ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہر روز کچھ نیا ہورہا ہے ، ہر روز چونکا دینے والی خبر آپ کی منتظر ہوتی ہے اور کبھی پریشان کر دینے والی خبر آپ کے اوسان خطا کردیتی ہے۔ ان حالات میں ایک صحافی اور محقق پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ اس کا قلم کچھ ایسا تحریر نہ کرے جو سماج کے لئے موزوں نہ ہو اور دوسرا ، وہ Whistle-blower کے طور پر بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرے، آپ اگر موخرالذکر کردار کسی ایجنڈے کے بغیر ادا کررہے ہیں تو یقیناً سماج میں آپ کا کردار مثبت اور غیرمعمولی طور پر پُراثر ہوگا۔ اس تناظر میں اگر بات کی جائے تو درویش ایک حساس شہری ہونے کے ناتے یہ خیال کرتا ہے کہ ہم نے صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں کو خود نجی شعبہ کے حوالے کیا ہے اور چوں کہ ان شعبوں میں منافع کی شرح غیرمعمولی حد تک زیادہ ہے تو سرمایہ کار اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جس سے یہ اس قدر طاقت حاصل کرلیں کہ یہ کبھی گرفت میں نہ آسکیں جب کہ سماج میں طبقاتی توازن بھی متاثر ہورہا ہے۔ فرض کیجئے، درویش میں ایک انٹراپرینیور کی ہر خوبی موجود ہے مگر اس کے باوجود وہ اس لئےایک سپراسٹور پر ملازمت کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے گھر کا بار اٹھا سکے تو ایسی صورت میں بے دلی سے کیا گیا اس کاکام سماج کے علاوہ اس کے اپنے لئے بھی کسی طور پر مفید ثابت نہیں ہوگا۔ چناں چہ وہ کیجئے جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ یقیناً ، دیر سے ہی سہی، اپنی منزل پر ضرور پہنچیں گے۔ اس طویل تمہید کے بعد اصل نکتے پر آتے ہیں کہ منگل کے روز دنیا بھر میں ماں بولی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، یہ دن منانے کی وجہ بھی ہم ہی ہیں جب ہم نے اپنے سابقہ ’’ہم وطنوں‘‘ پر 21 فروری 1952کو گولی چلائی۔ ان کا مطالبہ محض یہ تھا کہ وہ بنگالی کو اُردو کی طرح قومی زبان بنانا چاہتے تھے، جو اگر تسلیم ہوجاتا توتقسیم کا کرب نہ سہنا پڑتا۔ ہم نے اپنی دیگر مادری زبانوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک کیا اور اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ہم پانچ دریائوں کے باسی اپنے تہواروں سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں، چلیے خونی ڈور کی وجہ سے بسنت کے تہوار کا ’’قتل‘‘ ہم نے خود کیا مگر کیا ہم پنجابی کھیل بچا پائے؟کینیڈا اور انگلینڈمیں آباد سکھ Diaspora اگر متحرک نہ ہو تا تو کبڈی کے کھیل کا احیا کبھی نہ ہوپاتا۔ اسی Diaspora کی وجہ سے ماں بولی کے عالمی دن پر آپ کو کچھ ہلچل نظر آجاتی ہے جس کے باعث ان جواں جذبوں کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جن کے باعث ہم پنجابیوں کو ایک نئی راہ سجھائی دی اورہم نے چندر گپت موریہ،راجہ پورس، بابا فرید، ؒبابا بلھے شاہؒ، بابا وارث شاہؒ اوربابا گورو نانک کی اس سرزمین کی تاریخ محفوظ کرنے کے لئے کام شروع کیا ہے جس پر تمام ادارے اور افرادتحسین کے مستحق ہیں اور وہ لوگ بطورِ خاص داد کے متقاضی ہیں جو ہر سال ماں بولی پر کچھ نیا کرتے ہیں، کچھ ایسا جو سیدھا دل میں اُتر جاتا ہے۔ آٹھ برس قبل لائلپور (فیصل آباد) کے کچھ نوجوانوں نے ماں بولی کے پرچار کے لئے ادبی میلے کا اہتمام کیا، رواں سال اس میلے کے انعقاد کو آٹھ برس مکمل ہوجائیں گے۔ نوجوان اور پنجابی زبان کے فروغ کے لئے سرگرم توحید چٹھہ اور ان کے ساتھیوں نے آٹھ برس پہلے نوجوانی کے سنہرے دنوں میں جب یہ ادبی میلہ کروانے کا خواب دیکھا ہوگا تو بہت سے لوگوں نے ان کا مذاق اُڑایا ہوگا مگر اس بدھ سے شروع ہونے والا دوروزہ پنجابی سلیکھ میلہ ان کی آٹھ سالہ ریاضت کا ثمر ہے جو یقیناً آنے والے برسوں میں بھی جاری رہے گا۔ اس میں شبہ نہیں کہ لائلپور پاکستان کے پانچ بڑے شہروں کی فہرست میں شامل ہے مگر مین اسٹریم سے ہٹ کر ہونے کے باعث ایسے شہروں میں میلوں کا انعقاد، جب ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے اور مہنگائی کی بدترین لہر کا سامنا کر رہا ہے،شہریوں کے لئے کسی خوشگوار جھونکے سے کم نہیں ۔
تمہید میں Whistle-blower کی اصطلاح کا استعمال ہوا، یہ اصطلاح عموماً ان افراد اور تنظیموں کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جو کسی سرکاری یا نجی ادارے ، سماج یا اپنے علاقے، شہر یا ملک میں ہو رہے کسی غلط کام کی نشان دہی کریں، یہ ذمہ داری ادا کرنا کسی طور پر آسان نہیں کیوں کہ ایک غلطی کی نشاندہی کرنا آپ کے لئے بہت سی پریشانیوں کا باعث بن سکتی ہے اور ہو سکتا ہے، آپ کے نشان دہی کرنے پر وہ مسئلہ حل ہوجائے، دونوں صورتوں میں ایک Whistle-blowerکا کردار اہم اور فیصلہ کن ہوتا ہے اورہر فرد کسی نہ کسی طور پر یہ ذمہ داری ادا کر سکتا ہے۔ ایسے میلوں کا انعقاد محض خوشی کے اظہار یا ماں بولی میں بات کرنے سے مشروط نہیں بلکہ یہ تجدیدِ عہد کا دن ہے اور جو تنظیمیں اس دن مختلف تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں، وہ بنیادی طور پر Whistle-blowerکا کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں کیوں کہ وہ آپ کو آپ کی ثقافت کی جانب متوجہ کر رہی ہوتی ہیں جسے آپ فراموش کرنے پر تلے ہیں۔ یہ اصطلاح 70 کی دہائی میں رائج ہوئی جسے شہری حقوق کے امریکی کارکن رالف نادر نے متعارف کروایا تاکہ اس کے متبادل استعمال کئے جا رہے الفاظ جیسا کہ انفارمر(مخبر) سے منسلک ہو چکے منفی معنوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ شہری حقوق کی تحریکیں دراصل Whistle-blowers کی مرہونِ منت ہیں اور ثقافت کا تحفظ بھی ایک شہری کا بنیادی حق ہے۔ اس لئے اگر سندھ نے سندھی کلچرل ڈے منانا شروع کیا اورآج سب صوبے اپنا ثقافتی دن جوش و خروش سے منارہے ہیں تو اس کا کسی طور پر یہ مطلب نہیں کہ اس سے قومی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے بلکہ تنوع کو تسلیم نہ کرنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جس کی ایک مثال ماں بولی کے دن کی تاریخ میں پنہاں ہے۔ آئیے، ماں بولی کے عالمی دن پر نسلی، لسانی اور مذہبی اختلافات کو نمایاں کرنے کی بجائے اس حقیقت کو دل سے تسلیم کریں کہ ہم ایک متنوع معاشرے کے رُکن ہے، جسے تسلیم کئے بنا ترقی کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)