• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محبت دیرپا ہو یہ کوئی یکطرفہ معاملہ نہیں ہوا کرتا، محبت کچھ بھی نہ مانگے کم از کم محبت کے بدلے محبت مانگنے کا تو محبت کو حق دو !

جمہوریت بھی بدلے میں جمہوریت مانگتی ہے، ایسا نہیں کہ، آمریت کے بطن سے جمہوریت پیدا نہیں ہو سکتی ، ہو سکتی ہے، لیکن تکلیف کی انتہا اس وقت ہوتی ہے جب جمہوریت کی کوکھ سے آمریت جنم لے۔ یہاں آکر اکثر مبصرین، اکابرین اور مومنین کی بس ہو جاتی ہے!عوام کی خان سے محبت، ایک امید اور آس سے محبت ہے، عوام نے اپنا فرض ادا کردیا، والدین نے نوجوان نسل کی ہاں میں ہاں ملا کر والدین ہونے کا حق ادا کردیا، صرف والدین ہی نہیں، جمہوریت پسند، ترقی پسند اور تبدیلی کی امنگ میں ہم آہنگ ہو کر بھی اپنا فرض ادا کردیا ، باوجود یہ سب جانتے ہوئے کہ، تبدیلی کا کیڑا ، ریشم کا کیڑا بن کر کِن پَتوں پر اور نرسری میں پلتا رہا۔ بچوں کی سیاسی تعلیم و تربیت مشرف دور سے شروع ہوئی، مربی منصف اور محقق الیکٹرانک میڈیا رہا۔ تبدیلی کے انویسٹر نے ساری انویسٹمنٹ میڈیا پر کردی،’’تعلیم‘‘ کی آبیاری ازخود تربیت سے ہونی تھی، اس نے بھی اپنی طبیعت اور تربیت کیلئے مخصوص میڈیا کو مستعار لے لیا۔ لو سفر شروع ہو گیا !

ایک دوست نے ہماری موجودگی میں اپنی لیکچرار بیٹی سے پوچھا، بیٹا لیفٹِسٹ کیا ہیں؟ جمہوریت کسے کہتے ہیں؟ عمران خان کو کیوں سپورٹ کیا جائے؟ جواب ملا ۔ بابا باقی سب چور ہیں۔ بیٹا! آپ کو کیسے معلوم؟ روزانہ میڈیا وسوشل میڈیا بتاتاہے۔ بینک ملازم بیٹے سے پوچھا، پاکستان کا بجٹ کتنا ہے؟ نواز شریف اور آصف علی زرداری پر کرپشن کا الزام کتنا ہے؟ ہماری معیشت کی خرابی کے عوامل کون سے ہیں؟ بیٹے کے پاس بھی وہی جواب، جو بیٹی نے دیا۔ پروفیسر صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ میں اولاد کی تربیت پر نازاں تھا اور انہیں پروفیشنل جانتا تھا سو ان کی علمیت و اہمیت پر قربان ہوگیا، آہ ! ’’کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘۔ پروفیسر نے دوسری بیٹی کو بلایا جو پاکستان کی سب سے قیمتی یونیورسٹی کی ریسرچر تھی۔ بیٹی! خان کو کیوں ووٹ دیں؟ بابا! اس نے اسمبلی کو الوداع کہہ دیا، لعنت بھیج دی ایسی اسمبلی پر جس میں سب کرپٹ ہیں، 2018 سے قبل چوروں ہی کی حکومت رہی، صرف چور مسلط تھے عمران خان کے آنے پرپرانے چور حکومت میں نہیں آئے تھے، امریکی خط سے یوں اسمبلی ٹوٹی، پی ڈی ایم امپورٹڈ، عمران کی اقوام متحدہ میں وہ تقریر، مرشد شریک حیات چُنی، جمائمہ اچھی تھی ، ریحام کو ٹھیک چھوڑا ... وغیرہ وغیرہ، بیٹی کا ’’کانسیپٹ‘‘ بہت کلیئرتھا۔ بابا نے پوچھا:بیٹا! میثاقِ جمہوریت کیا تھا؟ شیخ رشید کتنی حکومتوں میں رہا؟ شاہ محمود قریشی پہلے کس کا سیاسی مجاور اور وزیر خارجہ تھا؟ جعفرلغاری مرحوم کس کس پارٹی میں رہے؟ خسرو بختیار کون ہے؟ فواد چوہدری، فردوس عاشق، سرور صاحب، وہ میانوالی سے امجد خان کے والد شیرافگن نیازی اور..؟ اچھا، یہ جو اسمبلی پر لعن طعن کیا، اور اب بذریعہ عدالت پھر اسمبلی میں مر مرا کر پہنچنے کی بے تابی؟ کیا لیڈر شپ پہلے سوچ سمجھ کر فیصلے نہیں کرتی؟ کیا قائدِ اعظم فیصلے کرکے ہر فیصلے کے بعد سوچتے اور مُکر جاتے؟ کیا پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکری، اصلاحات دینے کے وعدے قبل از انتخابات سوچ سمجھ کر کئے؟ اچھا بیٹی! چھوڑئیے سب سوالات یہ گیس لائٹنگ اور پوسٹ ٹرُتھ سیاسی دنیا کے کیا حربے ہیں اور خان نے کیسے استعمال کئے؟ یہ سب مجھے کیا معلوم... بابا! چوروں کے حق میں کیوں بات کر رہے ہو اور مجھے کیوں کنفیوژ کر رہے ہو؟ بیٹا مکالمہ ہی تو جمہوریت... رہنے دو بابا کیا کرنی ہے جمہوریت۔ عمران خان تو چور نہیں...! سو یہ رکھی پڑی ہے ساری ’’آرٹیفیشل انٹیلی جینس‘‘!

کس کہانی میں الجھ گئے، مظفرآباد سے ایک پرانے بیوروکریٹ دوست اور محقق اکرم سہیل اکثر کہتے ہیں’’کسی بھی قوم کے معیار ِ حق پرستی کو نظامِ عدل کے معیار سے پرکھتے ہیں‘‘ لیکن یہاں ایک بات ضروری ہے کہ امریکہ اور ملائشیا میں بھی یہ مثالیں موجود ہیں کہ ایوانِ صدر یا ایگزیکٹو نے عدلیہ کی نافرمانی کی، جدید جوڈیشل ڈویلپمنٹ کے باوجود امریکہ، لاطینی امریکہ اور جنوبی افریقہ میں ایگزیکٹو-جوڈیشل تنازعہ پایا گیا۔ لیکن کمزور جمہور اور مکالمہ سے عاری ریاستوں اور بےاصول سیاست دانوں کے بسیروں والے ممالک میں ’’جوڈیشل مارشل لاء‘‘ ایک خاموش و بے ہوش انقلاب بن جایا کرتا ہے تاہم ترقی یافتہ ممالک میں نہیں، دقیانوسی معاشرے ہوں یا جدتوں والے ایگزیکٹو،جوڈیشل تنازعہ کی نمو کا سبب ایک ہی ہوتا ہے جو ہر ریاست کو بھگتنا پڑتا ہے یعنی جوڈیشل اور ایگزیکٹوز کا باہمی تعصب جو ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا اور اناؤں کو بلند و بالا کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ کہ بقول کلاسیکل لیگل اسکالر اسٹیفن برئیر ’’امریکہ میں متعدد بار مختلف سطح پر عوام، کانگریس اور صدر نے سپریم فیصلے کو نظر انداز کیا، حکم عدولی کی یا چیلنج کیا‘‘ مگر اہم بات یہ کہ جمہوریت کا سورج بدستور دستوری توانائیوں سے آب و تاب ہی سے چمکا۔ہمارے کئی اسکالر لگے رہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت تھی نہ ہے اور نہ ہوگی، جانے وہ امریکی، برازیلی یا یورپی جمہوری تاریخ سے نا آشنا ہیں۔ منزل تو خیر کمال تاہم جمہوری سفر میں بھی ایک مزا ہے۔ جمہوریت پر سنگ باری کرنے والے آمریت کے بھاری پتھر اور مقتدر کشید جمہوریت کو بھول کر اقوام پر ظلم کرتے ہیں۔ مکالمے کی حد تک درست ہے لیکن نیت کی خرابی بگاڑ کے سوا کچھ نہیں دیتی۔ محبت اور جمہوریت بدلے میں محبت اور جمہوریت ہی مانگیں گی:اگر کبھی کہیں جمہوریت کی ویل بیلسنگ اور الائنمنٹ کرنی پڑجائے تو کیا حرج ہے، لیکن یہ بھی جمہور پسند ہی کرسکتے ہیں متعصب عادل یا مشینی ٹیکنوکریٹ نہیں۔ دائیں بازو، بائیں بازو، نیم بائیں بازو اور ’’وسطی‘‘ سیاستدانو ہر معاملہ سپردِ عدالت کرو گے تو جمہوریت سپردِ خاک ہو گی۔ مقابلہ میدان ہی میںہو سکتا ہے لیکن خراب گاڑی کو میدان میں اتارو گے تو حادثے کا ویسا ہی خطرہ ہے جیسے انجان ڈرائیور سے ! تھوڑا مکالمہ، کچھ اناڑیوں سے بچ بچاؤ اور کچھ دیکھ بھال کے بعد میدان ہی بہتر ہے!

تازہ ترین