بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جب شروع ہوا تو اس کی بہت مخالفت کی گئی۔ بھٹو مخالف ہر قوت اس دور میں اس پروگرام کی مخالفت کرتی نظر آئی۔ یہی نہیں ایک پڑھا لکھا طبقہ جو آج پی ٹی آئی کی حمایت کرتا نظر آتا ہے وہ عجیب دلائل پیش کرتا رہا، کسی نے یہ کہا کہ جتنے پیسے غریبوں میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بانٹے جارہے ہیں اتنے میں ایک فیکٹری لگا دی جائے تو لوگوں کو روزگار مل جائے گا، اور ملک کے جی ڈی پی میں بھی اضافہ ہوگا، یہ ایک ایسی مخالفت تھی کہ جس میں دم تھا لیکن یہ بات کرنے والے پڑھے لکھے ضرور تھے مگرعقل سے عاری تھے، کیوں کہ اگر ایک یتیم کی ماں کو ماہانہ وظیفہ مل رہا ہے اور بجائے وظیفہ دینے کے اس سے کہا جائے کہ ہم نے فیکٹری لگائی ہے اس میں آئیں گی تو تنخواہ ملے گی۔ کسی بیوہ کو اگر وظیفہ مل رہا ہے اور کہا جائے کہ آپ بڑھاپے میں فیکٹری میں آئیں گی تو آپ کو تنخواہ ملے گی۔ تو کیا فیکٹریوں میں بوڑھی، بزرگ عورتوں کو نوکری مل سکتی ہے ؟ عمر رسیدہ خواتین تو چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہوتی ہیں ان کے لئے یہ کہا جائے کہ بی آئی ایس پی سے بہتر تھا کہ کوئی فیکٹری لگادی جائے، یہ وہ سوچ تھی جسے آصف علی زرداری نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کرکے شکست دی اور آج یہ قوتیں بھی اس پروگرام کو جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔
عمران خان کو تو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے اس لئے بھی مسئلہ تھا کہ یہ پروگرام پاکستان کی ایک بہت بڑی رہنما بینظیر بھٹوکے نام پر چل رہا تھا اور وہ اس لیے بھی نالاں تھے کہ اس پروگرام سے ان کا کوئی اے ٹی ایم فائدہ نہیں اٹھا رہا تھا، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جب عالمی سطح پر سراہا جارہا تھا، ایسے میں عمران خان کی حکومت اس پروگرام کو بدنام کرنے کیلئے دن رات کوششیں کرتی رہی، کبھی اس کا نام تبدیل کرکے تو کبھی اس کے خلاف جھوٹی خبریں نشر کرکےجب کہ ورلڈ بینک اور اس جیسےدیگر عالمی ادارے اس پروگرام کے فوائد اور معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں دنیا کو بتا رہے تھے مگر یہاں پاکستان میں عمران خان کی حکومت روز کوئی نیا شوشہ چھوڑ کرعوام کو بتاتی تھی کہ اس پروگرام میں کرپشن ہے۔ کیوں کہ مسئلہ پروگرام سے نہ تھا بلکہ بینظیر کے نام سے تھا۔ عمران خان کے دور میں ایسی خواتین کا بھی وظیفہ بند کردیا گیاجن کے پاس مبینہ طور پر کسی رشتہ دار کی طرف سے کچھ رقم بینک میں آئی ہو، یعنی اگر کسی نے اپنا علاج معالجہ کروانے کیلئے کسی سے رقم ادھار مانگ لی اور غلطی سے بینک میں رکھوا دی تو اس کا بھی وظیفہ بند ہوگیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر ان خواتین کے لئے امید کی ایک کرن جاگی اور انھوں نے سروے کروانے کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے سابقہ دور میں بغیر کسی سروے کے لوگوں کے وظائف بند کردیے گئےتھے۔
شازیہ عطا مری چونکہ ایک منتخب خاتون ہیں اور محترمہ آصفہ بھٹو کی خصوصی ہدایت پر غریبوں کے ساتھ جھونپڑیوں اور سڑکوں پر بیٹھنے والی اور ان کا درد رکھنے والی ہیں، انھیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ سابقہ حکومت میں غریب اور بے سہارا خواتین کا وظیفہ صرف میڈیا ریٹنگز لینےکیلئے بند کیا گیا لہٰذا انھوں نے آتے ہی ایسے اقدامات کیےکہ جو خواتین اہل ہیں،انہیں فی الفور اس پروگرام میں دوبارہ داخل کردیا جائے۔ شازیہ عطا مری جس طرح صدر آصف علی زرداری کے احکامات پر متحرک ہیں امید ہے بینظیر انکم سپورٹ سے نکالی گئی دیگر بے سہارا خواتین بھی جلد اس پروگرام میں شامل ہوجائیں گی۔ اسکے علاوہ خواجہ سرا جو سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں انھیں اس پروگرام میں شامل کرنا بھی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کےمترادف ہے جس پر وہ اور ان کی ٹیم بھرپور شاباش کی مستحق ہے۔ اس پروگرام کے سازشیوں کے خلاف کھل کر بات کرنا آسان نہیں کیوں کہ جب عالمی ادارے آپ کی تعریف کررہے ہوں اور گھر سے ہی آپ پروگرام کے خلاف پروپیگنڈا کرنا شروع کردیں تو یقینی طور پر نقصان پاکستان کا ہی ہوگا۔ عمران خان حکومت کی بے جا تنقید کی وجہ سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی امداد کرنے والے چند ادارے امداد کرنا چھوڑ گئے تھے کیوں کہ جب حکومت ہی ایک پروگرام کو متنازع بنا رہی ہو تو عالمی ادارے اس پروگرام میں کیوں شامل ہوں گے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی کاوشوں کی بدولت ایک بار پھر عالمی ادارے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا حصہ بننے کے لئے تیار ہیں۔