• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی (ترکیہ) کے جنوب اور شام کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں پیر صبح 4 بجکر 17 منٹ پر جب زیادہ ترلوگ سو رہے تھے، اس صدی کے قیامت خیز زلزلے نے تباہی مچادی جس کی ریکٹر سکیل پر شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی ہے۔ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق اب تک 3600افراد جاں بحق ہوئے ہیں مگر ہزاروں لوگ تباہ ہونے والی 3ہزار سے زائد عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ابھی آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے جس سے اندیشہ ہے کہ ایک اندا زے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد کم سے کم 8گنا ہوسکتی ہے جبکہ امریکی جیالوجیکل سروے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ملبے سے لوگوں کو نکالنے کے لئے بڑے پیمانے پر امداد ی سرگرمیاں جاری ہیں مگر شدید سردی اور بارش کی وجہ سے ان میں رکاوٹ پڑ رہی ہے زلزلے سے ترکی کے دس شہر بری طرح متاثر ہوئے ہیں صدر اردوان نے ہنگامی حالت نافذ کردی ہے اور ایک ہفتے کے سرکاری سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ قومی پرچم سرنگوں کردیا ہے۔ زلزلے کا مرکز جنوبی ترکی سے 23کلومیٹر دور اور گہرائی 17.9 کلومیٹر بتائی گئی ہے ترکی اور شام کے علاوہ قبرص ، یونان، اردن، لبنان، جارجیا، آرمینیا اور اسرائیل میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے مگر جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی بتایا گیا ہے کہ 1939ءکے بعد یہ سب سے بڑی قدرتی آفت ہے جس کا ترکی کو سامنا کرنا پڑا کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں متاثرہ علاقوں میں زلزلے کی فالٹ لائن نسبتاًخاموش ہے جس کی وجہ سے یہاں عمارتوں کے ڈھانچوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ بیشتر عمارتیں کمزور ہیں زلزلے سے بڑی تباہی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ پاکستان، امریکہ، روس اور عرب امارات سمیت 45 ملکوں نے اب تک زلزلہ زدگان کے لئے ترکی اور شام کو امداد کی پیشکش کی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یکجہتی اور ہمدردی کے اظہار کے لئے ترک صدر سے ٹیلیفون پر بات کی وہ خود بھی آج انقرہ جا رہے ہیں تاکہ صدر اردوان سے اظہار تعزیت کے علاوہ امدادی سرگرمیوں کے لئے پاکستان کے کردار کا تعین کرسکیں۔ پاکستان سے فوری طور پر 150 امدادی کارکن اور 15 ٹن سامان لے کر ایک طیارہ ترکی روانہ ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس موقع پر موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے پوری دنیا میں تباہی کے بڑھتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ انسانیت اور کرہ ارض کی بقا کا مسئلہ ہے۔ صدر عارف علوی اور دوسرے رہنمائوں نے بھی ترکی اور شام سے اظہار یکجہتی کیا ہے، زلزلے سے ترکی کے 10 شہر متاثر ہوئے ہیں اور خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق تباہ شدہ علاقوں میں یا اللہ ، یا اللہ کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں، زلزلے ایسی قدرتی آفت ہیں جن کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی اس لئے ان کے سد باب کا بھی کوئی طریقہ دریافت نہیں ہوا۔ مگر بتایا گیا ہے کہ نیدر لینڈ کے ایک ماہر طبقات الارض نے تین روز پہلے سوشل میڈیا پر پیش گوئی کی تھی کہ اس علاقے میں جلد یا بدیر 7.5شدت کا زلزلہ آئیگا جو صحیح ثابت ہوئی اس پر دھیان دیا جاتا اور لوگوں کو خبردار کردیا جاتا تو شاید اتنی بڑی تباہی نہ پھیلتی۔ شام میں ترکی سے بھی زیادہ تباہی آئی ہے مگر اس کی تفصیلات ہنوز نہیں بتائی جاسکیں۔ پاکستان کے کئی علاقے زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع ہیں اور وقتاً فوقتاً زلزلے آتے رہتے ہیں۔ ان میں 2005میں آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں آنے والا زلزلہ سب سے ہولناک تھا کوشش کی جانی چاہئے کہ سائنسی تحقیق کے ذریعے زلزلوں کی پیش گوئی ممکن بنائی جائے تاکہ لوگوں کو پہلے خبردار کرکے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ اس حوالے سے سائنسی تحقیق کے عالمی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

تازہ ترین