میڈیا کو زیر ِبحث لاتے ہوئے ہمیں کون سے مسائل گھیر لیتے ہیں؟ کیا ہماری یادداشت کمزور ہوجاتی ہے یا پھر ہم جان بوجھ کر ’’سچ ‘‘ کا ایک مخصوص اور من پسند پہلو ہی اجاگر کرنے کے روادار ہوتے ہیں؟آج پاکستان میں مطبوعہ صحافت کی بجائے الیکٹرانک میڈیا چھایا ہوا ہے۔ اس کی رسائی اور اثر اخبارات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اخبارات 1947یا اس سے بھی پہلے سے کام کررہے ہیں جبکہ ای میڈیا ابھی حال ہی میں پاکستانی منظرنامے پر ابھرا ہے۔
اس تبدیلی کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں؟ نجی ٹی وی چینل ، جو ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں ، کوئی معجزانہ طور پر آسمان سے نازل نہیںہوئے ہیں ، اور نہ ہی کسی نے جادو کی چھڑی ہلاتے ہوئے اُنہیں تخلیق کیا ہے۔ ان کا وجود اُس وقت کی حکومت ، جس کے سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف تھے، کی اجازت سے عمل میں آیا تھا۔ یہ صرف اور صرف پرویز مشرف کا فیصلہ تھا کہ اُنھوںنے نہ صرف نجی ٹی وی چینل قائم کرنے کی اجازت دی بلکہ انہیں آزادی سے کام کرنے کا موقع بھی دیا۔ یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے، پتہ نہیں کچھ لوگ اسے آسانی سے ہضم کیوں نہیںکرپاتے؟کیا حقائق کو تسلیم کرنے سے ان کی عزت ِ نفس مجروح ہوتی ہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل مشرف سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئیں اور اُنھوںنے ان کا خمیازہ بھگتا ہے لیکن کوئی عقل سے دستبردار ہوئے بغیر اس حقیقت کو کیسے رد کرسکتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو موجودہ مقام تک پہنچانے کا کریڈٹ انہی ہی کو جاتا ہے؟
ایک زمانہ تھا جب صحافت میں بہت کم پیسے ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ 1979-80 میں مشاہد حسین نے مجھے کہا تھا...’چوہدری صاحب، گھرکے دانے ہوں تو ہی صحافی بنا جاسکتا ہے۔‘‘اس کا مطلب ہے کہ اگر آمدنی کے دیگر ذرائع ہوں تو ہی صحافت کے شعبے میں بچائو ممکن ہے۔ میں نے صحافت کا آغاز ہفتہ روزہ Viewpoint سے کیا تھا۔ میں اس کے لئے کالم ٹائپ کرتا، اس کی پروف ریڈنگ کرتا، دوبارہ ٹائپ کرتا اور اس تمام محنت کے مجھے 75 روپے فی کالم ملا کرتے تھے۔ جب مجھے چیک ملتا تو ایسا لگتا جیسے آسمان سے من و سلویٰ نازل ہوا ہے۔ تاہم صحافیوں ، کم از کم کچھ اعلیٰ درجے کے اینکرز، کو ملنے والی بھاری بھرکم تنخواہ صرف ایک شخص، پرویز مشرف، کے فیصلے کا نتیجہ ہے۔ کسی کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے۔
پاکستان کے سیاسی رہنما، جیسا کہ نواز شریف ، بے نظیر بھٹو، بہت بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے لیکن جب وہ اقتدار میں ہوتے تھے وہ خود کو کبھی بھی لائیو پریس کانفرنس کی آزمائش میں نہیں ڈالتے تھے۔ آپ کو اچھا لگے یا برا، پرویز مشرف پہلے پاکستانی رہنما تھے جنھوںنے ایسا کیا۔ پرویز مشرف کو کریڈٹ دینے کا مطلب یہ نہیںہے کہ صحافی حضرات نے میڈیا کی آزادی کے لئے جدوجہد نہیںکی ۔ یقیناً یہاں بھی سرفروشی کی داستانیں رقم ہوئی ہیں اور بہت سے صحافیوںنے قلم کی حرمت کے لئے جان بھی دی ہے ، تاہم یہ کہنا مبالغہ آرائی ہوگی کہ ان کی جدوجہد کی وجہ سے ہی میڈیا موجودہ مقام حاصل کرپایا ہے۔ جب مشرف بطور ملٹری چیف اقتدار پر قابض تھے، اُس وقت زیادہ تر سیاسی جماعتیں تنظیمی فقدان کا شکار ہو کر کمزور ہوچکی تھیں اور بہت سے اہم رہنما بھی ملک سے باہر تھے۔ اُس وقت بعض صحافیوں، جو بعد میں جمہوریت اور میڈیا کی آزادی کے چیمپئن بن گئے،کے لئے ملٹری آمر کے دسترخوان کو رونق بخشنا اور اس کی دھن پر رقص کرنا باعث ِ عار نہ تھا۔ کہا جاسکتاہے کہ پرویز مشرف کو کم ازکم میڈیا کے حوالے سے اپنے تحفظ کا اس قدر احساس تھا کہ انھوں نے میڈیا کو بے پایاں آزادی دیتے ہوئے یا پاکستان میں معلومات کے حصول کا انقلاب آفریں قدم اٹھاتے ہوئے اپنے دل میںکسی خدشے کو جگہ نہ دی۔ درحقیقت اس پیش رفت نے کسی بھی اور چیز سے زیادہ ان کے دور کو دیگر ادوار سے ممتاز کیا۔ کیا یہ بات تعجب خیز نہیں کہ ایک فوجی آمر نے میڈیا کو وہ آزادی دی جس کا تصور صرف مغربی ممالک میں کیا جاسکتا تھا۔
اس سے پہلے ہماری تاریخ ایسی نہ تھی۔ فوجی اور حتیٰ کہ سول حکمران (بھٹو کے دور کو یاد کریں)بھی پریس کی آزادی پر پہرے لگاتے تھے لیکن یہ ایک فوجی حکمران، جنرل مشرف، تھا جس نے میڈیا کی آزادی کا راستہ ہموار کیا۔ آپ اُنہیں دیگر گناہوںکی پاداش میں سزا دے لیں لیکن اعلیٰ ظرفی کا تقاضا ہے کہ اچھے کاموں کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔ صورت ِ حال کو ایک اور وہ بھی من پسند زاوئیے سے دیکھنا یقینا ًتعلیم یافتہ اور مہذب افراد کا کام نہیںہے۔ کسی حکمران نے جنرل ضیا ء سے زیادہ میڈیا کے لئے سخت قوانین نہیں بنائے تھے ۔ ان کے دور میں ہم نے سنسر شپ کے قوانین کا نفاذ دیکھا، کئی ایک صحافیوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور ان میں تین کو کوڑے بھی مارے گئے۔ تاہم ایک بات قابل ِ تعریف ہے کہ اُس دور میں ، جب اخبارات کو Press and Publications Ordinance کے تحت اشاعت کے لئے حکومت کی اجازت درکارہوتی تھی، جنرل ضیا ء نے ’’مسلم ‘‘ کو اسلام آباد سے، ’’فرنٹیئر پوسٹ‘‘ کو پشاور اور لاہور سے ، نوائے وقت کو کراچی سے اور جنگ کو لاہور سے ایڈیشن نکالنے کی اجازت دی۔ چنانچہ اب ہمارے سامنے ایک معمہ ہے... سنسر شپ لگانے اور کوڑے مارنے والا حکمران پریس کو توسیع کی اجازت بھی دے رہا ہے۔ اس کی اجازت ذوالفقارعلی بھٹو کو دینی چاہئے تھی لیکن اُنھوںنے ایسا نہ کیا۔ یہ بات کوئی راز نہیںہے کہ وہ تنقید برداشت نہیںکرتے تھے۔ مت بھولیں کہ اُس بدنام Press and Publications Ordinance کو کسی منتخب شدہ رہنما نے نہیں بلکہ الہٰی بخش سومرو، جو محمد خان جونیجو کی برطرفی کے بعد بننے والی نگران حکومت کی کابینہ میں وزیر ِ اطلاعات تھے، نے ختم کیا تھا۔ ہم صدر ایوب خان کو 1965 کی جنگ کی حماقت اورپھر ان کو اقتدار سے باہر کرنے کے لئے چلنے والی تحریک کی وجہ سے یاد کرتے ہیں(اگرچہ اس بات کی شہادت بھی ملتی ہے کہ بھٹو اور جنرل یحییٰ نے ساز با ز کرتے ہوئے ایوب خان کو چلتا کیا)۔ تاہم آمر ہونے کے باوجود صدر ایوب کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ 1965 کی جنگ سے پہلے پہلے پاکستان بہت اچھا جارہا تھا۔ جنرل یحییٰ کو بھی ان کے پینے کے شوق اور انواع و اقسام کی محبوبائوں اور1971 کی جنگ کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے، لیکن ون یونٹ کو توڑنے، جو کہ اُس وقت ایک عوامی مطالبہ تھا، کا کریڈٹ ان کوہی جاتا ہے۔ رباط کانفرنس میں اُنھوںنے بھارت کو اوبزرور اسٹیٹس(observer status) دینے کی مخالفت کی۔ بہرحال 1970 کے انتخابات ان کے لئے اچھے ثابت نہیں ہوئے... بلکہ وہ کسی کے لئے بھی اچھے ثابت نہ ہوئے۔
آج کل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر بعض حلقوںکی طرف سے تنقید کی جاتی ہے کہ اُن کے دور میں عدلیہ سوموٹونوٹس لینے کے لئے حوالے سے ضرورت سے زیادہ فعال دکھائی دی اور اس سے ایسا تاثر ابھرا کہ وہ حکومتی امور میں مداخلت کررہی ہے۔ لیکن یہ جسٹس چوہدری ہی ہیں جنھوںنے عدلیہ کو اس حد تک توانا کر دیا ہے کہ وہ ایسے اداروں سے بھی پوچھ گچھ کررہی ہے جن سے ماضی میں سوال بھی نہیںکیا جاسکتا تھا۔ ابھی حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین نادرا طارق ملک کو بحال کردیا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں اس طرح کے فیصلے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کالے کوٹ والے دوستوںسے گزارش ہے کہ وہ خاطر جمع رکھیں، چیف جسٹس صاحب بہت اعلیٰ الوداعی تقریب کے مستحق ہیں۔
اب واپس اصل موضوع پر آتاہوں...ماضی کا جائزہ بتاتا ہے کہ انسانو ں کے معاملات میں اچھائی اور برائی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ انسانوں میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں اور وہ خامیوںسے بھی مبرا نہیںہوتے ہیں۔میںنے شاید باقی تمام کالم نگار دوستوںسے بڑھ کر فوجی حکومت اور اس کے مضر اثرات کے خلاف لکھا ہے۔ اس وقت بہت سے صحافی حیات ہوں گے جنھوںنے ضیاء دور میں مصائب کو برداشت کیا۔
کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دیومالائی کہانیاں گھڑ تے ہوئے نوجوان نسل کو بتائے کہ آج الیکٹرانک میڈیا کو جو آزادی حاصل ہے ، اُس کے لیے اُنھوںنے پانی پت کے معرکے مارے ہیں۔ دیومالائی داستانیں پرکشش ہوتی ہیں لیکن ان میں تاریخی سچائی نہیںہوتی ہے۔ وکلا تحریک کے دوران جنرل مشرف کو ٹی وی چینلز کو دی گئی آزادی بہت مہنگی ثابت ہوئی۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ سب سے پہلے ٹی وی کو آزادی دینے والا اس کا سب سے پہلا شکار بھی ثابت ہوا۔ اگر آج میڈیا کو مختلف مسائل کا سامنا ہے تو یہ مشرف کا قصور نہیں ہے۔ آج آزادی کے باوجود میڈیا کو پتہ ہے کہ کہاں شتر ِ بے مہار ہونا ہے اور کہاں احتیا ط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا... آج آئی ایس آئی پر تنقید کرنے میں میڈیا کے جانباز کشتوںکے پشتے لگادیتے ہیں لیکن جب طالبان اور ایم کیو ایم کا ذکر آتاہے تو احتیاط واجب۔(اردو ترجمہ :حمزہ ارشد)