پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گرد موت کا رقص پیش کرنے لگے ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب نے سفّاک دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو بلا شبہ شدید نقصان پہنچایا تھا، لیکن حال ہی میں انہوں نے جس طرح دوبارہ دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اس نے ہمیں ایک بار پھر یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم من حیث القوم دہشت گردی کے اسباب کا مختلف پہلووں سے جائزہ لیں۔
مسائل کا حل اندر بھی ڈھونڈیں
جب سے پاکستان میں خود کش حملے شروع ہوئے ہیں ان میں یہ قدرِ مشترک نظر آتی ہے کہ زیادہ تر حملہ آور نوجوان ہوتے ہیں۔ وہ زندگی کے مقابلے میں موت کو ترجیح دیتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے پیچھے گریہ و نوحہ چھوڑ جانا چاہتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کے بعد ان کے عزیزوں پر کیا گزرے گی اور جنہیں وہ اپنی لپیٹ میں لیں گے اُن کے خاندانوں پر کیا قیامت ٹوٹے گی۔
وہ دُھن کے پکّے اور موت کے خواہش مند ہیں۔ ایسے میں انہیں اپنے ارادے سے باز رکھنا کس طرح ممکن ہے؟ کون یہ کام کرسکتا ہے، اس کا بیڑا کون اور کب اٹھائے گا؟ موت کی راہوں کے مسافر کب تک ہمارے ارد گرد اسی طرح آتش و آہن کا طوفان اٹھاتے رہیں گے؟ یہ خودکش حملہ آور کون ہیں، وہ کیا چاہتے ہیں اور اس انتہائی اقدام کے لیے کن حالات کی وجہ سے تیار ہوتے ہیں؟
ایک کے بعد دوسرے خودکش حملے کا شکار ہونے اور لاشوں پر لاشیں اٹھانے کے باوجود شاید ہم نے سنجیدگی سے کبھی درج بالا سوالات کے جواب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حالاں کہ ان سوالات کے جواب حاصل کرنا آج ہماری بقاء کے لیے نہایت ضروری ہوگیا ہے۔ اس مقصد کے لیے خودکش حملہ آور اور ان کے سرپرستوں کا دماغ پڑھنا بہت اہم ہے۔
ملک میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی وجوہ سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے سماجی نظام کو سمجھنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں سماجی سائنس ،علمِ جُرمیات، اور تاریخ کے پہلوئوں سے اس مسئلے کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یورپ کی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ وہاں تاریک دور کے بعد خصوصاً پندرہویں سے اٹھارہویں صدی کا زمانہ بہت اہم ہے، کیوں کہ اس عرصے میں یورپی معاشرے کی کایا پلٹ ہوئی۔ پاکستان کا معاشرہ، سماجی تبدیلیوں کے لحاظ سے آج اسی نہج پر ہے۔
ہمارا معاشرہ پہلے روایتی، جاگیردارانہ اور زرعی نوعیت کا تھا، لیکن اب یہ جدید صنعتی اور شہری معاشرے میں تبدیل ہو رہا ہے۔ یورپ تین سوسال قبل اس مرحلے سے گزرا تھا۔ دیہی اور شہری زندگی کے تقاضے اور مسائل مختلف ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے فطرت سے قریب تر ہوتے ہیں، ان کے مسائل کم ہوتے ہیں اور وہ اپنے حال میں خوش رہتے ہیں۔
ان کے شعور کی سطح پست اور اطمینان و سکون کی سطح بلند ہوتی ہے۔پہلے انہیں بجلی، ٹی وی، ریفریجریٹر، کمپیوٹر اور موبائل فون کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اب ہمارے دیہی علاقوں میں بھی یہ چیزیں ضرورت بنتی جارہی ہیں۔ ذرایع ابلاغ کی ترقی کی وجہ سے اب دیہی اور شہری علاقوں کے لوگوں کی فکر میں زیادہ فرق نہیں رہا ہے۔
ہمارے معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فطری ارتقائی عمل سے نہیں گزرا۔ پاکستان کا معاشرہ دیہی علاقوں سے لوگوں کی ہجرت سے بنا اور اب بھی یہ عمل جاری ہے۔ گائوں سے آکر لوگ شہروں میں بس گئے ،لہٰذا ہمارے شہری معاشرے کی تہذیب و ثقافت متنوّع نہیں ہے۔ متنوّع تہذیب و ثقافت میں تمام طبقات تمام تر اختلافات کے باوجود ارتقائی عمل کے تحت زندہ رہتے ہیں۔ یورپ کے معاشرے کو دیہی سے شہری معاشرے میں تبدیل ہونے میں صدیاں لگی تھیں۔
فرانس اور یورپ میں صنعتی انقلاب رونما ہونے میں تقریباً تین صدیاں صرف ہوئیں۔ اس عرصے میں وہاں ایجادات اور اختراعات ہوئیں۔ ہمارا معاشرہ ان مراحل سے نہیں گزرا۔ یورپ کا معاشرہ اُس دور میں ہم سے زیادہ انتہا پسند تھا۔ وہ مذہب کے نام پر لوگوں کے سر کاٹتے، جیب کترے کو پھانسی کی سزا دی جاتی۔ جنیوا میں قہقہہ لگانے پر سزا تھی اور کیتھولک اور پروٹسنٹ عیسائی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ کیتھولک مذہبی انتہا پسند تھے۔
پاکستان کے معاشرے میں تبدیلیاں تو آئیں، لیکن سماجی ڈھانچے کی خامیاں برقرار رہیں، یعنی غربت اور ناخواندگی کی شرح کم نہیں ہوئی اور سماجی ڈھانچا تبدیل نہیں ہوا۔ ذرایع ابلاغ نے لوگوں کو شعور دیا اور لوگوں کی ضروریاتِ زندگی میں اضافہ کیا، لیکن دوسری طرف لوگوں کو ضرورت کے مطابق وسائل نہیں ملے۔ یورپ کا خاندانی نظام تباہ ہونے میں طویل عرصہ لگا، لیکن یہاں پچیس تیس برس میں اس نظام کا ڈھانچا ہل گیا۔ پہلے ہمارے معاشرے میں مذہب کی اہمیت تھی، لیکن اب مذہب کسی اور شکل و صورت میں سامنے آنے لگاہے۔ پہلے لوگ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے، مگر اب ہر طرف پیسے کی دوڑ ہے۔
ان حالات کی وجہ سے فرد تنہا ہوگیا۔ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور مذہب سے تعلق میں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ اب ہمارے معاشرے کا عالم یہ ہے کہ جب مذہبی رجحانات زور پکڑتے ہیں تو لوگ اس طرف چل پڑتے ہیں اور جب سیکولر رجحانات تقویت پاتے ہیں تو لوگ ان سے متاثر ہوجاتے ہیں۔
کوئی بھی شخص آسانی سے مرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ جب اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے تو سوچتا ہے کہ مرنا ہی ہے تو دس بیس کو ساتھ لے کر مرے۔ ایسی صورتِ حال میں مذہب کا سہارا مل جائے تو ایسے لوگوں کو اپنے اس عمل کی تشریح کے لیے مقدس ذریعہ ہاتھ آجاتا ہے۔ یہ حقیقت سےفرارکی صورتِ حال ہے۔ لوگوں کو کم زور ہونے کا احساس دلایا جائے تو وہ انتہا تک چلے جاتے ہیں۔
پاکستان میں خودکش حملے کسی ایک مقصد کے لیے نہیں ہو رہے۔ تحقیق کے مطابق ان حملوں میں زیادہ تر صوبۂ سرحد کے قبائلی اور پنجاب کے بعض شہری علاقوں کے لوگ ملوث ہیں۔ صوبۂ سرحد کے قبائلی علاقوں میں بدلہ چکانے کے لیے بھائی بھائی کو قتل کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی رجحانات بھی ہیں۔ صوبۂ پنجاب کے بھی بعض حصّوں میں اس حوالے سے مذہبی رجحانات کے علاوہ ثقافتی و تہذیبی تناظر کا عمل دخل ہے۔ ایسے حالات میں فرد کی سماجی تربیت بہت اہم ہوتی ہے۔ انتہا پسند لوگ یتیم اور غریب بچّوں کی پرورش کا ذمّہ لے کر ان کے دماغ میں اپنے نظریات ٹھونس دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کم سنوں کی برین واشنگ آسانی سے ہوجاتی ہے اور دیرپا ہوتی ہے۔
معاشرے سے ہر قسم کی انتہا پسندی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سماجی نظام اور حالات میں تبدیلی لائی جائے اور حکم رانی اور انصاف کی فراہمی کا نظام بدلیں۔ ڈنڈے کے زور پر حکومت کرنے کا زمانہ چلا گیا۔ ہمیں خود کو زمانے کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنا ہوگا۔ سماجی انصاف اور مساوات عام ہو اور لوگوں کو تحفظ اور زندگی کی اہمیت کا احساس دلائیں۔ غیر محفوظ شخص کی زندگی بے کار ہوتی ہے۔
اگر لوگ خود کو محفوظ نہ سمجھیں تو وہ سوچتے ہیں کہ ایسی زندگی کا کیا فائدہ ہے۔ پھر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ جب ہر حال میں مرنا ہی ہے تو کیوں نہ دوچار کو مار کر مریں۔ یہ انسان کی جبلّت ہے۔ ایسے حالات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم برائے زندگی دی جائے اور امارت اور غربت کا فرق ختم کیا جائے۔
تاریخ کے اوراق سے
معاشروں کے ارتقائی سفر میں اس طرح کے مراحل آتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ہی معاشرے اس سفر میں کام یابی سے آگے بڑھتے ہیں جو وقتاً فوقتاً اپنے اندر پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کرتے اور سوالات کے جواب ڈھونڈتے ہیں۔ ارتقا کے سفر میں کل کے پس ماندہ اور آج کے ترقی یافتہ معاشرے بھی بہت خراب حالات سے گزرے ہیں ۔ 1860ء میں امریکا کی شمالی اور جنوبی ریاستوں میں انتہا پسندی کا یہ عالم تھا کہ وہ انسانوں کو غلام بنائے رکھنے یا یہ سلسلہ ختم کرنے کے گھٹیا سے سوال پر آپس میں لڑ پڑی تھیں اور ابراہام لنکن کو 1860ء کے صدارتی انتخابات میں جنوب کی ریاستوں میں سے ایک نے بھی ووٹ نہیں دیا تھا۔
واضح رہے کہ جنوب کی کئی ریاستیں انسانوں کو غلام بنائے رکھنے پر مُصر تھیں اور ان میں سے جنوبی کیرولینا کی ریاست نے واضح طور پر اعلان کردیا تھا کہ اگر ابراہام لنکن صدر منتخب ہوگئے تو وہ یونین سے علیحدہ ہوجائے گی اور دسمبر 1861ء میں اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کی دیکھا دیکھی جنوب کے زیریں علاقوں کی ریاستوں الباما، مسی سپی، لوزیانا، جارجیا، فلوریڈا اور ٹیکسس نے بھی ایسا ہی کیا۔ فروری 1861ء میں ان علیحدہ ہوجانے والی ریاستوں نے کنفیڈریشن اسٹیٹس آف امریکا کے نام سے ایک نیا اتحاد تشکیل دے دیا تھا۔ اس کے بعد وہاں ابراہام لنکن کی حامی اور مخالف ریاستوں میں جنگ چھڑ گئی تھی جو کافی عرصے تک جاری رہی۔
یورپ بھی ایسے ہی تاریک دور سے گزر چکا ہے۔ وہاں مذہب کے نام پر کئی جنگیں لڑی گئیں، ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کی جان لے لی جاتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے جرائم پر شدید سزائیں دی جاتی تھیں۔ کلیسا کا کردار انتہا پسندانہ تھا۔ الغرض آج کے ترقی یافتہ مغربی ممالک بھی ماضی میں انتہا پسندی کے طویل ادوار سے گزر چکے ہیں۔ اپنے وقت کے مذہبی اور سیاسی نظام پر تنقید کرنے اور لوگوں کو سوال کرنے پر اکسانے کے جرم میں سقراط کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کرنا، گلیلیو کو دوربین ایجاد کرنے پر پھانسی دے دینا وغیرہ اس انتہا پسندی کی چند مثالیں ہیں۔
پھر یہ کہ معلوم انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز جنگیں یعنی جنگِ عظیم اوّل اور دوم میں مغربی اقوام ہی کا کردار سب سے اہم تھا۔ ان جنگوں میں لاکھوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ مہلک ترین ہتھیار مغربی اقوام ہی نے ایجاد اور استعمال کیے اور دنیا کا مہلک ترین ہتھیار ، جوہری بم، آج اور اس وقت کی بھی ایک ترقی یافتہ قوم نے جاپانیوں کے خلاف استعمال کیا تھا۔ کیا یہ انتہا پسندی نہیں تھی؟
یہ تاریخ کی باتیں ہیں، لیکن ہمیں ان سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ہمیں ماہرین کی مدد سے یہ جاننا ہوگا کہ لوگوں کی بھیڑ میں کوئی شخص کب اور کیوں تنہا ہوجاتاہے اور صحت مند زندگی کی طرف اس کی واپسی کیسے ممکن ہے؟ ایک جانب یقینی موت ہو اور دوسری جانب پوری زندگی، اس کی رنگینیاں، مسّرت، محبت، دنیا کی دل کشی اور جوانی کی رعنائیاں ہوں تو لوگ کیوں یقینی موت کی راہ پر قدم بڑ ھا د یتے ہیں؟ انسان کے لیے موت کب اور کیوں زندگی کے مقابلے میں زیادہ پُرکشش اور اوّلین ترجیح بن جاتی ہے؟ کیا ایسے لوگوں کو مستقل مزاجی سے ذرایع ابلاغ اور دیگر ذریعوں سے مؤثر پیغام دے کر موت کی راہ پر چلنے سے روکا جاسکتا ہے؟ کیا ایسے لوگوں کے اعصاب طاقت کے مظاہرے سے تڑخ جاتے ہیں یا انہیں پیارو محبت کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعے راہ راست پر لایا جاسکتا ہے ؟پچھلے زمانے میں ہم سے اچھے مسلمان گزر چکے ہیں۔
انہوں نے بڑے مظالم سہے، مگر ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور صبر و تحمل اور برداشت و رواداری کا درس دیا۔ پھر آج مسلمان کہلانے والے اللہ اور رسول ﷺ یا کسی اور نام پرکیوں مرنے، مارنے پر تُل گئے ہیں؟ کیا آج کے حالات نے لوگوں کی قوتِ برداشت ختم کردی ہے؟ کیا تیز رفتار زندگی کی وجہ سے لوگ ہر کام کا نتیجہ تیزی سے برآمد ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہتھیلی پرسر رکھ کر کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیاں اور خودکش حملے نفسیات، عمرانیات ، سماجیات، فلسفے اور جرمیات کے علوم کی روشنی میں کیسے دیکھے جاتے ہیں اور ان کا کیا علاج تجویز کیا جاتا ہے؟
انتہا پسندی تو محض ایک لفظ یا اصطلاح ہے۔ یہ کسی قوم، مذہب، زبان، رنگ اور نسل کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ جو لوگ اسے بنیاد بنا کر کسی قوم، مذہب یا علاقے کو طعنہ دیتے ہیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تاریخ کا مطالعہ کریں۔ انتہاپسندی کی جڑیں تاریخ میں بہت دُور تک پیوست ہیں۔ لہٰذا اس کا تاریخی تناظر ہی میں جائزہ لینا چاہیے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مال و دولت اور ملک گیری کی ہوس میں مختلف خِطّوں کی اقوام نے دوسروں پر جنگیں مسلط کیں، حکومتیں گرائیں، نوآبادیات قائم کیں، اپنے نظریات دوسروں پر تھوپے، وسیع پیمانےپرتباہی پھیلا نے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے بارے میں بے بنیاد معلومات کی بنا پرکسی آزاد اور خودمختار ملک پر حملہ کیا گیا۔
برین واشنگ
پاکستان میں طویل عرصے سے مذہبی انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کی جو وارداتیں ہوتی آرہی ہیں ان کے بارے میں علمِ جُرمیات، نفسیات ، اورعمرانیات کے علوم اور سیکیورٹی اور انٹیلی جینس کے شعبوں کے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں انہیں انجام دینے والوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔برین واشنگ یا ذہن کی دھلائی سے مراد غیر اخلاقی طور پر انفرادی یا اجتماعی سطح پر کسی کے خیالات کو اپنی مرضی کے تابع کرنا ہے۔ عموماً یہ عمل مفعول کی مرضی کےبغیر کیا جاتا ہے۔یہ کام نفسیاتی یا غیر نفسیاتی طریقوں سے انجام پاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں مفعول اپنی فکر، رویّے، جذبات اور قوتِ فیصلہ پر قابو نہیں رکھ پاتا۔ برین واشنگ یا مائنڈ کنٹرول کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کسی شخص سے اس کا ہر طرح کا ماحول اور خوش حالی چھین کر اور فلاح کی تمام راہیں مسدود کرکے اسے تنہا کردیا جائے۔ دماغی امور کے ماہرین کے مطابق مائنڈکنٹرول کا شکارفرد حقیقت اور فکشن میں فرق نہیں کرپاتا اور جھوٹ کو بھی اپنے تئیں حقیقت ہی سمجھتا ہے۔
امریکی جریدے نیوز ویک کے مطابق خود کش حملہ آوروں کو مشن پر بھیجنے سے پہلے ان کی ایسی برین واشنگ کی جاتی ہے کہ وہ موت سے بھی بے خوف ہو جاتے ہیں۔ خود کش حملوں میں استعمال کیے جانےوالے افراد کی سخت اور منظم طریقے سے برین واشنگ آسان کام نہیں، بلکہ اس کے لیےبہت تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔
ٹی ٹی پی، داعش،جماعت الاحرار،لشکرِ جھنگوی اوردیگر د ہشت گرد گروہوں کے پاس بڑی تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں جن کی برین واشنگ کی جا چکی ہے یا تاحال کی جارہی ہے۔ ایسے افراد کو اس قسم کی کارروائیوں کے بعد اس انداز میں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے کہ زیر تربیت افراد میں مزید جوش وخروش پیدا ہو جاتا ہے۔
برین واشنگ کے عمل میں کسی بے ضرر اور عام انسان کوکسی کے مفاد میں استعمال ہونےپر تیار کرنے کے لیے اس کے سامنے ایک ہی بات یا نکتہ بار بار دہرایا جاتا ہے تاکہ وہ اسے ذہن نشین کرلے اور یہ یقین کرلے کہ برین واشر جو کچھ اسے سمجھا یا بتارہا ہے وہ سو فی صد درست ہے اوران باتوں پر بے دریغ عمل کرنا چاہیے۔ یعنی کسی کےخیالات کو افہام و تفہیم سے تبدیل کرنے اور اپنے الفاظ اور سوچ میں ڈھالنے کو برین واشنگ کہا جاتا ہے۔ یہ عمل سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کیا جاسکتا ہے کہ آپ روزانہ صبح سات بجے گھر سے روانہ ہوتے ہیں، لیکن کسی دوست کواکثر و بیش تر یہ بتاتے رہتے ہیں کہ میں صبح آٹھ بجے گھر سے روانہ ہوتا ہوں۔
باربارایک ہی بات دہرا نے سے آپ کا دوست اس بات پر یقین کرلے گا کہ آپ صبح سات نہیں بلکہ آٹھ بجے روانہ ہوتے ہیں۔ لیکن صرف آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ گھرسےسات بجے روانہ ہوتے ہیں۔ بہ ظاہر ان باتوں کا روزمرہ زندگی میں کوئی خاص عمل دخل نہیں، لیکن کئی اہم مقاصد کی تکمیل کے لیے منظم طریقے سے دنیا بھر میں انسانوں کے برین واش کیے جاتے تھے اور آج بھی کیے جارہے ہیں۔
برین واشنگ کا لفظ انیس سو پچاس میں ایک امریکی صحافی ایڈورڈ ہنٹر نے پہلی بار استعمال کیا تھا۔چین اور کوریا کی جنگ میں کئی امریکی فوجیوں کو جنگی قیدی بنا کر جیلوں میں ٹھونسا گیا۔ ان پر جسمانی تشدد کرنے کے علاوہ نفسیاتی دباؤ بھی ڈالا جاتا تھا۔ ان کے ذہنوں اور خیالات میں تبدیلی لائی گئی، یعنی ان کی ذہن سازی کی جاتی تھی۔ یہ لفظ مصری لٹریچر میں بھی موجود ہے کہ ذہن سازی اور خیالات میں جوڑ توڑ اور تبدیلی کا عمل کیسے کیا جاتا ہے۔
اس بارے میں تقریبا ہر زبان میں بہت سی کتابیں، تحقیقی مقالے اور مواد موجود ہے کہ کس طرح رشتے دار،خفیہ اورعسکری ادارے، انقلابی رہنما،آمر اور سیاسی و مذہبی رہنمااور تنظیموں کے کرتا دھرتا انسانوں کے برین واش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔یوں عام اور بے ضرر افراد کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور دھوکےسے اپنے مقاصدحاصل کیےجاتے ہیں۔ برین واشنگ کی تیکنیک کادنیا بھرکے بہترین اور جدید ہتھیاروں یا کسی قسم کی طاقت اورتوانائی سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ ایک خاموش نفسیاتی جنگ ہے۔ اسے انسانی ذہن کی چوری بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ کام کرنے والے عموما کم زور،کم تعلیم یافتہ، ناخو ا ند ہ اورپس ماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا انتخاب کرتے ہیں۔کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ایسے افراد پہلے ہی اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات و حالات سے اس قدرٹوٹ چکے ہوتے ہیں کہ ایک معمولی سی ضرب بھی کار آمد ثابت ہو سکتی ہے۔ باالفاظ دیگر شکاریوں کو ایسے افراد کاشکار کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ تاہم ہر انسان ان شکاریوں کے جال میں نہیں آتا کیوں کہ وہ مختلف ادوار واوقات میں ان کے کرتوتوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ کمینہ خصلت افراد اس قدر خطرناک حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ مضبوط اعصاب کے مالک اور طاقت ور افراد بھی ان کے چنگل سے بچ نہیں پاتے۔
برین واشر کچّے ذہنوں، کم زور اور دل برداشتہ افراد کو ٹارگٹ کرتے ہیں ۔ اکثر بچپن اور لڑکپن میں انسانوں کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے کیوں کہ اس عمر میں انسان کا ذہن عموماپختہ نہیں ہوتا۔ لہذا بچّوں یا کم سِن افراد کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کوئی بھی گھناؤنا کام کروالینا برین واشرز کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔پروفیشنل برین واشر جانتا ہے کہ کب ، کہاں ، کیسے اور کس کے دماغ کو واش کرناچاہیے۔وہ مقصدحاصل کرنے کے لیےترغیب و تحریص کے مختلف طریقے استعما ل کرتے ہیں (مذہبی تناظر میں) اور بعض اوقات تشدد، بھوک اورنیند کو بھی بہ طورحربہ استعمال کیا جاتا ہے۔
برین واشنگ کا سائنسی مکینزم
ہر انسان کوپانچ حواس عطا کیے گئے ہیں جنہیں حواسِ خمسہ کہا جاتا ہے۔ یعنی دیکھنے، سونگھنے، چکھنے، سننے اور چھونے کی حِسیں۔یہ حواس انسان کی جسمانی، ذہنی اورروحانی تعمیروترقی میں کلیدی کردار اداکرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کو حواسِ خمسہ ٹھیک طریقے سے استعمال کرنے کا علم آجائے تووہ دوسروں پر حکومت کرسکتا ہے۔ ان کے مطابق اس طریقے سے بہت کم لوگ واقف ہوتے ہیں۔ حالاں کہ یہ طریقہ استعمال کرکےہم اپنی خواہشات پوری کر سکتےاوریوں زندگی خوش گوار بنا سکتے ہیں۔ بس ضرورت صرف یہ طریقہ سمجھنے کی ہے۔
ماہرین کے بہ قول حواسِ خمسہ اور ہمارے دماغ کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حواسِ خمسہ کے بغیر ہمارا دماغ کچھ بھی نہیں ہے اور دماغ کے بغیرحواسِ خمسہ کسی کام کے نہیں۔ دماغ ہما رے پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ وہ ہمیں ملنے جلنے والے لوگوں کے رویوں سے بھی آگاہ رکھتا ہے کہ کون ہمارا خیر خواہ ہے اور کون دشمن ہے۔ یہ بھی ہمیں دماغ ہی بتاتا ہے کہ کس کے ساتھ ہمیں کیسا رویہ رکھنا ہے۔
یہ سب باتیں جاننے کے لیے دماغ کو بہت سی اور مختلف اقسام کی معلومات درکار ہوتی ہیں۔ یہ معلومات حاصل کرنے کے لیے ہمارا دماغ حواسِ خمسہ کا محتاج ہوتا ہے۔ کیوں کہ حواسِ خمسہ ہی کے ذریعے دماغ بیرونی دنیاسے رابطے میں رہتا ہے اور جسم کو کنٹرول کرنے کے لیے ان ہی کے ذریعے دماغ بیرونی دنیا سے معلومات حاصل کرتا ہے۔ حواسِ خمسہ کو ہم دماغ کے پانچ دروازے بھی کہہ سکتے ہیں۔
لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے،اپنی خامیاں دور کرنے، زندگی میں کام یابی حاصل کرنے، دوستوں اور ملنے والوں سے بہتر تعلق قائم رکھنے، کاروبار میں ترقی، گھریلو زندگی کو خوش گوار بنانے، بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت، دوسروں سے اپنی بات منوانےکے ساتھ بہت سے نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے ہمیں ان ہی پانچ دروازوں میں سے کسی ایک کے ذریعے دماغ تک پہنچ کر اسے کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ حواسِ خمسہ کے ذریعے ہم کسی بھی دماغ کو بہت آسانی سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔
تاہم یہ کام کرنے کے لیے ہمیں یہ علم ہونا چاہیے کہ جس شخص کا دماغ کنٹرول کرنا چاہتے ہیں یا جس سے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں اُس کا وہ کون ساحواس ہے جس کی مدد سے ہم اس کادماغ کنٹرول کر کے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ اور ہمیں یہ علم ہونا بھی ضروری ہے کہ ہمارا کون سا ایسا حواس ہے جس کے ذریعے اپنا پیغام دوسرے شخص کے دماغ تک پہنچا کر اسے کنٹرول کر سکتے ہیں، اگر کسی شخص کے چکھنے یا سننے کے حواس زیادہ فعال ہیں تو ایسے شخص کو کس حواس کے ذریعے کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ ہمارے لیے یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ سامنے والے شخص کے مخصوص حواس کو اپنے کس حواس کے ذریعے کیسےفعال کرناہے اور اپنا پیغام کیسے اس کے دماغ تک پہنچانا ہے تا کہ سامنے والے شخص کا دماغ ہماراپیغام قبول کر کے اس کے مطابق عمل کر سکے اور ہمیں مرضی کے مطابق نتائج مل سکیں۔
ماہرین کے مطابق ہر شخص کی وہ حِس مختلف ہوتی ہے جس کے ذریعے ہمیں اپنا پیغام بھیجنے کے لیے یہ جاننا ہوتا ہے کہ اپنے کس حواس کو کیسے استعمال کرکےپیغام دو سر ے شخص کے دماغ تک پہنچایا جائے۔ جب آپ کا پیغام کسی شخص کے دماغ تک ایسے طریقے سے پہنچ جائے کہ اس کے دماغ کے فلٹرز حرکت میں نہ آئیں تو وہ شخص آپ کے پیغام کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور آپ کو آپ کی منشاء کے مطابق سوفی صد نتائج ملتے ہیں۔
آج حواسِ خمسہ کے ذریعے اپنی بات منوانے اور دماغ کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایک چھوٹا سا ٹیسٹ ہوتا ہے جس کے ذریعے ہرشخص یہ جان سکتا ہے کہ حواسِ خمسہ کو کس طرح فعال کر کے ،کون سی فعال حِس کے حامل شخص کو اپنی کس حِس کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے خود اپنادماغ کنٹرول کر کےبہت سی ذاتی خامیاں دور کی جاسکتی ہیں۔