• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں گزشتہ دنوں پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس موقعے پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی ترقی میں پالیسیوں کا تسلسل ناگزیر ہے، بد قسمتی سے ہم بلیو اکانومی کے پوٹینشل سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکے۔بلیو اکانومی کے فروغ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ برآمدات کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، ہمیں بلیو اکانومی کے ذریعے پاکستان کی برآمدات کو بڑھانا ہے۔

گوادر کی بندرگاہ ملکی معیشت کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان کو ایکسپورٹ اکانومی پر انحصار کرنے والا ملک بنانے کی ضرورت ہے، منسٹری آف پورٹس اینڈ شپنگ کو منسٹری آف میری ٹائم افیئرز میں تبدیل کرنے کے پیچھے ایک پورا وژن تھا، پاکستان میں بحری تجارت میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع ہیں۔

پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس (پی آئی ایم ای سی) 2023 کے دو سیشنز کی صدارت کرتے ہوئے سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین نے بلیو اکانومی کے فروغ کے لیےپانچ نکاتی ایکشن پلان کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلیو اکانومی سمندری اور معدنی وسائل کے علاوہ سی پیک اور پاکستان، چین اور سعودی عرب کے درمیان اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی تعمیر ایک متبادل ترقیاتی نقطہ نظر کے لیے اہم پیش رفت ثابت ہوگی جو 'آئی ایم ایف کو خیر باد کہنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ 

پاکستان کی اقتصادی ترقی کی حکمت عملی کے لیے درست راستہ یہ ہے کہ بلیو اکانومی کے لیے حکمت عملی کے ذریعے سمندری وسائل کی تلاش اور ان سے استفادہ کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے، جس کے مطابق، عالمی بینک کے پاس کم از کم سوارب ڈالرزکے وسائل ہیں۔ 2015 میں پاکستان کے براعظمی شیلف میں پچاس ہزار مربع کلومیٹر کو ایک خصوصی اقتصادی زون کے طور پر شامل کیا گیا۔ پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ، تقریباً پانچویں صوبے کی طرح ہے۔ اس سمندری معیشت میں تھر میں بے تحاشہ معدنی دولت، قدرتی گیس کے وسیع ذخائر اور 175 ارب ٹن کوئلے کا اضافہ ہے۔

یہ سب مجموعی طور پر تقریباً ایک کھرب ڈالر کی پوشیدہ دولت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان علاقوں پر پالیسی کی عدم موجودگی کی وجہ سے بالکل بھی استفادہ نہیں کیا گیا۔ سینیٹر مشاہد حسین نے پانچ نکاتی ایکشن پلان کے ذریعے متبادل اقتصادی ترقی کی حکمت عملی تیار کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے، حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایک نیشنل اتھارٹی فار بلیو اکانومی (این اے بی ای) قائم کرے، تاکہ ایک جامع حکمت عملی تیار کی جا سکے جس میں پاکستان نیوی، میری ٹائم افیئرز کی وزارت اور پرائیویٹ سیکٹر بہ طور پرنسپل اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں ۔وزارت بحری امور میں ایک سیکریٹری ہونا چاہیے۔

 یہ وزارت سمندری امور کو بلیو اکانومی میں ایک فعال اور اہم کھلاڑی بنائے گی۔ انہوں نے کہاکہ ماہرین، ماہرین تعلیم، تھنک ٹینکس اور متعلقہ پرائیویٹ سیکٹر پر مشتمل ایک خصوصی غیر سرکاری ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا جائے جو2023 میں ایک ورک پلان وضح کرے۔ بلیو اکانومی کے لیے یہ بلیو پرنٹ اپنانے سے پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور آئی ایم ایف کو خیر باد کہنے میں مدد ملے گی۔

کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقد پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کے تحت امن مشق 2023 کی اختتامی تقریب سے خطاب کے دوران وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری نے کہاکہ حکومت بلیو اکانومی کے فروغ کے لیے ساحلی علاقوں میں نئے منصوبوں کا آغاز کررہی ہے۔ یاد رہے کہ امن مشق 2023 نمائش 10 سے 12 فروری تک جاری رہی جس میں غیر ملکی اداروں نے بھی شرکت کی۔

عالمی تجارت میں سمندروں کا کردار

عالمی تجارت میں بحری نقل و حمل سب سے اہم ذریعہ ہے اورکُل عالمی تجارت کے مجموعی حجم میں اس کا حصّہ دو تہائی سے زاید بتایا جاتا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سمندر انسان کے لیے کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسری جانب یہ انسان کے لیے پروٹین کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔مختلف ممالک کے دعووں کے مطابق ان کے زیر انتظام رقبے میں سے 95فی صد تک سمندری حدود پر مشتمل ہے ۔3ارب 50کروڑ انسان بنیاد ی خوراک کے لیے سمندر اور ساحلی وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈپارٹمنٹ آف اکنامک اینڈ سوشل افیئرزکے مطابق زمین پرموجود 97فی صدپانی دراصل سمندر میں پایا جاتا ہے۔ تاہم سمندروں کے پانی کی آلودگی سے عالمی سطح پر ہر سال 12.8ارب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔

سمندروں کی وسعت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک انسان سمندری حیات کا صرف 10فی صد ہی دریافت کرپایا ہے ۔ انٹر نیشنل چیمبر آف شپنگ کے مطابق 150ممالک میں رجسٹرڈ 50ہزار سے زاید بحری جہازوں کے ذریعے90فی صد عالمی تجارت ہوتی ہے ۔ یونائیڈ نیشنز کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ کی رپورٹ ’’ ری ویو آف میری ٹائم ٹرانسپورٹ 2014ء‘‘ کے مطابق چار دہائیوں (1968-2008ء)میں سمندرکے راستےتجارت کے حجم میں 3 گنا اضافہ ہوا۔2016ءکی رپوٹ کے مطابق پہلی مرتبہ سمندرکے راستے تجارت 10 ارب ٹن سے بڑھ گئی تھی۔ اس کے باوجود سمندروں کے بارے میں بعض بہت تلخ حقایق بھی ہیں ۔ مثلا ہر سال 6ارب 50کروڑ کلوگرام آلودہ پانی زمین سے سمندر کا حصہ بنتا ہے۔ زمین پر رکازی ایندھن جلنے سے پیدا ہونے و الی 30سے50فی صد تک کاربن ڈائی آکسائیڈ سمندر جذب کرتے ہیں۔ تاہم سمندروں کا درجہ حرارت بڑھنے سے ان کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت کم ہو تی جارہی ہے ۔

کرہ ارض کے 70 فی صد سے زاید رقبے پر پانی پھیلا ہواہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کے چھوٹے بڑے سمندورں پر کن قوانین کا اطلاق ہوتا ہے؟ اسی وجہ سے ’’سمندروں کی آزادی‘‘کےعالمی قانون کے بنیادی اصول کا سوال اٹھتا ہےجو بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہ تجارت سے لے کر سفر اور قومی سلامتی تک ہر معاملے پر اثر انداز ہوتا ہے۔

مفادات اور حاکمیت

ہزاروں برسوں سے ہم معاش، تجارت، وسائل کی تلاش اور دریافت کے لیے سمندروں پر انحصار کرتے چلے آرہے ہیں۔ اسی لیےسکیورٹی، تجارت اور وسائل سمیت اس شعبے سے وابستہ مختلف مفادات میں توازن پیدا کرنے کے لیے عالمی جہاز رانی کا ایک نظام وضع کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ چناں چہ آج عالمی قوانین کا جامع مجموعہ سمندر میں کی جانے والی تمام سرگرمیوں اور سمندرکے بارے میں کیے جانے والے تمام دعووں کے بارے میں بنیادی ڈھانچا فراہم کرتا ہے۔

یہ قوانین جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ تاریخی طور پر مختلف ممالک نے اپنے ساحلوں کے پانی پر اور بحری سرحدوں پر حاکمیت اور مکمل اختیار سے متعلق ہر قسم کے دعوے کیے ہیں۔ باالفاظ دیگر، یہ ممالک سمند ر کے پانیوں پر اپنی حاکمیت اور اختیار اسی طرح جتلا سکتے تھے جس طرح وہ اپنی زمینی حدود جتلاتے ہیں۔

’’علاقائی سمندر‘‘

طویل بحث کے بعد یہ اصول طے پایا کہ ساحلی ممالک کا اپنے ساحل کے ساتھ بہت ہی محدود بحری رقبے پر اختیار ہوگا۔ اس رقبے کو’’علاقائی سمندر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے آگے کے پانی کو’’کُھلا سمندر‘‘ کہا جاتاہے جو ہر ایک کے لیے کُھلا ہوتاہے اور کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔ طویل عرصے تک ’’علاقائی سمندر‘‘ اتنی دور تک پھیلے ہوتے تھے جتنی دور تک کوئی بھی ریاست اپنا اختیار قایم رکھ سکتی تھی۔ اس سمندری علاقے کا تعین توپ سے داغے جانے والے گولے کی پہنچ سے کیا جاتا تھا۔ یہ حد تقریباً 3 سمندری میل کے برابر ہوا کرتی تھی۔ اقوام متحدہ کے 1982 کے سمندر سے متعلق کنونشن کے تحت ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں اس دائرہ اختیار کو 12 سمندری میل تک بڑھا دیا گیا۔

’’بین الاقوامی پانی ‘‘

ہر ایک ریاست اپنے ساحل سے12 سمندری میل کے اندر ’’علاقائی پانی‘‘ پر مکمل اختیار رکھتی ہے۔ لیکن وہ اپنی حدود کے 24 سمندری میل کے اندر ہونے والی کسی بھی قسم کی کسٹم، مالی، امیگریشن اور حفظان صحت کے قوانین کی خلاف ورزی پر سزا دے سکتی ہے۔

دراصل عالمی قانون میں ’’بین الاقوامی پانی ‘‘کی کوئی جامع تعریف موجود نہیں ہے۔ جغرافیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے، تمام سمندری پانی کسی نہ کسی حد تک بین الاقوامی پانی گردانے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی بھی ملک کے’’علاقائی پانی‘‘میں سے تمام ریاستوں کے گزرنے والے بحری جہازوں کو’’بے ضرر راستے‘‘کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات ’’بین الاقوامی پانی‘‘ کی اصطلاح غیر رسمی اور اختصار کے طور پر ان پانیوں کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے جو کسی بھی ریاست کے ’’علاقائی پانی ‘‘ کے باہر واقع ہوتے ہیں۔

ان (کُھلے)پانیوں میں تمام ریاستیں’’کُھلے سمندر کی آزادیوں‘‘ اور سمندر کے (فضائی حدود اور جہاز رانی جیسے) دیگر قانونی استعمال سے مستفید ہوتی ہیں۔ عام طور سے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان پانیوں میں خشکی سے گِھرے ہوئے ممالک کے بحری جہازوں سمیت کسی بھی ملک کے بحری جہاز کسی دوسرے ملک کی مداخلت کے بغیر بلا روک ٹوک یہ آزادیاں استعمال کرنےکے حق دار ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ روایتی بین الاقوامی قانون کایہ نظام سمندروں کے قانون کے کنونشن میں شامل ہے۔

سمندر سے متعلق قانون کاکنونشن ایک اور اہم سمندری اور جہاز رانی کے علاقے کا تعین بھی کرتا ہے جس کے تحت ساحل سے 200 سمندری میل تک کوئی بھی ساحلی ملک اکنامک زون( ای زیڈ) کہلانے والے ’’خصوصی اقتصادی زون‘‘ پر اپنا حق جتا سکتا ہے۔ اس زون کے اندر اس ملک کو چند مخصوص مقاصدکےلیے حقوق اور قانون نافذ کرنے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ ان اختیارات میں ماہی گیری اور ہوا اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے حقوق شامل ہیں۔

سمندروں کے روایتی استعمال کے حوالے سےعالمی سطح پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سمندر کے قانون کا کنونشن روایتی بین الاقوامی قانون کا ایک حصہ ہے اور اس کی پاس داری تمام ممالک پر لازم ہے۔ تاہم جب دو ممالک کے خصوصی اقتصادی زونز ایک دوسرے کی حدود کے اندر تک آتے ہوں تو ایسی صورت حال میں دونوں ممالک کا ایک دوسرے کی سمندری حدود طے کرنا اور پھر ان پر متفق ہونا ضروری ہوتا ہے۔

بین الاقومی پانیوں میں ہر وقت بہت کچھ ہوتا رہتا ہے۔ سامان لے کر لگ بھگ 90 ہزار تجارتی جہاز مختلف ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ تمام ممالک ان پانیوں میں پائپ لائنز ڈال سکتے ہیں اور ان کے نیچے تاربچھا سکتے ہیں۔ کھلے پانیوں اور خصوصی اقتصادی علاقوں میں ماہی گیری بھی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

جنگی بحری جہازوں سمیت علاقائی پانیوں میں بھی تمام بحری جہازوں کو ’’بے ضرر راستوں‘‘ کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ جہاز علاقائی پانیوں میں سے اس وقت تک گزر سکتے ہیں جب تک وہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہ ہوں جن سے ساحلی ریاست کے امن، نظم و نسق یا سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ تاہم بعض اوقات کوئی ملک بہت زیادہ علاقے پر ایسے سمندری اختیارات کا دعوٰی کرکے غیر قانونی طور پر سمندروں تک رسائی یا ان کا استعمال محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں متاثرہ ممالک سمندری حدودکا غیر قانونی استعمال کرنے والی حکومت سے احتجاج کرتے ہیں اور اس ملک کے ساتھ معاملات طے کر کے اس مسئلے کوعالمی قوانین کی روشنی میں سمندرسے متعلق قانون کے کنونشن کے تحت حل کرتے ہیں۔

بحری قزّاقوں کا مسئلہ

بین الاقوامی پانیوں میں بحری قزّاق لوگوں اورعالمی تجارت کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ قزّاقوں کے حملے انسانی ہم دردی کی بنیاد پر بھیجی جانے والی امداد کی ترسیل بھی روک سکتے ہیں، تجارتی سامان کی لاگت میں اضافے کا موجب بن سکتے ہیں اور بحری جہازوں کے عملے کی جان خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

چناں چہ اقوام متحدہ کے سمندر سے متعلق قانون کے کنونشن میں بیان کیا گیا ہےکہ تمام ممالک پر یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ وہ بحری قزّاقی کی روک تھام کے لیے تعاون کریں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک کھلے پانیوں میں موجود بحری قزّاقوں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلا سکتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کا یہ قدیم اصول ’’آفاقی دائرہ اختیار‘‘ کی ایک نادر مثال ہے۔

عالمی یوم

ان قوانین پر عمل درآمد کرانے اور عالمی سطح پر پانی کے تجارتی جہازوں بلا روک ٹوک نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے ہر سال عالمی سطح پر میری ٹائم ڈےمنایا جاتا ہے جس کا مقصد سمندروں کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور سمندری وسائل کے بھرپور استعمال سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد گلوبل سوسائٹی اور جہاز رانی کے درمیان باہمی اہمیت کے حامل رشتے کو مضبوط بنانا اوربین الاقوامی میری ٹائم تنظیم کے عالمی کردار اور افادیت کو اُجاگر کرنا بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سمندرکے راستے تجارت کو محفوظ تر بنانے کےلیے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال اور اس سے سمندر کے قدرتی ماحول کو ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے طریقوں کے متعلق آگاہی پیدا کرنااور سمندری حدود کی حفاظت بھی اس کا ایک اہم پہلو ہے۔

پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے گرم پانی کے سمندر، اہم ساحلی پٹّی اور وسیع ’’خصوصی اقتصادی زون‘‘ سے نوازا ہے۔ جو سمندری حیات اور مادی وسائل سے مالا مال ہے۔ پاکستان میں تمام ترسمندری تجارت کراچی کی بندرگاہوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کی ترقی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوچکی ہے۔ پاکستان کے سمندر کو لاحق مختلف خطرات اور چیلنجز سے نمٹتے ہوئے سمندری وسائل کے بھرپور استعمال اور اس کی حفاظت کو فول پروف بنانے کے لیے پاکستان نیوی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔

ہماری حدود

کراچی سے گوادر تک پاکستان کا جو ساحلی علاقہ ہے اگر اس کے درمیان (مرکز) میں بیٹھ کر سمندر میں سیدھے زاویۂ قائمہ (90 ڈگری) پر تیرتے جائیں تو 200 بحری میلوں تک کا وہ پانی ہماری ملکیت ہو گا جو کراچی اور گوادر کے سامنے دائیں بائیں خشکی اور ساحلوں تک پھیلا ہو گا۔ اس200میل پانی کے اوپر اور اس کے نیچے جو کچھ ہو گا وہ ہمارا ہو گا اور اس کے آگے جو سمندر 201ویں سمندری میل سے شروع ہو گا وہ بین الاقوامی سمندر کہلائے گا جس پر کسی کا قبضہ نہیں ہو گا۔ دُنیا کے تمام ممالک کے بحری جہاز وہاں آجا سکیں گے اور انہیں اس کی تہہ میں سےمچھلیاں پکڑنے، تیل نکالنے یا دیگر معدنیات نکال کر اپنے ملک لے جانے کی کھلی چھٹی ہو گی۔

بحری اصطلاح میں ساحل سے 12میل آگے تک کا علاقہ کانٹی نینٹل شیلف (Continental Shelf) کہلاتا ہے۔ اس شیلف میں سمندر زیادہ گہرانہیں ہوتا، لیکن جوں جوں آگے بڑھیں، گہرائی بڑھتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بحری جہاز جب کسی بندرگاہ پر آ کر لنگر انداز ہوتے ہیں تو ان کی لنگر اندازی کے مقامات اتنے گہرے کر دیے جاتے ہیں کہ جہاز ان کے اوپر تیرتا رہتا ہے اور اس کا پیندا زمین کو نہیں چھوتا۔ کانٹی نینٹل شیلف میں مچھلیاں اور دیگر آبی مخلوقات تو ہوتی ہی ہیں، اس کے علاوہ وہا ں تہہ میں تیل اور گیس کے بھی وسیع ذخائر ہوتے ہیں۔

پاکستان کی میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (MSA) کے پاس سمندری گشت کے جو محدود وسائل ہیں وہ انہیں استعمال کرتے ہوئے اپنے خصوصی اقتصادی زون میں پیٹرولنگ کرتی ہے پھر بھی ہمارے سمندر کی بے کنار وسعتیں بھارتی ماہی گیروں کی جانب سے مچھلیوں کے غیر قانونی شکار اوربعض اسمگلرز کو روکنے کی راہ میں حائل رہتی ہیں۔

اقوام متحدہ نے کئی برس قبل یہ قانون بنایا تھاکہ ساحلی ممالک کا اپنے ساحلوںسے200میل دور تک کا علاقہ ان ممالک کی ملکیت تصور ہو گا۔ اس کے اوپر اور نیچےکے ذخائر پر بھی ان کاحق تسلیم کیاجائےگا۔ 20مارچ 2015ء کو اقوام متحدہ نے پاکستان کی سمندری حدود میں 150میل کا اضافہ کیا تو اس کے نتیجے میں 50,000 مربع کلو میٹر کا بحری علاقہ مزید پاکستان کے خصوصی اقتصادی زون میں شامل ہو گیا۔ اس سے پہلے پاکستان کےمذکورہ زون کا رقبہ2,40,000مربع کلو میٹرز تھا جو اب بڑھ کر تقریباً 3لاکھ (2,90,000) مربع کلو میٹر زہو گیاہےجو ہمارے لیے بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اس کے ساتھ بڑی ذمے داری بھی نتھی ہو گئی ہے۔یعنی یہ کہ ایک تو پاکستان کو اپنےEEZ میں تیل اور گیس وغیرہ کی تلاش کا کام تیز تر کرنا ہوگا اور دوسرے اپنی میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (MSA) کی تنظیم اور اس کے وسائل میں اضافہ کرنا ہو گا۔

یاد رہے کہ پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی یکم جنوری 1987ء کو قایم کی گئی تھی۔ اس کا کام پاکستان کی میری ٹائم (سمندری) حدود کی حفاظت اور پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ اس ایجنسی کے انصرامی اور انتظامی مستقر کراچی، گوادر اور پسنی میں واقع ہیں۔

پاکستان کی ایک ہزارکلومیٹرزسےزایدطویل اسٹرٹیجک ساحلی پٹی ہے جو دُنیا بھر کے جہازوں کی ایک بڑی تعداد کی گزرگاہ ہے۔ ہماری سمندری حدود تین لاکھ کلو میٹرز سے زیادہ ہے جو ہمارے دو صوبوں ،خیبرپختون خوا اور پنجاب کے رقبے کے مساوی ہے اور جو بلوچستان کے رقبےسے ذرا کم ہے۔ اس سمندر میں قدرت کے خزانے چھپے ہوئے ہیں جنہیں دریافت کرلیا جائے تو پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے۔ تاہم پاکستان نے 70 سال تک اس پر خاص توجہ نہیں دی کیوں کہ ہمیں زمین، گھر ،کھیتوں اور کھلیانوں کی عادت ہے۔ وہ ٹھیک بھی ہے، مگر سمندر کی اہمیت کو پاکستان نہیں سمجھ پایا۔حالاں کہ دُنیا بھر کے دانش وروں اور امیر البحروں کی متفقہ رائے یہی ہے کہ جس کی سمندروں پر حکم رانی ہوگی وہی زمین پر حکم رانی کرے گا۔

ہمارے لیے عمل کا وقت

دنیا کی معیشت میں تجارت کا اہم ترین ذریعہ بحری راہ داریاں ہیں۔ اقوام کی تاریخ دیکھیں تو بحری تجارت پر خصوصی توجہ دینے والے ممالک نے نمایاں ترقی کی اور دنیا کے کئی خطوں میں اپنے مفادات کے لیے اثر و رسوخ قائم کرنے میں بھی کام یاب رہے۔ صرف ایشیا میں بڑی اور چھوٹی 1720 بندرگاہیں اور جیٹیاں موجود ہیں جہاں بین الاقوامی اور خطے کے ممالک کے درمیان تجارت کے لئے نقل و حمل کا بڑا ذریعہ بحری راہ داری ہے۔ پاکستان میں بھی بحری تجارت اور اس سے منسلک کاروبار اور تفریحی منصوبوں پر مقامی سرمایہ کاری کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری جانب تاجر وں ، صنعت کارو ں اور سرمایہ کاروں کو میری ٹائم سیکٹر کی طرف راغب کرنے کے لیے ون ونڈو آپریشن جیسی سہولتوں کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔

ملک کی اہم ترین بندرگاہ کراچی پورٹ کے بعد پورٹ قاسم بھی کافی عرصے سے پر فعال ہے۔ملک کی سب سے بڑی اور جدید بندرگاہ کراچی پورٹ ہے۔ ملک کی تیسری اور مستقبل کی اہم بندرگاہ گوادر بلوچستان میں واقع ہے جسے خطے میں گیم چینجر کہا جارہا ہے۔ یہ بندرگارہ دنیا بھر میں اہمیت حاصل کیے ہوئے ہے۔ گوادر پورٹ کے ساتھ خطے کا اہم ترین منصوبہ، پاک چین اقتصادی راہ داری زیر تعمیر ہے جس کی تکمیل سے چین اور وسط ایشیائی ممالک کو پاکستان کے تعاون سے دنیا بھر سے تجارت کے لیے بہ یک وقت زمینی اور بحری تجارتی راہ داری دست یاب ہوگی۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج سمندروں کے راستے نوّےفی صد عالمی تجارت ہوتی ہےاور ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب اس سے بھی زیادہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی تجارت کا70فی صدسے زاید حصہ بحری تجارت سے وابستہ ہے۔ دنیا میں سمندر کے ساتھ آباد ممالک کی بندرگاہیں جدید خطوط پر استوار کی جارہی ہیں اورجنوبی ایشیا میں چین آٹھ بندرگاہوں کو جدید بنانے کے امور میں ان ممالک سے خصوصی تعاون کر رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق ہم اپنی بلیو اکانومی کو مستحکم بنا کرملک کی مجموعی قومی پیداوار کو تین گنا تک بڑھاسکتے ہیں ۔ان کے مطابق جامع میری ٹائم پالیسی کے تحت پاکستان کے بہت متحرک بحری شعبے کی حکمت عملی میں جامع اصلاحات کرنا ضروری ہے کیوں کہ سی پیک کا منصوبہ مکمل ہوتے ہی پاکستان میں بحری سرگرمیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔

لہٰذا ہمارے بحری شعبے کی منظم ترقی کے ضمن میں بندرگاہوں اور جہاز رانی کی صنعت کے درمیان موجودہ اشتراک مزید اہمیت اختیار کر جائے گا۔ چناں چہ اولین ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کے اس اہم پہلو کی اہمیت کا صحیح طورپرادراک کیا جائے اور اپنے عوام، بالخصوص نوجوان نسل اور میر ی ٹائم انفرااسٹرکچر کی استعداد بڑھانے کے لیے مناسب مواقعے پیدا کیے جائیں تاکہ ملک کے بحری وسائل سے دیرپا فواید حاصل کیے جاسکیں۔

بلیو اکانومی کا تصور بہت وسیع ہے ،صرف سمندر اور دریا کے ذریعے سامان کی تجارت اس میں شامل نہیں بلکہ اس میں ماہی گیری، پکڑے جانے والے سمندری شکار کی پراسیسنگ اور ان کی تجارت اور برآمدات بھی شامل ہیں۔ اس میں جہاز رانی کا شعبہ اور شپ بریکنگ انڈسٹری بھی شامل ہے۔ بلیو اکانومی تمر کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ اسی طرح ساحلی علاقے اور ساحلی سیاحت کا شعبہ ،سمندر کی تہہ سے تیل نکالنا اور میرین بایو ٹیکنالوجی بھی اس میں شامل ہے۔ہم ان شعبوں کو ترقی دے کر اپنی نقاہت سے زرد پڑتی معیشت میں نئی جان ڈال سکتے ہیں۔

پاکستان میں بلیو اکانومی کی ترقی کا مقابلہ خِطّےکے دیگر ممالک سے کیا جائے جن میں خاص طور پر بنگلا دیش اوربھارت شامل ہیں تو پاکستان ان دونوں سے اس شعبے اور اس سے ملنے والے مالی فواید سمیٹنے میں بہت پیچھے ہے۔ بلیو اکانومی اور بحری امور کے ماہرین کا پاکستان میں اس سلسلے میں ترقی نہ ہونے کے بارے میں کہنا ہے کہ اس سے متعلق آگاہی کا نہ ہونا اور مطلوبہ انفرا اسٹرکچر کی عدم دست یابی کے ساتھ حکومتوں کی عدم توجہ اور اس کے لیے ضروری بھاری سرمایہ کاری نہ ہونا بڑی وجوہات ہیں۔