• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی

اسریٰ کے لغوی معنی رات کو جانا۔ رات کو لے جانا کے ہیں۔ شرعی طور پر اسریٰ سے مراد وہ بابرکت سفر ہے جو ختمی مرتبت محسن انسانیت محمد رسول اللہ ﷺ کو ہجرت سے ایک سال قبل بیت اللہ الحرام سے بیت المقدس اور بعد ازاں جبرائیل امین ؑبراق پر سوار کرا کر آسمانوں کی وسعتوں کی جانب محو پرواز ہوئے۔ نیز جنت اور دوزخ کا نظارہ کرایا گیا۔ ساتوں آسمانوں پر مختلف انبیائے کرامؑ سے ملاقاتیں کرائی گئیں۔ بیت المقدس میں امام الانبیاء ﷺ کی امامت میں تمام انبیائے کرامؑ نے نماز اداکی۔ معراج کی شب آپ ﷺ اپنے رب سے بہت قریب ہوئے۔

امام ابن کثیر ؒ اپنی تفسیر میں واقعۂ معراج کی تفصیل بخاری و مسلم اور دیگر صحیح کتب احادیث کی روشنی میں یوں فرماتے ہیں۔ صحیح بخاری میں سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ شب معراج جبکہ کعبۃ اللہ سے آپ ﷺ کو بلایا گیا ،آپ ﷺ کے پاس تین فرشتے آئے۔ اس وقت آپ بیت اللہ میں سوئے ہوئے تھے۔ پہلے فرشتے نے پوچھا کہ یہ ان سب میں سے کون ہیں تو دوسرے نے جواب دیا کہ یہ ان میں سے بہتر ہیں تو تیسرے نے کہا کہ پھر ان کو لے چلو بس اس رات یہی ہوا۔ 

اسی طرح دوسری رات پھر یہ تینوں آئے تو اس وقت بھی آپ ﷺ نیند فرمارہے تھے ،گرچہ آنکھیں بند تھیں، لیکن دل بیدار تھا، اس رات انہوں نے کوئی بات نہ کی، بلکہ آپ ﷺ کو چاہ زم زم کے پاس لٹایا اور آپ ﷺ کا سینہ مبارک خود جبرائیل علیہ السلام نے چاک کیا اور سینے اور پیٹ کی تمام چیزیں نکال کر انہیں اپنے ہاتھ سے زم زم سے دھویا، جب خوب صاف کرچکے تو آپ ﷺ کے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں سونے کا ایک بڑا پیالہ تھا جو حکمت اور ایمان سے پُر تھا‘ اس سے آپ ﷺ کے سینہ مبارک اور گلے کی رگوں کو پُرکر دیا گیا، پھر سینے کو سی دیا گیا۔ بعد ازاں آپ ﷺ کو بیت المقدس لے جایا گیا، جہاں آپ ﷺ نے تمام انبیائے کرامؑ کی امامت فرمائی اور پھر آپ کو جبرائیل امین آسمان دنیا کی طرف لے کرچڑھے۔

جہاں دروازہ کھلوایا گیا تو فرشتوں نے استقبال کیا اور خوش ہوئے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ جبرائیل امین کے ہمراہ رحمۃ للعالمین ﷺ تشریف لائے ہیں اور انہیں بلایا گیا ہے، یہاں آپ ﷺ کی ملاقات آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ جبرائیلؑ نے تعارف کرایا۔ آپ ﷺ نے سلام کیا اور انہوں نے مرحباکہتے ہوئے آپ کی تعریف کی۔ پہلے آسمان پر دو نہریں جاری دیکھ کر آپ ﷺ نے جبرائیل ؑسے دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ نیل اور فرات کا عنصر ‘ پھر آپ ﷺ کو آسمان میں لے گئے۔ 

آپ ﷺ نے ایک اور نہر دیکھی یہ کون سی نہر ہے؟ جواب ملا کہ یہ نہر کوثر ہے، جسے آپ ﷺ کے پروردگار نے آپ ﷺ کے لئے رکھاہے۔ پھر آپ ﷺ کو دوسرے آسمان پر لے گئے اوروہاں بھی فرشتوں سے وہی باتیں ہوئیں جو پہلے آسمان پر ہوئی تھیں ،پھر تیسرے آسمان چوتھے، پانچویں، چھٹے اور ساتویں آسمان پر لے جایا گیا اور ہر جگہ فرشتوں سے وہی باتیں ہوئیں جو پہلے ہوئی تھیں۔

جب آپ ﷺ وہاں سے بھی اونچے چلے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا اللہ میرا خیال تھا کہ تو مجھ سے بلند کسی کو نہ کرے گا۔ اب آپ ﷺ اس بلندی پر پہنچے جس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ یہاں تک کہ سدرۃالمنتہیٰ تک جا پہنچے اور اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے بہت ہی نزدیک ہوا۔ بقدر دو کمان کے، بلکہ اس سے کم فاصلے پر۔ پھر اللہ کی طرف سے آپ ﷺ پر وحی کی گئی جس میں آپ ﷺ کی اُمت پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ واپسی پر موسیٰ علیہ السلام نے آپ ﷺ کو روکا اور پوچھا کہ کیا حکم ملا۔ فرمایا کہ دن رات میں پچاس نمازوں کا۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا، یہ آپ کی اُمت کی طاقت سے باہر ہے۔ 

آپ ﷺ واپس جائیے اور کمی کی طلب کیجئے۔ آپ ﷺ نے جبرائیل ؑ کی طرف دیکھا گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں ‘ان کا بھی اشارہ پایا کہ اگر آپ ﷺ کی مرضی ہو تو کیا حرج ہے۔ آپ ﷺ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف گئے اور اپنی جگہ ٹھہر کر دعا کی کہ یااللہ ہمیں تخفیف عطا ہو ‘ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ پس اللہ نے نمازیں کم کر دیں۔ واپسی پر موسیٰ علیہ السلام نے مزید کمی کرانے کا مشورہ دیا۔ یہاں تک کہ کم کراتے کراتے فقط پانچ وقت کی نمازیں فرض رہ گئیں۔ 

یہ پڑھنے کے اعتبار سے تو پانچ ہیں مگر ثواب کے اعتبار سے پچاس ہیں۔ یہ نماز کا تحفہ تھا جو رب کائنات کی طرف سے رحمت کائنات علیہ الصلوۃ والتسلیم اور ان کی امت کو عطا ہوا۔ اس سے نماز کی اہمیت و فرضیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ دیگر تمام عبادات کی فرضیت بذریعہ وحی زمین پر کی گئی، لیکن نماز ایسی عظیم عبادت ہے کہ خالق کائنات نے بطور خاص اپنے محبوب پیغمبرﷺ کو اپنے پاس بلا کر یہ عظیم تحفہ عنایت فرمایا، جس کی حفاظت اور ہمیشگی اختیار کرنا امت مسلمہ کا فرض اولین قرار دیا گیا ہے۔