• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم ایک مرتبہ پھر من حیث المجموع سوگ وار ہیں۔ پشاور کی پولیس لائنز میں تیس جنوری کو ہونے والی بدترین دہشت گردی کی واردات نے پوری قوم کو ایک مرتبہ پھر ہلادیا ہے۔ حملے کی سی سی ٹی وی وڈیو سامنے آنے کے بعد یہ سوال تقویت اختیار کر گیا ہے کہ آخر اس خودکش حملہ آور کو کہیں پر روکا اور چیک کیوں نہیں کیا گیا؟

موٹر سائیکل پر سوار، پولیس کی وردی میں ملبوس دہشت گرد پولیس لائنز کے اردگرد کافی دیر تک گھومتے پھرتے دیکھا گیا۔ اس کی نقل و حرکت سے لگتاہے کہ وہ ہدف یا اس مقام کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ نہیں تھا۔یعنی وہ پشاور کا رہایشی نہیں تھا اور علاقے سے پوری طرح واقف نہیں تھا۔ابتدا میں حملہ آور کے بارے میں آئی جی کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آئے۔

دھماکے کے اگلے روز آئی جی معظم جاہ انصاری نے بتایا تھا کہ حملہ آور مہمان کے روپ میں پولیس لائن میں داخل ہوا تھا اور اس نے کوئی جیکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی۔ تاہم سی سی ٹی وی کی فوٹیج سامنے آنے کے بعد آئی جی نے بتایا کہ حملہ آور پولیس کی وردی میں ملبوس تھا اور اس نے جیکٹ اور ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔ وڈیو سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے منہ چھپانے کے لیےماسک بھی پہن رکھا تھا۔

آئی جی خیبر پختون خوا ،معظم جاہ انصاری کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ خودکش حملہ آور نے گیٹ سے داخل ہو کر حوالدار سے بات کی اور پوچھا کہ مسجد کہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور کو پولیس والوں نے وردی میں دیکھ کر اس کی تلاشی نہیں لی(کیا یہ بہت بڑی لاپروائی نہیں؟)

پشاور میں پولیس کا ہیڈکواٹرز سمجھی جانے والے پولیس لائنز میں پولیس کے علاوہ چھ دیگر محکموں کے سینیئر افسران کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ ان میں اسپیشل سروس یونٹ (ایس ایس یو)، کاونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)، ایلیٹ فورس، ایف آر پی، پشاور پولیس اور ٹیلی کمیونی کیشن کے ادارے شامل ہیں۔ ان شعبوں اور اداروں کے ڈی آئی جی کے رینک کے افسران کے دفاتر یہاں موجود ہیں۔

اتنی اہم جگہ ہونے کے باوجود محض ایک وردی تن پر ہونے کی وجہ سے کسی قسم کی کوئی جانچ پڑتال نہ ہونا دہشت گرد کے لیے مثالی بات تھی، لہذا محض ایک بھٹکے ہوئے شخص نے بغیر کسی مزاحمت کے اتنا بڑا آپریشن تنِ تنہا انجام دے ڈالا۔ بلاشبہ یہ دہشت گردوں کی حکمتِ عملی کی بہت بڑی کام یابی تھی جس کے لیے انہوں نے یقینا پہلے سے تحقیق کی ہوئی تھی۔وہ جانتے تھے کہ وردی والوں کو ان کے پیٹی بند بھائی چیک کرنا تو دور کی بات ہے، شک کی نگاہ سے بھی نہیں دیکھتے۔

کسی ادارے کی وردی پہن کر کوئی واردات کرنا جرایم پیشہ افراد کی بہت گھسی پٹی تیکنیک ہے۔ اتنی گھسی پٹی کہ ہمارے لوگوں نے اس پر توجہ دینا ہی چھوڑ دیا ،لیکن دہشت گردوں نے اسی تیکنیک کو اپنا ہتھیار بنایا اور ہمارے سینے پر کاری وار کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ ان کے اس عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انسانی اور جرم کی نفسیات کو بھی سمجھتے ہیں۔ وہ اندھا دھند کارروائی نہیں کررہے، بلکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے تحقیق اور تیکنیک کا بھی استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے خودکش حملےکےلیے یقینا حملہ آور کی برین واشنگ کی تھی، لیکن وہ خود بہت چالاک اور ہوشیارہیں۔ لہذا اُن پر قابو پانے کے لیے روایتی کے ساتھ ہمیں جدید فکر، تیکنیک اور آلات بھی استعمال کرنے ہوں گے۔

ایک قدم آگے

سائنس کی ترقی نے آج بہت سی ناممکن باتیں ممکن بنادی ہیں۔ ہمیں خودکش حملوں کے سدباب کے لیے عسکری کے ساتھ سائنسی بنیادوں پربھی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔اِن دنوں ملک میں میں دہشت گردی کی جو وارداتیں ہورہی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی وارداتوں میں ملوث افراد یا گروہ ہمارے خفیہ اداروں سے ایک قدم آگے ہیں۔

ہالی وڈ نے1995میں ’’سیون‘‘ اور 1999میں ’’دا بون کلیکٹر‘‘ کے نام سے دو فلمیں بنائی تھیں۔ بھارت میں ’’سمے‘‘ کے نام سے’’سیون‘‘ کا چربہ بنا تھا۔ ان تینوں فلموں میں مجرم کے طریقۂ واردات کو سمجھنے پر زور دیا گیا تھا اور قانون کے محافظین اس بات پر زور دیتے نظر آتے تھے کہ مجرم ان سے ایک قدم آگے'ہے۔ پشاور کے سانحے کے بعد یہ لگتا ہے کہ یہاں بھی مجرم قانون کے محافظین اور خفیہ اداروں سے شاید ایک یا کئی قدم آگے ہیں ۔ ہمیں ان کے دماغ، نفسیات اور طریقۂ واردات کا مطالعہ کرکے ان سے ایک قدم آگے بڑھ کر انہیں روکنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ان کے معلومات کے ذرایع کیا ہیں، وہ قانون کے محافظین سے کیوں آگے ہیں اور وہ دھماکا خیز مواد کہاں سے اور کیسے حاصل کرتے ہیں؟

برین واشنگ

خود کش حملہ کرنے والوں کے لیے زندگی نہیں بلکہ موت کا مقصد ہوتا ہے۔ انہیں ایسا کرنے سے روکنے کے لیے نفسیات، طب، سماجیات وغیرہ کے ماہرین اور سیاسی عمل کوبھی استعمال کرنا ہوگا۔ مذکورہ شعبوں کےماہرین کے بہ قول ضروری ہے کہ زندگی کو موت پر ترجیح دینے والے جس کیفیت میں گرفتار ہیں اسے سمجھا جائے اور اس سے متعلق مسائل حل کیے جائیں۔

یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ خود کش حملوں کے لیےدہشت گرد تنظیمیں جن افراد کو استعمال کرتی ہیں ان کی زبردست طریقے سے برین واشنگ کی جاتی ہے۔ یعنی ان کے ذہنوں کو خو دکش حملےکےلیے پوری طرح تیار کیا جاتا ہے۔ اردو زبان میں اس کے لیے ذہن سازی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔پاکستان میں بھی میں نوجوانوں کو خودکُش حملہ آور بنانےوالے برین واشنگ کی تیکنیک بہ خوبی استعمال کررہے ہیں ۔ لہذا ہمیں ان اسباب پر توجّہ دینا ہوگی جن کی وجہ سے نوجوان ان دہشت گردوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔

ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ آخر ان دہشت گردوں کی صلاحیت، استعداد اور تیکنیک کیا ہے اور ان کے انسداد کے لیے کام کرنے والے اہل کاروں کی صلاحیت، استعداد اور تیکنیک کیا ہے۔ اس ضمن میں بہت سے سوالات سر ابھارتے ہیں۔ جن کے جواب جاننا ضروری ہیں، تاہم اس بارے میں بعض تحفظات خود ہمارے ذہن میں بھی تھے اور سیکورٹی اور دھماکا خیز مواد کے ماہرین سے جب بیک گراؤنڈ انٹرویوز کیے گئے تو انہوں نے بھی ابتداء میں ان تحفظات کا ذکر کیا، لیکن جب یہ سوالات انٹرنیٹ کے حوالے کیے گئے تو وہاں سے جو کچھ برآمد ہوا، اس نے یہ تمام تحفظات دور کردیے، کیوں کہ وہاں تو دھماکا خیز مواد کے اجزاء، ان کی کیمیائی ترکیب، ان کے کام کرنے کا طریقۂ ، اشکال، اقسام، رنگوں، حتیٰ کہ تیار مواد اور آلات کی تصاویر اور ان کے نرخ تک موجود ہیں۔

پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت دنیا کے متخلف مقامات پر دہشت گردوں کے خلاف جو انسدادی کارروائیاں ہوئیں، ان کے نتیجے میں بم بنانے اور دہشت گردی میں مدد دینے کے لیے مختلف مینولز، کتابیں، سی ڈیز، نقشے، انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کے شواہد وغیرہ حکام کے ہاتھ لگے۔اب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں دہشت گرد تمام جدید ذرایع اور معلومات اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

دھماکے کی نوعیّت

دھماکا خیز مواد اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین سے بیک گراؤنڈ انٹرویوز کے نتیجے میں صورت حال کے بارے میں بہت سی اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ تاہم ان ماہرین نے مختلف وجوہ کی بناء پر اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کا وعدہ لیا۔ ان کے مطابق پاکستان میں اسلام آباد کے قریب سمنگلی کے مقام پر پولیس کا واحد ٹریننگ سینٹر تھا، جہاں دھماکا خیز مواد کے بارے میں اہل کاروں کو ضروری تعلیم اور تربیت دی جاتی تھی، لیکن اب تربیت کی صورت حال بہت خراب ہوچکی ہے۔ 

بارود دراصل چند کیمیائی اجزاء ہوتے ہیں، جن میں سے کئی روزمرہ استعمال کے ہوتے ہیں، مثلاً شکر، یوریا، صابن، پیٹرول، گندھک، پوٹاشیم، گلیسرین، کوئلہ، پوٹاشیم پرمینگنیٹ وغیرہ۔ ان میں سے بعض اجزاء پٹاخوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ لو ایکسپلوسیو جب پھٹتا ہے تو وہ سلسلہ وار ترتیب سے جلتا ہے اور ڈیٹونیٹ نہیں ہوتا۔ جہاں دھماکے کے بعد دھواں اور کالا پن زیادہ ہو، وہاں سمجھ جائیں کہ لو ایکسپلوسیو استعمال ہوا ہے۔ ہائی ایکسپلوسیو تیزی سے آگ نہیں پکڑتا۔ اس میں طاقت زیادہ ہوتی ہے اور اس میں ڈیٹونیٹر کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ 

اس کے ذریعے ہونے والے دھماکے کی لہروں کی شدت 3 تا 7 ہزار میل فی گھنٹہ تک ہوسکتی ہے۔ یہ لہر ایک جیسے دبائو اور شدّت کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ جتنی رفتار سے گیسز اوپر اٹھتی ہیں، اتنی ہی رفتار سے جائے وقوعہ پر خلاء پیدا ہوتا ہے۔ پھر جب وہاں ہوا واپس آتی ہے، تو خلاء ختم ہوتا ہے اور زوردار آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں جائے وقوعہ پر اور ارد گرد موجود اشیاء تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ ہائی ایکسپلوسیو جہاں پھٹتا ہے، وہاں درجۂ حرارت 2000 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت جو آواز پیدا ہوتی ہے، اس کی رفتار گیسز کی رفتار جتنی ہی ہوتی ہے۔

ڈیٹونیٹر دراصل ایک پٹاخہ ہوتا ہے، جو پینسل کی طرح کا اور دو تا تین انچ لمبا ہوتا ہے۔ اوپر المونیم کی دھات ہوتی ہے اور اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔ اس میں پہلے لو اور پھر ہائی ایکسپلوسیو رکھا جاتا ہے۔ یہ الیکٹریکل اور نان الیکٹریکل اقسام کے ہوتے ہیں۔ دہشت گرد الیکٹریکل ڈیٹونیٹر زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس پر پائوں بھی پڑ جائے، تو یہ پھٹ جاتا ہے۔ لہٰذا دھماکا کرنا آج بہت آسان کام ہوگیا ہے۔ الیکٹریکل ڈیٹونیٹر کو چلانے کے لیے صرف ایک سوئچ یا بٹن دبانا پڑتا ہے۔

ان ماہرین کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ یہ لوگ عام اجزاء بزنس کے مختلف طریقوں سے درآمد کرکے یا حاصل کرکے انہیں آپس میں ملاتے ہیں۔ عام بارود کی ایک اینٹ، جو ایک تقریباً آدھا کلو کی ہوتی ہے، آج کل چند سو روپوں میں مل جاتی ہے۔ باقی اجزاء کے نرخ ان کی کوالٹی کے اعتبار سے بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ اجزا ء پائوڈر، محلول اور ٹھوس اشکال میں اور مختلف رنگوں میں آتے ہیں۔ 

یہ دہشت گرد بہت محتاط اور اپنے کام میں ماہر ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ناکامی کی گنجایش نہیں ہوتی۔ یہ لوگ دھماکے کے لیے 1.5 وولٹ کی عام بیٹری، ایک دو روپے والا عام فیوز، گھڑی یا واشنگ مشین کے ٹائمر کو بہ طور ڈیلے ڈیوائس استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ٹرک میں ڈیٹونیٹر کا سوئچ دہشت گرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ گاڑی کا انتخاب ٹارگٹ کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں۔ اس کے لیے علاقے میں سیکورٹی کی صورت حال، اس کی حساسیت، اپروچ ایریا، ٹریفک کی نقل و حرکت، ناکے وغیرہ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

دھماکا خیز مادہ رسی اور شیٹ کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔ ڈیٹونیٹر کو کمپیوٹر یا ٹی وی کے پرزے ظاہر کرکے اور رسی یا شیٹ کو موم وغیرہ کہہ کر پولیس والوں کو چیکنگ کے دوران دھوکا دیا جاسکتا ہے، کیوں کہ ہمارے پولیس والوں کو ایسی تربیت ہی نہیں دی جاتی۔ دہشت گرد کو پکڑنے کے لیے شک کرنا ضروری ہے۔ شک ہونے کے بعد چیکنگ کا مرحلہ آتا ہے۔ شک کرنے کے بھی اصول ہوتے ہیں، جو پڑھائے جاتے ہیں۔

ڈیٹونیٹر خاکی اور سلور رنگ کے زیادہ آتے ہیں اور 400 تا 500 کلوگرام مواد کے لیے 5 تا 10 کافی ہوتے ہیں۔ ٹرائی نائٹرو ٹولین (ٹی این ٹی) عام طور سے دست یاب نہیں ہوتا اور اس کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا اس کا استعمال کم کم ہی ہوا ہے۔ دھماکا خیز مواد تلاش کرنے کے لیے دنیا بھر میں کتوں سے زیادہ کوئی شئے کام یاب نہیں مانی جاتی۔ دہشت گردوں کو خاص وقت تک خاص ماحول میں رکھ کر ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔

دھماکے سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے Fragmantation کا استعمال کیا جاتاہے۔ یعنی لوہے کی کیلیں، اسکریوز، چھرّے وغیرہ۔ لیکن پشاور کے حالیہ دھماکے میں ایسا نہیں کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کے ماہرین کے مطابق نشتر پارک میں ہونے والے دھماکے میں بال بیرنگز نے لوہے کے پائپس تک میں سوراخ کردیے تھے، جو گولی بھی نہیں کرسکتی تھی، لیکن یہ چیزیں خودکش حملہ آور کی جیکٹس میں استعمال کی جاتی ہیں، ٹرک بم کے دھماکے میں نہیں۔ دھماکا خیز مواد کی مقدار اور اس کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے زمین پر پڑنے والے گڑھے، بیلسٹک ویوزکے دائرے، درجۂ حرارت، ارتعاش اور فریگ مینٹیشن کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق انسداد دہشت گردی پر مامور ہمارے اکثر اہل کار اس مقصد کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ آلات نہیں تربیت زیادہ ضروری ہے۔ ایسی تربیت دینے والے ماہرین ملک میں موجود ہیں۔ اگر ان اہل کاروں کے پاس تربیت یافتہ دماغ ہو، تو دہشت گرد یا ان کی گاڑیاں پولیس کے ایک عام ناکے پر پکڑی جاسکتی ہیں۔

کیمرے کی مدد سے ساٹھ ہزار کے مجمعےسے ملزم گرفتار ہوگیا 

یہ اپریل 2018 کی بات ہے۔ چین کے شہر نان چنگ میں معروف گلوکار جیکی چیونگ کا کنسرٹ دیکھنے کے لیے تقریبا ساٹھ ہزار افراد جمع تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے درمیان مالیاتی جرائم میں ملوث ایسا شخص بھی موجود ہے جو متعلقہ سرکاری اداروں کو بہت مطلوب ہے۔اِکتّیس برس کا آؤ نامی یہ ملزم انجام سے بے خبر ہوکر کنسرٹ کا ٹکٹ خریدتا ہے اور آرام سے جاکر اپنی نشست پر بیٹھ جاتا ہے۔ابھی اسے وہاں بیٹھے ہوئے چند سیکنڈز ہی گزرے تھے کہ پولیس کےچند اہل کارپُرسکون انداز میں چلتے ہوئے اس کی نشست تک پہنچے اور اسے مطلع کیا کہ اسے گرفتار کیا جارہا ہے۔یہ اطلاع ملتے ہی آؤ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس دوران پولیس والے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال چکے تھے۔

ملزم آؤ کو کیمروں نے ٹکٹ خریدنے والے بوتھ پر شناخت کیا تھا۔ایساچہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کی مدد سے ممکن ہوسکا تھا۔اس ٹیکنالوجی نے یہ ممکن بنایا تھا کہ مطلوبہ ملزم کوساٹھ ہزار افراد کے درمیان درست طور پر پہچان کر دوسروں سے علیحدہ کرلیا جائے۔ پولیس کے مطابق ملزم مالیاتی جرائم میں ملوث تھا اور وہ گرفتار ہو جانے پر 'حیران تھا۔

واضح رہے کہ چین بھر میں عوام کی نگرانی کرنے کےلیے اس وقت تک سترہ کروڑ سے زاید کیمروں پر مبنی وسیع و عریض نیٹ ورک نصب کیا جاچکا تھا۔چین کے سرکاری خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے نان چنگ کے پولیس افسر لی کا کہنا تھا کہ 'ملزم کو جب انہوں نے حراست میں لیا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ گرفتار ہو جائے گا۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ ساٹھ ہزار کے مجمعے میں اسے شناخت کر لیا جائے گا، وہ بھی اتنی جلدی۔ پولیس افسر کے مطابق ٹکٹ بوتھ پر ایسے کئی کیمرے نصب ہیں جن میں انسانی چہرے کو شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی ہے۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھاکہ چینی پولیس نے چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے مطلوبہ فرد کو گرفتار کیا ہو۔ اس سے قبل اگست 2017میں پولیس نے شان ڈونگ صوبے میں 25 افراد کو اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے حراست میں لیا تھا۔واضح رہے کہ چین دنیا بھر میں چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے اور اپنے شہریوں کو اکثر یاددلاتا رہتا ہے کہ حکام سے بچنا تقریباً ناممکن ہے۔

اپریل 2018 میں پورے چین میں سترہ کروڑ سے زاید کیمروں پر مبنی نگرانی کا نظام تھا اور حکومت کا ارادہ تھا کہ اگلے تین برسوں میں یہ تعدادچالیس کروڑ کیمروں تک پہنچا دی جائے۔ نگرانی کے اس نیٹ ورک میں بہت سے کیمرے مصنوعی ذہانت اور چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ یاد رہے کہ چین فیشل ریکگنیشن ٹیکنالوجی استعمال کرنے میں دنیا کا راہ نمامانا جاتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی نہ صرف انسانوں بلکہ گاڑیوں کی بھی نگرانی کی صلاحیت رکھتی ہے اور انہیں ان کے ماڈل، کمپنی اور رنگ سے پہچان سکتی ہے۔اس ٹیکنالوجی میں چہرے پہچاننے (فیشل ریکگنیشن) اور جی پی ایس ٹریکنگ کا نظام بھی شامل کیا گیا ہے۔ اگر ڈیٹابیس میں موجود کسی شخص کے حلیے کے ساتھ کسی شخص کا ریکارڈ میچ ہوجائے تو یہ نظام خودکار انداز سے الارم بھی بجاتا ہے۔چینی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ نظام دنیا بھر میں نگرانی کاجدید ترین نظام ہے۔

ہجوم میں چہرہ شناخت کرنے والا باڈی کیمرا 

ایک برس قبل اسرائیل سے یہ اطلاع آئی تھی کہ وہاں ایک کمپنی ایسے کیمرے بنا رہی ہے جن کی مدد سے کسی بھی شخص کی پہچان انتہائی آسان ہو جائے گی۔ اگرچہ اس نے ہجوم میں ماسک بھی پہن رکھا ہو۔ یہ باڈی کیمرے اسرائیل کی فوج سے تعلق رکھنے والے ایک سابق کرنل ڈینی تِرزا کی کمپنی تیار کر رہی ہے۔ ایسے کیمرے پولیس کے اہل کاروں کے پاس ہوتے ہیں جو کسی بھی ملزم کی گرفتاری کا عمل ریکارڈ کرتے ہیں تاکہ بعد ازاں اس وڈیو کی مدد سے شواہد کو پرکھا بھی جا سکے۔

اوکلاہاما کا دھماکا…

پاکستان اور امریکا میں تفتیش کا فرق

اپریل 1995ء میں امریکا کے شہر اوکلاہاما میں ٹرک میں بارود بھر کر اسے دھماکے سے اڑانے کا جو افسوس ناک واقعہ پیش آیا، اسے11ستمبر2001ء سے پہلے امریکا میں سب سے تباہ کن واردات قرار دیا جاتا تھا۔ اس واقعے کی تفتیش امریکا کی تاریخ میں کسی جرم کی سب سے بڑی تفتیش قرار دی جاتی ہے، جس کا سرکاری نام "OKBOMB" تھا۔ تفتیش کے دوران ایف بی آئی کے اہل کاروں نے 28000 انٹرویوز کیے، 3.2 ٹن وزنی شواہد جمع کیے اور اطلاعات کے تقریباً ایک ارب ٹکڑے حاصل کیے تھے۔ ملزم مک وے ٹموتھی کو 1997ء میں سزا سنائی گئی اور11 جون 2001ء کو اسے زہرکے انجیکشن کے ذریعے موت کی سزا دی گئی اور اس کے ساتھی کو عمرقید کی سزا ملی۔

دھماکا ہونےکےنوّےمنٹ کےاندرٹموتھی کو ریاست اوکلاہاما کی پولیس نے ایک سڑک پر روک کر بغیر لائسنس پلیٹ کے گاڑی چلانے اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں گرفتار کرلیا تھا۔ اس کے فوری بعد فورینزک ثبوتوں کی مدد سے ٹموتھی اور اس کے ساتھی کے دھماکے میں ملوث ہونے کی تصدیق کردی گئی۔

اس دوران نکولس کو بھی گرفتار کیا جاچکا تھا۔ پھر چند ہی یوم میں ملزمان پر فرد جرم عاید کردی گئی تھی۔ اس واردات کے بعد امریکا کی حکومت نے وفاقی عمارتوں کے ارد گرد حفاظتی انتظامات بڑھانے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے قانون سازی کی تھی۔ یہ قانون موجود ہونے کی وجہ سے 1995ء سے 2005ء کے دوران اندرون ملک دہشت گردی کے 60 منصوبے پکڑے گئے تھے۔

اس واردات کی تفتیش کے دوران ایف بی آئی نے یہ تک جاننے کی کوشش کی کہ 1988ء میں ٹموتھی اور نکولس کی ملاقات کیسے اور کہاں ہوئی۔ ان کے خیالات کیا تھے، ان کا ابتدائی منصوبہ کیا تھا، وہ کتنے عرصے تک کب اور کہاں رہے، انہوں نے کس تاریخ کو کس شخص سے دھماکا کرنےکے لیے استعمال ہونے والا مواد یا سامان کیسے خریدا، اسے کب، کہاں اور کیسے رکھا، اس مقصد کے لیے رقم کیسے حاصل کی، کس گاڑی میں کب اور کیسے یہ سامان ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا، گاڑی کا کرایہ کتنا تھا، بم بنانے پر کتنی لاگت آئی، شاک ٹیوب کے کتنے اسپولز اور کتنے الیکٹرک بلاسٹنگ کیپس کب اور کیسے حاصل کیے۔ 

انہوں نے نمونے کے بم کا تجربہ کیسے اور کہاں کیا۔ جس ٹرک کے ذریعے دھماکا کیا گیا اسے کیسے اور کب حاصل کیا گیا اور اس میں کیا تبدیلیاں یا ترامیم کی گئی تھیں۔ دھماکے کے نتیجے میں کتنے کلومیٹر کے قطر میں کتنی عمارتوں کے شیشے ٹوٹے اور ان سے کتنی ہلاکتیں ہوئیں۔ کل کتنی گاڑیاں جلیں، ان کے گیس ٹینکس اور ٹائرز پھٹنے سے کس شدت کی سیکنڈ بلاسٹ ویوو پیدا ہوئی اور اس سے کس قسم کے نقصانات ہوئے۔ 

واضح رہے کہ یہ دھماکا 2300 کلوگرام سے زاید وزن کے ٹرائی نائٹروٹولین سے ہونے والے دھماکے کے مساوی طاقت کا تھا، جس سے زمین میں 30 فیٹ چوڑا اور 8فیٹ گہرا گڑھا بن گیا تھا۔ تفتیش کاروں نے تباہ شدہ ٹرک کے ایکسل کے ذریعے اس کے ماڈل کا پتا لگایا۔ پھر اس کی نمبر پلیٹ کے ذریعے وہ اسے کرائے پر دینے والے ادارے تک پہنچے۔ وہاں کے عملے کی مدد سے انہوں نے کرائے پر ٹرک حاصل کرنے والے شخص کا خاکہ بنایا،جس کے ذریعے انہوں نے ٹموتھی کو اس واردات کے ملزم کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔

اب پاکستان کی طرف لوٹیے۔ یہاں دہشت گردی کی پچاسوں وارداتیں ہوئیں، لیکن ان کے پیچھے موجود اصل دماغ تک پولیس یا دیگر ادارے آج تک نہیں پہنچ سکے۔ تاہم چھوٹے موٹے کارندے گرفتار ہوتے رہے اور کم زور تفتیش یا ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر ان میں سے اکثر رہا ہوگئے۔ کراچی کے ریڈزون میں واقع کرائم انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ آفس پر 11 نومبر 2010ء کی رات کو ہونے والی دہشت گردی میں استعمال ہونے والے ٹرک کے بارے میں دو تین روز تک طرح طرح کی اطلاعات سامنے آتی رہیں۔ 

اس طرح کے بہت سے معمے آج تک حل نہیں ہوسکے ہیں۔ البتہ حملہ آور کا سر ضرور تلاش کرلیا جاتا ہے۔ پھر اس کے بارے میں جو دعوے کیے جاتے ہیں وہ بعد میں بہت مضحکہ خیز انداز میں غلط ثابت ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ غلط دعوے کی بنیاد پر سرکاری اہل کاروں کو انعامات اور اعزازات تک مل جاتے ہیں۔ امریکا میں اس واقعے کے بعد امونیم نائٹریٹ فرٹیلائزر کی خرید و فروخت کا مکمل ریکارڈ رکھنے کا قانون بھی منظور کیا گیا، لیکن یہاں اس قدر دہشت گردی ہونے کے باوجود ایسے کئی قانونی خلا موجود ہیں۔