بارکھان واقعے کے خلاف مقتولین کے رشتے داروں اور مری قبیلے کا میتوں کے ساتھ کوئٹہ میں دھرنا دوسرے روز میں داخل ہو گیا۔
واقعے کا اب تک نہ مقدمہ درج ہوا نہ ہی مقتولہ خاتون کے بچے مل سکے۔
مظاہرین نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال سے واقعے کا ازخود نوٹس لینے کی اپیل کر دی۔
مظاہرین نے بلوچستان کے وزیر عبدالرحمٰن کھیتران کو گرفتار کر کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا مطالبہ کر دیا۔
بارکھان واقعے کے حوالے سے چیئرمین مری قبائل اتحاد میر جہانگیر خان مری نے میڈیا سے گفتگو میں مطالبہ کیا ہے کہ خان محمد مری کے 5 بچوں کو فوری بازیاب کرایا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیر کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے اور انہیں وزارت سے برطرف کیا جائے، صوبائی و وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ سے مدد کی اپیل کرتے ہیں۔
جہانگیر مری کا مزید کہنا ہے کہ خاتون نے ویڈیو میں فریاد کی تھی، اس افسوس ناک واقعے کا ابھی تک مقدمہ درج نہیں ہوا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ضمن میں صوبائی حکومت کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، وزیرِ داخلہ کا بلایا گیا اجلاس بے نتیجہ ہے۔
دوسری جانب مقتولہ کے 5 بچوں کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پولیس نے عبدالرحمٰن کھیتران کے گھر پر چھاپہ مارا اور مختلف حصوں کی تلاشی لی تاہم کوئی بازیابی عمل میں نہ آ سکی۔
بلوچستان حکومت نے تفتیش کے لیے جے آئی ٹی بنا دی جبکہ بلوچستان بار کونسل نے قتل کے واقعے کی مذمت کی ہے۔
آج بلوچستان بھر میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔
بلوچ پشتون قبائل کے سربراہوں کا جرگہ آج شام 5 بجے ایوانِ قلات کوئٹہ میں ہو گا۔
عبدالرحمٰن کھیتران پر نجی جیل میں قید کرنے کا الزام لگانے والی خاتون کی 2 بیٹوں سمیت کنویں سے لاشیں ملی تھیں۔
مقتولہ گراں ناز کی جانب سے کچھ روز پہلے ایک ویڈیو میں قرآن اٹھا کر سردار کھیتران پر خود کو اور 7 بچوں کو نجی جیل میں رکھنے کا الزام لگایا تھا۔