ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری
روایت کے مطابق حضور پرنور ﷺ ایک رات خانۂ کعبہ کے پاس حطیم میں آرام فرمارہے تھے کہ جبرائیل امین ؑحاضر خدمت ہوئے، بے دار کیا۔ ارادئہ خداوندی سے آگاہی بخشی۔ حرم سے باہر تشریف لائے تو سواری کے لیے ایک جانور پیش کیا گیا جو براق کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی تیز رفتاری کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ پڑتی، وہاں یہ قدم رکھتا تھا۔
حضور پرنور ﷺ اس پر سوار ہوکر بیت المقدس آئے، اور جس حلقے سے انبیاء ؑ کی سواریاں باندھی جاتی تھیں، براق کو باندھ دیا گیا، حضورﷺ مسجد اقصیٰ میں تشریف لے گئے، جہاں جملہ انبیائے سابقین علیہم السلام حضورﷺ کے لیے چشم براہ تھے۔ حضور ﷺ کی اقتداء میں سب نے نماز ادا کی، اس طرح ارواحِ انبیاء علیہم السلام سے روزِ ازل جو عہد لیا گیا تھا۔ (ترجمہ)کہ تم میرے محبوب پر ضرور ایمان لانا اور ضرور ان کی مدد کرنا (سورۂ آلِ عمران18)کی تکمیل ہوئی۔
ازاں بعد مرکب ہمایوں بلندیوں کی طرف پرکشا ہوا۔ مختلف طبقاتِ آسمانی پر مختلف انبیاءؑ سے ملاقاتیں ہوئیں۔ حضور ﷺ آگے بڑھے اور سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو انوار ربانی کی تجلی گاہ تھا، اس کی کیفیت الفاظ کے پیمانوں میں سما نہیں سکتی، عقاب ہمت یہاں بھی آشیاں بند نہیں ہوا۔ آگے بڑھے کہاں تک گئے ہماوشما اسے کیا سمجھیں۔ زبانِ قدرت نے مقامِ قرب کا ذکر اس طرح کیا ہے، یعنی پھر وہ قریب ہوا اور قریب ہوا ،یہاں تک کہ صرف دو کمانوں کے برابر، بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔(سورۃ النجم)وہاں کیا ہوا یہ بھی میری اور آپ کی عقل کی رسائی سے بالاتر ہے، قرآن کریم نے بتایا ہے۔ ترجمہ: پس وحی کی اللہ نے اپنے محبوب بندے کی طرف جو وحی کی۔ اسی مقام قرب اور گوشہ خلوت میں دیگر انعامات نفیسہ کے علاوہ پانچ نمازوں کا تحفہ ملا۔
حضرت شداد بن اوسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: معراج کی شب راستے میں ایسی زمین پر میرا گزر ہوا کہ جس میں کھجوروں کے درخت بکثرت تھے۔ جبرائیل امینؑ نے کہا! آپﷺ یہاں اتر کر نفل نماز پڑھ لیجیے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، جبرائیل امینؑ نے کہا کہ آپ ﷺکو معلوم ہے آپﷺ نے کس مقام پر نماز پڑھی ہے؟رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں، میں نے کہا مجھے نہیں معلوم، جبرائیل امینؑ نے کہا آپﷺ نے یثرب یعنی مدینۂ طیبہ میں نماز پڑھی ہے۔ جہاں آپﷺ ہجرت فرمائیں گے۔
بعدازاں رسول اللہ ﷺ روانہ ہوئے، ایک اور زمین پر پہنچے، جبرائیل امینؑ نے کہا، یہاں بھی اتر کر آپﷺ نماز پڑھ لیجیے۔ میں نے اترکر وہاں نماز پڑھی، جبرائیل امینؑ نے وہی سوال دوبارہ کیا، اور پھر کہا، آپ نے وادی سینا میں شجرۂ موسیٰ کے قریب نماز پڑھی ہے۔ جہاں اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ ؑسے کلام فرمایا تھا، پھر ایک اور زمین پرگزر ہوا، وہاں نماز پڑھی یہ شعیبؑ کا مسکن تھا۔ وہاں سے روانہ ہو کر ایک اور زمین پر پہنچے، نماز پڑھی، جبرائیل امینؑ نے کہا، یہ بیت اللّحم ہے۔ جہاں عیسیٰ ؑکی ولادت ہوئی۔ (زرقانی)
آپﷺ براق پر سوار جارہے تھے کہ راستے میں ایک بڑھیا کے سامنے سے گزر ہوا۔ اس نے آپﷺ کوآواز دی، حضرت جبرائیلؑ نے کہا، حضورﷺ ،آگے تشریف لے چلیے، اور اس کی طرف التفات نہ کیجیے، آگے چل کر ایک بوڑھا نظر آیا، اس نے بھی آپﷺ کو آواز دی، حضرت جبرائیلؑ نے کہا، آگے تشریف لے چلیے، آگے چل کر آپؐ کا گزر ایک جماعت پر ہوا، جنہوں نے آپؐ کو ان الفاظ میں سلام کیا۔ ’’السلام علیک یااول،السلام علیک یاآخر۔ السلام علیک یاحاشر۔ جبرائیل امینؑ نے کہا آپؐ ان کے سلام کا جواب دیجیے، اور بعدازاں بتایا کہ وہ بوڑھی عورت دنیا تھی۔ دنیا کی عمر اتنی ہی قلیل باقی رہ گئی ہے۔ جتنی اس عورت کی عمر باقی ہے، اور وہ بوڑھا مرد، شیطان تھا، دونوں کا مقصد آپؐ کو اپنی طرف مائل کرنا تھا۔ وہ جماعت جنہوں نے آپؐ کو سلام کیا۔ وہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰؑ تھے۔ (خصائص کبریٰ)
شب معراج آپﷺ کا ایک ایسی قوم پر گزر ہوا جو ایک ہی دن میں بیج بوتے اور ایک ہی دن میں کھیتی کاٹ لیتے ہیں۔ کاٹنے کے بعد کھیتی پھر ویسی ہی زرخیز اور ہری بھری ہوجاتی ہے جیسے پہلے تھی، جبرائیل امینؑ نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ ان کی ایک نیکی سات سو نیکیوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے اور یہ جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے، پھر آپﷺ کا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے۔ کچلے جانے کے بعد وہ پھر ویسے ہی ہوجاتے ،جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح سلسلہ جاری ہے۔ کبھی ختم نہیں ہوتا، آپؐ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل امینؑ نے فرمایا : یہ فرض نماز کے معاملے میں کاہلی کرنے والے ہیں۔
پھر ایک اور قوم پر گزر ہوا، جن کی شرم گاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے تھے اور یہ اونٹ اور بیل کی طرح چرتے تھے، ضریع اور زقوم یعنی کانٹے اور جہنم کے پتھر کھارہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ،یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل امینؑ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتے۔ پھر آپؐ کا گزر ایک ایسی لکڑی پر ہوا جو سرِراہ واقع ہے۔ جو کپڑا اور جوشے بھی اس کے پاس سے گزرتی ہے۔ وہ اسے پھاڑ ڈالتی اور چاک کردیتی ہے۔ آپؐ نے جبرائیلؑ سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ جبرائیلؑ نے کہا، یہ آپؐ کی امت میں ان لوگوں کی مثال ہے جو راستے میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں، اور راہ گزرنے والوں پر ڈاکا ڈالتے ہیں، پھر آپؐ کا ایک ایسی قوم پر گزر ہوا، جس نے لکڑیوں کا ایک بڑا بھاری گٹھا جمع کر رکھا ہے او روہ اسے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے، مگر لکڑیاں لالا کر اس میں اور زیادہ کرتے رہتے ہیں۔
آپؐ نے فرمایا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل امینؑ نے فرمایا، یہ آپؐ کی امت کا وہ شخص ہے کہ جس پر حقوق اور امانتوں کا بارِ گراں ہے کہ جسے وہ ادا نہیں کرسکتا اور اس وجہ سے وہ اپنے اوپر اور بوجھ لادے جاتا ہے۔
پھر آپﷺ کا گزر ایسی جماعت پر ہوا جن کی زبانیں اور لبیں لوہے کی قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں اورجب کٹ جاتیں تو پھر ویسی ہی ہوجاتیں، یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ آپﷺ نے فرمایا! یہ کیا ہے؟ جبرائیلؑ نے فرمایا، یہ آپﷺ کی امت کے وہ خطیب اور واعظ ہیں، جو دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں اور خود عمل نہیں کرتے۔ (ابنِ جریر)