الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر احتجاج اور رکن اسمبلی پر حملہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کو 20 فروری دوپہر 2 بجے تک پیش ہونے کی مہلت دے دی۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔
لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ آئی جی پنجاب کے ساتھ عمران خان کے وکلا میٹنگ کریں۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو عمران خان کی سیکیورٹی سے متعلق حکم پر عمل یقینی بنانے کا حکم بھی دیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ آپ کب عمران خان کو پیش کر سکتے ہیں؟ خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ جب عدالت حکم دے ہم پیش کر دیں گے۔
خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ہم سوموار کی تاریخ مقرر کر دیتے ہیں۔
اس سے قبل عمران خان کے وکیل غلام عباس نسوانہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دستخط دوبارہ کروا لیتے ہیں، جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ عمران خان میرے سامنے آکر دستخط کی وضاحت کریں، یہ معاملہ بہت زیادہ سنجیدہ ہے۔
عمران خان کی حفاظتی ضمانت کیلئے عمران خان کے وکلا جسٹس طارق سلیم شیخ کے روبرو پیش ہوئے، ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے عمران خان کی جانب سے اپنا وکالت نامہ جمع کروایا۔
پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بیلف یا ویڈیو لنک کے ذریعے کنفرم کروا لیں، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا، وہ خود آکر وضاحت کریں، ورنہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے گا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان عدالت آکر وضاحت کریں، انہیں حلف پر کہنا ہوگا کہ یہ دستخط ان کے ہیں۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت کمیشن مقرر کروا دے، عدالت نے استفسار کیا کہ کمیشن کے سامنے حلف ہو سکتا ہے؟، وکیل نے کہا کہ عدالت کے پاس اختیار ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر توہین عدالت کا نوٹس ہوا تو ہر تاریخ پر آنا پڑے گا۔
پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ مجھے وقت دے دیں، عمران خان سے ہدایات لینا چاہتا ہوں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے سماعت ساڑھے 6 بجے تک ملتوی کر دی تھی۔
گزشتہ روز کی سماعت کا احوال
گزشتہ روز اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سیکیورٹی کا مسئلہ ہے، عمران خان چل بھی نہیں سکتے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ چلنے کو کس نے کہا ہے؟ پولیس بھیج کر بلوا لیتے ہیں، قانون کے تحت حفاظتی ضمانت کے لیے ملزم کی عدالت میں پیشی لازمی ہے، آپ کہیں تو آئی جی پنجاب سے سیکیورٹی کا کہہ دیتے ہیں، قانوناً درخواست خارج کر دینی چاہیے لیکن رعایت دے رہا ہوں۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ان کے پیش ہوئے بغیر حفاظتی ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ عمران کو اسٹریچر پر لائیں یا ایمبولینس میں، پیشی کے بغیر حفاظتی ضمانت نہیں ملے گی۔