ہماری معاشی مشکلات کا ایک بڑا سبب ٹیکس چوری کا کلچر ہے ۔ سگریٹ کی صنعت اس رجحان کی ایک نمایاں مثال ہے جس کی غیرقانونی تجارت سے ایک رپورٹ کے مطابق قومی خزانے کو سالانہ ایک کھرب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ ملک میں ہر پانچ میں سے دو سگریٹ غیرقانونی طور پر ٹیکس چوری کرکے فروخت کیے جاتے ہیں۔ ٹیکس چوری کے ضمن میں یہ محض ایک مثال ہے ورنہ قومی زندگی کے ہر شعبے اور ہر پیشے میں یہ رجحان عام ہے۔ اگر مکمل طور پر دستاویزی معیشت رائج کرکے تمام واجب الادا محصولات کی پوری وصولی کی جانے لگے تو کسی نئے ٹیکس کی ضرورت شاید ہی محسوس ہو ۔ تاہم پہلے سے نافذ ٹیکسوں اور بجلی و گیس کے بلوں وغیرہ کی مکمل وصولی کو یقینی بنانے کے بجائے حکومتیں بالعموم پہلے ہی سے ٹیکس دینے والوں پر نئے ٹیکس لگانے کا آسان راستہ اختیار کرتی ہیں۔ قومی معیشت کو آج جو مشکل صورت حال درپیش ہے اس میں بھی پالیسی سازوں اور ٹیکس حکام کی پوری توجہ موجودہ ٹیکس گزاروں ہی سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرکے 170 ارب روپے کی کمی کا وہ ہدف پورا کرنے پر مرتکز ہے ملک کو رواں مالی سال معاشی سست رفتاری کی وجہ سے جس کا سامنا ہے۔ تاہم اس سے عوام کی مشکلات میں لازماً مزید اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب حکومت کا ٹیکس وصولیوں کیلئے منظم شعبوں پر انحصار مزید بڑھ رہا ہے جس سے صنعتی پیداوارکی لاگت میں اضافہ ہورہا ہے۔بجٹ اہداف پورے کرنے کیلئے فی الحقیقت ٹیکس نہ دینے والے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور گنجائش سے بہت کم ٹیکس دینے والے شعبوں سے وصولیاں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سگریٹ کا شعبہ بھی ایسے ہی سرفہرست شعبوں میں سے ایک ہے جو غیرقانونی تجارت اور ٹیکس چوری کی وجہ سے قومی خزانے پر بوجھ اور منظم صنعت کے کاروبارکو محدود کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔