• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس زمانے میں ہم جوان ہو رہے تھے اُسے آپ اسّی کی دہائی کہہ سکتے ہیں ، یہ وہ دور تھا جب پی ٹی وی پر خواتین کا ٹینس میچ بھی ہمارے بزرگوں کو ’سافٹ پورن‘ لگتا تھا ۔آدھا وقت ہمارا اسکول میں گزرتا اور باقی کا آدھا وقت اسٹیفی گراف اور مارٹینا نورواتی لووا کی اسکرٹ پر فوکس کرنے میں ۔مردوں کے ٹینس مقابلے میں نہیں دیکھتا تھا البتہ اُن میں ایک نام بہت زور و شور سے سننے کو ملتا تھا اور وہ تھا بورس بیکر ۔1985 میں اِس نوجوان نے فقط سترہ سال کی عمر میں ومبلڈن جیت کر دنیا کو حیران کردیا اور پھر اس کے نام کا ڈنکا ہر جانب بجنے لگا۔آئے روز خبریں آنے لگیں کہ بورس بیکر نے فلاں ٹائٹل جیت لیا ہے یا فلاں ریکارڈ قائم کر لیا ہے ، یہ وہ جرمن کھلاڑی تھا جس نےفرنچ اوپن، یو ایس اوپن اور ومبلڈن سمیت کئی عالمی ٹورنامنٹ جیتےاور 1991 میں دنیا کے نمبر ایک ٹینس کھلاڑی ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ۔ لیکن پھر خدا کا کرنا یوں ہوا کہ وہی بورس بیکر ،جو نوجوانی میں ہی کروڑپتی بن گیاتھا ، 2017میں دیوالیہ ہو گیا ، اُس کے ذمے قرض خواہوں کے پچاس ملین پاؤنڈ تھے،عدالت نے اسے کروڑوں پاؤنڈز کے اثاثے چھپانے کی سزا علیحدہ سنائی جو اُس نے قرض خواہوں سے بچنے کے لئے ظاہر نہیں کئے تھے ۔بورس بیکر کے تمام تمغے اور ٹرافیاں نیلام کر دی گئیںاوراسےجیل بھیج دیا گیا ۔ سو جناب ماضی کا یہ کروڑ پتی اورسپر اسٹار کھلاڑی آج کل برطانیہ کی قید میں ہے جہاں اسے مزید ڈھائی سال گزارنے ہیں۔

بورس بیکر کو ایک دن میں زوال نہیں آیا ، پہلے جرمنی کی ایک عدالت نے اسے ٹیکس چوری کے الزام میں تین لاکھ یورو کا جرمانہ سنایا ، یہ 2002 کی بات ہے جب اسے ٹینس سے فراغت لئے تین برس ہو چکے تھے ۔ اس دوران بھی وہ ٹھیک ٹھاک پیسے کما رہا تھا ، کمنٹری کرتا تھا ، کھلاڑیوں کو تربیت دیتا تھا، جس سربین کھلاڑی کی اُس نے کوچنگ کی اُس نے چھ گرینڈ سلیم اعزازات جیتے ، بورس بیکر نے اپنی خود نوشت بھی شائع کروائی ، کچھ عرصہ وہ جرمن ٹینس ایسو سی ایشن کا سربراہ بھی رہا مگر پھر حالات خراب ہونا شروع ہوگئے ، اُس کی شادی میں دراڑ آ گئی اور اِس کی وجہ بورس بیکر کا ایک روسی ماڈل کے ساتھ معاشقہ تھا۔ بعد ازاں بورس بیکر کے ذمے ایک قرض بھی نکل آیا جو اُس نے اسپین میں بنگلہ خریدنے کے لئے حاصل کیا تھا ، یہ قرض وہ وقت پر نہ چکا پایا ، شاید اس کی وجہ بیکر کے خانگی معاملات رہے ہوں گے۔ وجہ جو بھی رہی ہو، نتیجہ یہ ہے کہ آج بورس بیکر ایک عام قیدی کی طرح برطانیہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھےہے ۔

پیارے بچو،اِس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر کہانی سے کوئی سبق ہی ملے (بشکریہ شفیق الرحمٰن) مگر پھر بھی ہم سب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتاہے کہ جو لوگ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ناکارہ ہو جاتے ہیں ، گمنامی میں چلے جاتے ہیں یا پھر ماضی میں ہی زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں ،اُن کا انجام ناکامی اور ڈپریشن میں ہوتا ہے ۔ بورس بیکر کے تناظر میں یہ بات الٹ ہے۔1999 میں ٹینس کو خیر باد کہنے کے بعد بورس بیکر نے یہ تہیہ کیا تھاکہ وہ خود سابقہ ٹینس اسٹار کہلوانے کی بجائے زندگی میں مزید کچھ نیا کرے گا ۔ یقیناً اُس نے کسی موٹیویشنل اسپیکر کی کوئی کتاب پڑھ لی ہوگی جس میں بتایا گیا ہوگا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا ناکام لوگوں کی نشانی ہے ،زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی جستجو کرنی چاہئے ، رسک لیتے رہنا چاہئے ، نیا ہنر سیکھنا چاہئے ، ماضی میں زندہ رہنے کی بجائے نئے خواب دیکھنے چاہئیں ، وغیرہ ، اور بورس بیکر نے یہ سب کچھ کیا ۔ اُس نے دنیا کے لئے بہترین ٹینس اسٹار تیار کئے ، پوکر کے مقابلوں میں حصہ لیا، جرمن ٹینس ایسو سی ایشن کی سربراہی کی، اور تو اور اپنی زندگی کے بارے میں کتاب بھی لکھ ماری ۔ گویا بورس بیکر نے ہر وہ کام کیا جس کے بارے میں عام طور پر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کامیابی کے لئے ضروری ہے ، مگر آخر میں کچھ بھی کام نہ آیا اور مسٹر بیکر کا دیوالہ نکل گیا۔

میری رائے میں بورس بیکر سے دو غلطیاں ہوئیں۔ ایک، اُس نے اپنے مالی معاملات کو بالکل سنجیدگی سے نہیں لیا، ظاہر ہےکہ جس شخص کو سترہ برس کی عمر میں عالمی شہرت مل جائے اور وہ لاکھوں ڈالروں میں کھیلنے لگے اسے پیسے کی قدر محسوس نہیں ہوگی ۔ یہی وجہ تھی کہ اُس نے ٹیکس بھی چوری کیا، قرض بھی اٹھایا اور پھر اپنے اثاثے بھی چھپائے ۔ یعنی ایک کے بعد ایک غلطی کی جبکہ عقل کا تقاضا تھا کہ پہلی سزا کے وقت ہی سنبھل جاتا اور مزید معاملات خراب نہ ہونے دیتا ۔ دوسری غلطی مسٹر بیکر سے یہ ہوئی کہ اُس نے اپنی ذاتی زندگی پر توجہ نہیں دی ، اِس میں کچھ کردار مغربی میڈیا کا بھی رہا جو ہمہ وقت بورس بیکر کے پیچھےپڑا رہتا تھا، اُس کی ذاتی زندگی ہر کسی کی نظر میں رہتی اور پھر ایک دن اِس سب کا نتیجہ اُس کی علیحدگی کی صورت میں نکلا۔سچ پوچھیں تو یہ دونوں غلطیاں بھی میں نے خواہ مخواہ ہی تلاش کی ہیں ۔ دنیا میں لاکھوں بدھو پھرتے ہیں جن کے پاس کروڑوں کے اثاثے ہوتے ہیں، انہیں کوئی خاص عقل بھی نہیں ہوتی مگر ان میں سے اکا دکا لوگوں کا وہ انجام ہوتا ہے جو بورس بیکر کا ہوا۔ اسی طرح بڑے لوگوں کی شادیاں بھی اکثر ناکام ہوجاتی ہیں مگر یہ نہیں ہوتا کہ وہ بالکل ہی حواس باختہ ہوجائیں اوراُن کا دیوالیہ نکل جائے ۔صرف ایک بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ مغربی نظام کی قانون پر عملداری ہے ۔ اس نظام میں بورس بیکر ہو یا ملکہ برطانیہ کا پوتا، اگر جرم ثابت ہوجائے تو پھر وہ سزا سے نہیں بچ سکتا ، خاص طور سے اگر جرم ٹیکس چوری یا مالی معاملات کی بے ضابطگی ہو۔ بورس بیکر کو چاہئے تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جرمنی سے برطانیہ منتقل ہونے کی بجائے پاکستان آجاتا ، ہم اسے مفت میں شہریت بھی دیتے ، سر آنکھوں پر بھی بٹھاتےاور شاید ایک دن ملک کاوزیر اعظم بھی بنا دیتے ۔ ملک چاہے دیوالیہ ہوجاتا ، ہم بورس بیکر کو دیوالیہ نہ ہونے دیتے!

تازہ ترین