نوازشریف حکومت کے کچھ طاقتور وزرا نادرا کے چیئرمین طارق ملک سے اتنے خوفزدہ کیو ں تھے؟ طارق ملک کو افراتفری میں قواعد و ضوابط کو پس پشت ڈال کر ان کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟ اسلا م آباد ہائی کورٹ نے طارق ملک کوفوری طور پر بحال کیسے کر دیا؟ اب حکومت کےطاقتور وزرا طارق ملک سے جان چھڑانے کے لئے کون سا نیا طریقہ اپنائیں گے؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے میں آپ کو 2006 میں لے جاتا ہوں۔ یہ وہ سال تھا جب پیپلزپارٹی کی قیادت اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ دونوں جماعتوں نے مل جل کر پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف جدوجہد کافیصلہ کیا لیکن کچھ ہی عرصے میں مشرف نے ان دونوں جماعتوں کااتحاد توڑنے کے لئے پیپلزپارٹی کے ساتھ این آراو کرلیا۔ این آر او کے باوجود مشرف نے 3نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے انتخابات میں دھاندلی کا منصوبہ تیارکرلیا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک دفعہ پھرمل کر دھاندلی کے خلا ف شور مچانا شروع کیا۔ پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل راجہ پرویز اشرف اور مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا نے یورپی ممالک سمیت امریکہ، کینیڈااور برطانیہ کی حکومتوں کو خط لکھے کہ 2008 کے انتخابات کی مانیٹرنگ کے لئے الیکشن آبزرور بھیجے جائیں۔ انتخابات سے کچھ عرصہ قبل امریکی ریاست مشی گن کی ایک ڈیٹا مینجمنٹ کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر کام کرنے والے پاکستانی طارق ملک کو پوچھا گیا کہ کیا وہ الیکشن آبزرور کے طور پر پاکستان جانا پسند کرے گا؟ طارق ملک کو پاکستان آنے جانے کی ہوائی ٹکٹ کے علاوہ کمپنی سے ایک ماہ کی چھٹی کی پیشکش کی گئی۔ طارق ملک نے یہ پیشکش قبول کرلی اور وہ 43دیگر الیکشن آبزرورز کے ہمراہ پاکستان پہنچ گیا۔ پاکستان آ کر اس نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) ، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور کچھ دیگر جماعتوں کی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ ان کی شکایات کو غورسے سنا۔ مشرف حکومت کاموقف حاصل کیااور ایک رپورٹ تیار کی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کے انتخابی نظام میں کیا خرابیاں ہیں اور انہیں کیسے ختم کیاجاسکتاہے؟ اس دوران محترمہ بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیااورطارق ملک واپس امریکہ چلاگیا۔
طارق ملک نے جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی اور امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے پاس کینیڈا کی شہریت تھی اور وہ امریکہ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سکون کی زندگی گزاررہا تھا۔ اس کے والد پروفیسر فتح محمد ملک پاکستان کے معروف ماہر تعلیم اور ادیب ہیں۔ انہوں نے اپنے رزق حلال سےطارق ملک کی ایسی تربیت کی کہ وہ امریکہ میں بیٹھ کر ڈالرتو کما رہا تھالیکن اس کادل پاکستان میں اٹکا ہوا تھا۔بیرون ملک مقیم لاکھوں پاکستانیوں کی طرح طارق ملک کا دل بھی پاکستان کے حالات پرکڑھتا تھا اور وہ اپنے پیارے وطن کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی کمپنی کی طرف سے افریقہ اورایشیا کے کئی ممالک میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا نیانظام متعارف کرایا تھا۔وہ پاکستان کے لئے بھی کچھ کرنا چاہتاتھا۔ 2008 کے وسط میں نادرا نےاپنی ڈیٹا مینجمنٹ کو بہتر بنانے کے لئے جنرل منیجر نیٹ ورکس کے عہدے کے لئے درخواستیں مانگیں۔ طارق ملک کو ایک پاکستانی اخبار میںشائع ہونےوالے اشتہار سے اطلاع ملی تو اس نے بھی درخواست بھیج دی۔ نادرا کے چیئرمین سلیم معین اور دیگر حکام نے کئی امیدواروں کے انٹرویو کئے اور طارق ملک کومنتخب کرلیا۔
طارق ملک کو نادرا میں جو تنخواہ آفر کی گئی وہ اس کی امریکہ میں تنخواہ سے کم تھی لیکن پاکستان کی خدمت کے لئے وہ امریکہ چھوڑ کر وطن واپس آ گیا۔ جب سلیم معین نے نادرا چھوڑا تو انہوں نے حکومت کو تحریری طور پر کہا کہطارق ملک چیئرمین کے عہدے کے لئے مناسب ترین شخص ہے لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے علی ارشد حکیم کو چیئرمین نادرا بنا دیا۔ اس دوران نادراکےتمام ٹیکنیکل شعبے طارق ملک کے حوالے کردیئے گئے اور انہوں نے نادرا میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی۔ ان کی کارکردگی کی بنیادپرانہیں ڈپٹی چیئرمین بنا دیاگیا۔ 2012میں علی ارشد حکیم کو ایف بی آر میں بھیجاگیا تو طارق ملک چیئرمین نادرا بن گئے۔ چیئرمین بننے کے بعد انہوں نےڈیٹاٹیکنالوجی کے میدان میں بھارت پر برتری ثابت کی۔کچھ عرصہ قبل سری لنکا نےاپنے شناختی کارڈ کے نظام میں جدیداصلاحات متعارف کرانے کےلئے انٹرنیشنل ٹینڈر طلب کئے۔ طارق ملک کی کوششوں سےیہ کنٹریکٹ بھارت کی بجائے پاکستان کو ملا لیکن دوسری طرف چودھری نثار علی خان سمیت کچھ وزرا طارق ملک سے ناراض تھے۔طارق ملک نے 2013 کےانتخابات اوربعدازاں ضمنی انتخابات میںہونے والی دھاندلیوں کےپول کھول دیئے تھے۔ انہوں نے یہ پیشکش کردی تھی کہ وہ بیلٹ پیپرز پر انگوٹھے کے نشانات سے ووٹر کے اصلی یا نقلی ہونے کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ محرم کے دنوں میں راولپنڈی میں فرقہ وارانہ فساد ہوا جس میں کئی لوگ مارے گئے۔ حکومتی ادارے ملزمان کاسراغ لگانے میںناکام تھے۔طارق ملک نے خود حکومت کو تحریری طورپر پیشکش کی کہ وہ ویڈیو فوٹیج سے ملزمان کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ انہوں نے گیارہ ملزمان کی نشاندہی کردی۔ اس واقعے نے ان کے دشمنوں کی تعدادمیں مزید اضافہ کردیا۔ کچھ لوگوں کاخیال تھا کہ طارق ملک کی موجودگی میں پنجاب کے کچھ انتخابی حلقوں میں ہونے والی دھاندلی کا سراغ مل سکتا ہے۔ ایک حساس اداے کے لوگ طاقتور وزرا کو طارق ملک سے ڈرانے لگے۔ وزرا نے طارق ملک کی بہت انکوائریاں کرائیں لیکن فتح محمدملک کے برخوردار کے دامن پر کرپشن کا کوئی چھینٹا نہ ملا۔ اس دوران چیف الیکشن کمشنر تبدیل ہوگئے۔ نئے الیکشن کمشنر کے لئے طارق ملک کی بریفنگ تیار تھی۔ طاقتور وزرا چاہتے تھے کہ طارق ملک کی نئے الیکشن کمشنر سے ملاقات نہ ہو شاید یہ ملاقات آنے والے بلدیاتی انتخابات میں ان وزرا کےلئے مشکلات پیدا کرسکتی تھی۔ ان کے دل و دماغ میں کوئی طوفان سا برپا تھا اور انہوں نے طارق ملک سے استعفیٰ مانگا۔ انکار پر انہوں نے رات کے پچھلے پہر طارق ملک کو برطرف کردیا۔ اقتدار کے نشے میں ذہنی طور پر ڈگمگاتے وزراکو اندازہ نہیں تھا کہ آزاد میڈیا اور عدلیہ کی موجودگی میں وہ آئین و قانون کے ساتھ غل غپاڑہ نہیں کرسکتے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے طارق ملک کو بحال کردیا کیونکہ نادرا آرڈیننس کے مطابق چیئرمین کو انکوائری کئے بغیر فارغ نہیں کیا جاسکتا۔ طارق ملک سے جان چھڑانے کی کوشش میں کچھ وزرا نے حکومت کے ماتھے پر بدنامی کا ایک داغ لگا دیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کو بہت ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچناہوگا کہ انہوں نےانتخابات سے قبل عوام کے ساتھ کیا وعدے کئے تھے اور اب کچھ وزرا کے کیا کرتوت ہیں؟ اب طارق ملک سے جان چھڑانے کے لئے عدالتوں میں یہ درخواست ڈالی جائے گی کہ وہ کینیڈا کا شہری ہے اسے برطرف کیا جائے۔ ایسی دو درخواستوں کو عدالتیں ماضی میں مسترد کرچکی ہیں۔ طارق ملک کے عہدے کی آئینی مدت جولائی 2015تک ہے۔ حکومت چاہے تو انہیں نکالنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی سکتی ہے لیکن بہتر ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اپنے کچھ وزرا کے ساتھ ساتھ طارق ملک کی بھی سن لیں۔ امریکہ کی نوکری چھوڑ کر پاکستان آنے والے اس شخص کو پھر سے نکالنے سے پہلے بلا کر پوچھ تو لیں کہ ملک صاحب! کچھ وزرا آپ سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟