بھارتی ریاست کیرالہ میں جان لیوا نیپاہ وائرس کا ایک نیا کیس رپورٹ ہوا ہے، 12 جولائی کو پالکڑ ضلع میں 52 سالہ شخص میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی جو 2018ء کے بعد ریاست میں نیپاہ وائرس کا دسواں کیس ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں برس اب تک کیرالہ میں نیپاہ کے 4 کیسز رپورٹ اور اس سے 2 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، یہ تمام کیسز مالاپورم اور پالکڑ کے سرحدی علاقوں کے تقریباً 50 کلومیٹر کے دائرے میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
ریاستی حکام نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے 5 اضلاع میں 675 افراد کو اپنی نگرانی میں رکھا ہے اور کیرالہ میں ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے۔
نیپاہ وائرس (NiV) ایک مہلک زونوٹک وائرس ہے، یعنی کہ ایسا وائرس جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے، اس وائرس سے متاثرہ افراد میں 40 سے 75 فیصد شرح اموات دیکھی گئی ہے۔
’نیپاہ‘ اور آسٹریلیا میں پایا جانے والا ’ہینڈرا وائرس‘ دونوں ہی ’ہینیپا وائرس‘ کی اقسام ہیں جو انسانی اعصابی نظام اور سانس کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
نیپاہ وائرس کی اصل وجہ ’فروٹ بیٹ‘ (پھل کھانے والے چمگادڑ) ہیں، جو ایشیا، افریقہ اور اوشیانا کے مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
یہ چمگادڑ وائرس سے متاثر تو ہوتے ہیں لیکن خود بیمار نہیں ہوتے، یہ وائرس انسانوں تک بل واسطہ یا بلاواسطہ خنزیر یا پھر گھوڑے کے ذریعے منتقل ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق نیپاہ وائرس کی علامات میں بخار، سردرد، کھانسی، سانس لینے میں دشواری، دورے اور دماغی سوجن شامل ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ وائرس سے بیمار شخص میں انفیکشن کی شدت بڑھنے پر متاثرہ فرد ہوش کھو بیٹھتا ہے اور اس کے پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
وائرس کی علامات ظاہر ہونے میں 4 سے 14 دن تک لگ سکتے ہیں۔
نیپاہ وائرس جنوبی بھارتی ریاست کیرالہ میں پھیل رہا ہے جس کے پیشِ نظر ریاست میں ہائی الرٹ جاری کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کیرالہ میں وائرس کے پھیلاؤ کا کوئی واضح راستہ سامنے نہیں آ سکا ہے، اس سے متعلق ایک مفروضہ پایا جاتا ہے کہ کیرالہ کے باسی پھل کھانے والے چمگادڑ کے لعاب سے آلودہ پھل کھا کر متاثر ہو رہے ہیں جبکہ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق کیرالہ میں دستیاب پھلوں کو لیب میں ٹیسٹ کرنے پر ان پھلوں میں وائرس کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کی نئی تحقیق کے مطابق وائرس ممکنہ طور پر ہوا کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔
اس تحقیق کے شریک مصنف اور ویلور کے کرسچن میڈیکل کالج کے پروفیسر، ڈاکٹر تھیہکارا جیکب جان نے کہا ہے کہ جیسے تپ دق (TB) کے جراثیم ہوا میں تیرتے رہتے ہیں، اسی طرح نیپاہ وائرس بھی ممکنہ طور پر فضا میں موجود رہ سکتا ہے۔
نِیپاہ وائرس کے علاج یا اس سے بچاؤ کے لیے فی الحال کوئی مخصوص دوا یا منظور شدہ ویکسین دستیاب نہیں، تاہم عالمی ادارۂ صحت نے نیپاہ کو اپنی R&D بلیوپرنٹ میں شامل کیا ہے جس کا مقصد وباؤں کے لیے تیاری اور تحقیق کو تیز کرنا ہے۔