• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے بچپن میں غباروں کا بہت شوق تھا ۔چین کے موسمی حالات جانچنے والے غبارے کو جب امریکہ نے گرا یا تو پہلے وہی یاد آئے پھرمجھے ورجن کے پریمیئر مسافر پرواز آپریٹر کے ساتھ ایک شاندار گرم ہوا کے غبارے میں گزارے ہوئے تین گھنٹے یاد آگئے ۔ اڑنے کا یہ یادگارتجربہ شاید مجھے کبھی نہ بھولے ۔یہ واقعی ایک پُرجوش ہوائی مہم جوئی تھی ۔اوپر نیلگوں آسماں تھا اور نیچےبرطانیہ کے خوبصورت مناظر۔ سفر کا آغاز طلوع آفتاب کے ساتھ ہوا تھا۔بہر حال اس دلنواز سیر کی داستاں پھر کبھی ۔ ابھی کچھ گفتگو اُس غبارے کی ، جسے گرادیا گیا۔یہ غبارہ جس میں موسمیاتی پیٹرن کے مطالعہ کےسائنسی آلات نصب تھے ۔موسمی پیٹرنز کو سمجھنے کیلئے ایسے غبارے اکثر فضا میں چھوڑے جاتے ہیں ۔ان میں سمت کے تعین کیلئے گائیڈنگ اپریٹس لگے ہوتے ہیں ۔یہ بیچارہ غبارہ اپنے گائیڈنگ اپرٹیس میں خرابی کے سبب امریکہ کی فضائی حدود میں دا خل ہو گیااور پھر امریکہ نے اسے چین کا جاسوس غبارہ قرار دے کر سمندر میں گرادیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان غباروں سے جاسوسی ہو سکتی ہے ۔کہتے ہیں یہ غبارے بالکل نچلی سطح پر اڑتے ہوئے تیز رفتار سیٹلائٹس کے مقابلے میں چیزوں کی زیادہ گہری اور صاف تصاویر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ خیر جاسوسی کا الزام تو کسی چیز پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ پچھلے دنوں بھارت نے پاکستان کی طرف سے اڑ کرجانے والے ایک کبوتر کو جاسوس کبوتر قرار دے کر مار دیا تھا ۔پاکستان نے تو اس بیچارے کبوتر کے خون ِ نا حق پر احتجاج بھی نہیں کیا تھا ۔چین نے البتہ اپنے غبارے کو مار گرانے پر ناراضی کا بھرپور اظہارکیا ہے اور کہا ہےکہ امریکہ نے غبارے کو گرا کر بین الاقوامی طریقہ کار کی خلاف ورزی کی ہے۔امریکہ کے نزدیک یہ مشتبہ چینی جاسوس غبارہ تھا جو ساٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہا تھا ۔تقریباً ساٹھ میٹر لمبا تھا اور اس کے نیچے کا باکس اندازاًدوہزار پونڈ کے قریب وزن اٹھائے ہوئے تھا۔ غباروں کے متعلق ابھی تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ یہ 24ہزار سے 37ہزار فٹ کی بلندی تک اڑ سکتے ہیں ۔60ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے والا یہ پہلا چینی غبارہ تھا۔

حیران ہوں کہ صرف ایک مشتبہ چینی غبارے نے پوری امریکی حکومت کو ہلا دیا ۔امریکہ صدر کو باقاعدہ اس غبارے سے متعلق بریفنگ دی گئی ۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بیجنگ کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا ۔پینٹاگون نے اس سے متعلق باقاعدہ پریس کانفرنس کی اور خطرہ ظاہر کیا کہ اس کے گرانے سے آبادی کو نقصان پہنچ سکتاتھا سواسے سمندر کے اندر گرایا گیا۔پینٹاگون نے یہ بھی کہا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں کم از کم تین مرتبہ چینی جاسوسی غبارے امریکی فضائی حدود میں منڈلاتے رہے مگر ابھی تک امریکہ کوئی ایسا ثبوت فراہم نہیں کر سکا جس سے ثابت ہوکہ وہ موسمیاتی نہیں جاسوس غبارہ تھا۔امریکہ ابھی تک یہی کہہ رہا ہے کہ چینی غبارے میں نصب ڈیوائس کی تلاش جاری ہے جس کے مطالعے اور مشاہدے کے بعد چین کے عزائم کے بارے میں تفصیل سے کچھ کہا جا سکے گا۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ امریکہ نےاسے کھینچ کر زمین پر لانے کی بجائے جنگی طیارے ایف بائیس کی مدد سےگرانا کیوں پسند کیا۔اگر امریکہ کو یقین تھا کہ وہ جاسوس غبارہ ہے تو اسے زمین پر اتارتااور دنیا کو دکھاتا کہ یہ دیکھئے یہ چین کا جاسوس غبارہ ہے اس میں جاسوسی کے آلات لگے ہوئے ہیں مگر امریکہ اسے گرانا زیادہ مناسب سمجھا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس غبارے کو بنیاد بنا کر یہاں تک لکھ دیا کہ ’’ جاسوسی غباروں کے ذریعے چین برسوں سے امریکہ، جاپان، بھارت، ویتنام، تائیوان، فلپائن سمیت دنیا کے ایسے کئی سے ممالک کی جاسوسی کر رہا ہے، جن کا چین کے ساتھ تنازع ہے۔ ان کے ذریعے چین ان ممالک کے فوجی اثاثوں کی تفصیلات اکٹھا کر رہا تھا‘‘۔

اب معاملہ صرف چینی غبارے تک محدود نہیں رہا ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی فوج کے ایک لڑاکا طیارے نے صدر جو بائیڈن کے حکم پر شمال مغربی ریاست الاسکا کے ایک دور دراز ساحل پر ہوا میں پرواز کرنے والی ایک نامعلوم چیز کو مار گرایا۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان کے مطابق یہ چیز تقریباً ایک چھوٹی کار کے سائز کے برابر تھی جو اس بڑے مشتبہ چینی جاسوس غبارے کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھی جسے امریکی ایئر فورس کے لڑاکا طیاروں نے ہفتے کے روز جنوبی کیرولائنا کے ساحل پر مار گرایا تھا۔صدر بائیڈن نے اس شے کو مار گرانے پر صرف اتنا کہا کہ ’یہ ایک کامیابی تھی‘۔کسی زمانے میں ایسی چیزوں کو اڑن طشتری قرار دیا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ یہ کسی اور سیارے سے آتی ہیں۔بہر حال ابھی تک اس کار کی سائز والی اڑتی ہوئی چیز کو امریکہ نے ’’چینی اڑن کار‘‘ قرار نہیں دیا۔چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے والی یہ کار جس ملک نے بھی بنائی ہے ۔بہر حال یہ طے ہے کہ وہ امریکہ نہیں۔آج جاسوس طیارے پر شور مچاتی ہوئی امریکی حکومت کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ کیایہ ردعمل درست ہے ؟۔ غباروں کی کہانی جو بچوں کے غباروں سے شروع ہوئی اور پھر مسافر بردار غباروں تک پہنچی ۔وہاں سے اب جاسوس غباروں کا موڑ مڑ چکی ہے۔ دیکھئے آگے آگے کیا ہوتا ہے۔

تازہ ترین