جلاوطن سابق صدر جنرل پرویز مشرف انتقال کر گئے (اناللہ وانا الیہ راجعون)جنرل صاحب کوٹ کوٹ کر پاکستانی ذہن و عمل کے ہو کر بھی بطور آمر حکمران قوم و ملک کے لئے تباہ کن اقدامات کے باعث اور اپنی تمام تر خواہش بلکہ تڑپ کے باوجود وطن عزیز میں اپنےآخری ایام نہ گزار سکے۔ اس لحاظ سے ان کا انتقال بہت سبق آموز ہے، یہ صرف صدر جنرل مشرف جیسے محب وطن اور ذہین و فطین اور ملک میں ترقی کے سفر کو تیز تر اور ملکی معیشت کو سنبھال کر آگے بڑھانے والے صدر کے ساتھ نہیں ہوا ،ذوالفقار علی بھٹو جیسے پاپولر جب پھانسی چڑھے تو وہ اس وقت بھی کروڑوں لوگوں کے دل میں تو بستے تھے لیکن ان کی آمرانہ روش ملک کو ایک اور گیارہ سالہ مارشل لا دے کر انہیں تختہ دار پر لے گئی ۔
اس طرح ہمارا ہر عشرہ، عشرہ ترقی وبربادی ہے۔ کاش ، ہم اپنے حکومتی سطح کے الہام کو ابتدائی عشرے میں سمجھ جاتے، وقت پر اس گنجلک صورتحال سے نجات حاصل کر لیتے اور نہ کرنے پر اس کے دور رس نتائج کا اندازہ لگا پاتے۔ اندازہ تو شاید تھا لیکن حکمرانوں کی خود غرضی اور اقتدار کی طمع جمہوریت کی اہمیت واضح اور مطلوب کی فہم ہونے کے باوجود غالب رہی۔ جنرل مشرف کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا۔ یہ ہرگز نہیں جانا جاسکتا کہ وہ درج مقدمات کے مطابق مجرم تھے۔ یہ قانون و آئین کا ابہام ہے جو ہمیں دور کرنا ہی نہیں آرہا۔ اگر حکومتی و سیاسی کھلواڑ کو ہی دیکھا جائے تو مشرف نے جو قومی سلامتی کی نیت کی حد تک اور باعمل بھی، علمبردار تھے، ملک کو خطرات سے مکمل دوچار کرنے والے حکمران ان سے بڑے ڈیزاسٹر کر گئے، لیکن بگٹی مرحوم کی مزاحمت کے خلاف تباہ کن ہینڈلنگ اور لال مسجد پر حملہ نے نہ صرف مشرف دور میں ہونے والی ترقی بلکہ وسیع تر عوامی مفادات کے حوالے سے کتنے ہی حقیقی کار ناموں کے اثرات و نتائج کو ریورس کردیا۔ رہی سہی کسر سپریم کورٹ کی ’’کلاس لگا کر‘‘ مرضی کا فیصلہ لینے کی کوشش کرنا، مرحوم جنرل حکمران کے لئے ہی نہیں پاکستان کے لئے بھی انتہا ئی خسارے کا تباہ کن فیصلہ تھا۔
جس کے ازالے کے لئے انہوں نےنہ صرف یہ کہ وکلاکی ملک گیر تحریک کو کچلنے کے لئے جوڈیشری کو ’’چوہا بنانے‘‘ کے لئے پاکستانی قوم کے لئے ناقابل ہضم اقدامات کئے بلکہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے سول حکمرانوں کے اپنے خلاف بنائے کرپشن کے سینکڑوں سنگین مقدمات سے انہیں پاک صاف کر کے دوبارہ ان ہی کو حکومت میں لانے کی راہ ہموار کرکے، ملک کو ایک کرپشن زدہ سول حکمرانی کے عشرے میں جکڑ دیا اور اب انسداد احتساب کی قانون سازی سے کرپشن کو پارلیمانی تائید سے قبول کرلیا گیا۔ جس کا آغاز ہی مشرف کو اقتدار سے الگ کرنے سے ہوا۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مشرف دور میں ملک میں اقتصادی ترقی کے حقیقی دروازے کھلے۔ ملک کو آئی ایم ایف کی جکڑ سے آزادی ملی، پہلی حکومت تھی جس نے ہائر ایجوکیشن کو بجٹ میں سب ملکی حکومتوں سے زیادہ ترجیح دی ملک میں نئی یونیورسٹیوں اور بینکوں کی بہار آگئی، جامعات کو بڑ ی بڑی ریسرچ گرانٹس دے کر بڑی تعداد میں نوجوان اساتذہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں میں بھیجا گیا۔ برآمدات اور غیر ملکی زرمبادلہ میں غیر معمولی اضافہ اور غربت میں 20فیصد اور شرخ خواندگی میں 12 فیصد اضافہ ہوا۔
یونیورسٹی لیکچرر کو گریڈ 18اور پروفیسر کو21 دے کر استاد کی عزت و توقیر کو تسلیم کیا گیا۔ یوں دانش کی اہمیت سرکاری درباری بابو گیری پر حاوی کردی گئی۔ ایک طرف مشرف نے امریکہ کی دھمکی پر پاکستان میں امریکی توقع کے برعکس اڈوں کی اجازت دے کر پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف (ہمارے لئے تباہ کن) اتحادی بنا دیا جس کے نتیجے میں بھارت نے افغان سرزمین پر پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے مراکز بنا لیے اور ملک میں ان حملوں سے وہ جانی و مالی نقصان ہوا جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ دوسری جانب امریکی حکومت اور تھنک ٹینکس مسلسل صدر مشرف پر ڈبل کردار ادا کرتے پاکستانی ملٹری قیادت کو مشکوک قرار دے کر افغانستان کی دلدل میں پھنسانے کا الزام لگاتے اور شک کرتے رہے جس سے یقین میں امریکہ کی بے حد رسوائی سے کابل چھوڑنےپر بہت اضافہ ہوا۔ ایک شدید مطلوب مقامی حکومتوں کے نظام کا قیام اور الیکٹرانک میڈیا کے ملک میں آزادانہ اجرا، دور کے بڑے پرو جمہوریت و آئین نتیجہ خیز اقدامات تھے، جنہیں سول حکومتوں نے ریورس لگا دیا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)