آدھی دنیا کو فتح کرنے والا سکندر اعظم تقریباً 324 قبل مسیح میں اپنی فوج کے ہمراہ کوہ ہمالیہ کو پار کر کے ہندوستان کی جانب آیا تھا ۔ وہ فتوحات اور لوٹی جانے والی دولت کے نشے میں مست تھا ۔ اس نے دریائے سندھ پار کیا، بادشاہ پورس کو شکست دی اور گنگا کی طرف جانے کا ارادہ کیا لیکن سرزمین سندھ پر اس کے جرنیلوں اور سپاہیوں کی روح شکستہ ہو چکی تھی اور فتوحات کا جوش ماند پڑنے لگا تھا۔ سکندر اعظم نے یہ بات محسوس کی اور سندھ سے آگے جانے کے بجائے واپس فارس جانے کا حکم دیا۔ سکندر اگرچہ ابھی تک کئی براعظموں کو فتح کرنے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے تھا لیکن اسے اپنی فوج میں بغاوت کا خطرہ محسوس ہونے لگا تھا۔ فوجی مسلسل اپنے وطن یونان واپس جانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ آخر کار سکندر اعظم نے انہیں واپس جانے کی اجازت دے دی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’وطن واپس جاؤ اور وہاں جا کر بتانا کہ تم اپنے بادشاہ کو مفتوحہ غیروں کے رحم وکرم پر چھوڑ آئے ہو‘‘۔ ایک روایت کے مطابق سکندر اعظم اس کے بعد اپنے خیمے میں بند ہو کر رہ گیا اور کسی سے بھی ملنے سے انکار کردیا۔ باغی عناصر بہت پچھتائے اور آکر اس خیمے کے دروازے پر لیٹ گئے اور کہنے لگے کہ معافی ملنے تک وہ وہاں سے نہیں جائیں گے۔ سکندر دوبارہ ان کے سامنے آیا اور انہیں معافی دے دی۔ فوجی خوشی کے گیت گاتے ہوئے واپس اپنے پڑاؤ میں چلے گئے لیکن سکندر اعظم نے محسوس کرلیا تھا کہ فوج میں بددلی پھیل چکی ہے لہٰذا اب وہ مزید فتوحات نہیں کر سکتا۔ روایت کے مطابق وہ بابل چلا گیا اور وہاں اپنے آپ کو شراب کے حوالے کردیا۔ وہ نشے میں دھت رہتا تھا اور بالآخر اسی حالت میں وہ مر گیا۔ اس وقت دنیا کے عظیم فاتح کی عمر صرف 32 سال تھی۔ بعض مؤرخین کے نزدیک اچھا ہوا کہ وہ اپنے عہد عروج میں ہی مر گیا ورنہ وہ جیتا رہتا تو مایوسی، شکست اور دکھ کے احساس میں ہی کڑھتا رہتا۔ وہ ایک ایسا جرنیل تھا جس نے اپنے سپاہیوں کے موڈ اور ان کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی کو محسوس کرلیا تھا،اس لئے اس نے مزید مہم جوئی نہیں کی۔
ایک جرنیل ہمارا ہے، جن کا نام پرویز مشرف ہے۔ ان سے اقتدار کا نشہ اتر ہی نہیں رہا۔ وہ اب بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں چک شہزاد کے فارم ہاؤس میں گارڈ آف آنر پیش کیا جائے گا اور دوبارہ ایوان صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف ان کے حوالے کردیئے جائیں گے۔ ان کا اب بھی یہی خیال ہے کہ ’’ اللہ، امریکہ اور آرمی‘‘ ان کے ساتھ ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بہت بڑا کمانڈو سمجھتے ہیں اور پاکستان کو دوبارہ فتح کرنے کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ سکندر اعظم کے فوجیوں نے صرف وطن واپس جانے کی درخواست کی تھی، جس پر سکندر نے مزید فتوحات کے لئے اپنی پیش قدمی بھی روک دی تھی اور اپنے خوفناک انجام سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیا تھا لیکن ہمارے پرویز مشرف صاحب یہ بات اب تک نہیں سمجھ سکے ہیں کہ 2007ء میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں ان کے ساتھیوں اور کمانڈروں کا رویہ کیوں کر بدل گیا تھا اور 2008ء میں عہد صدارت کی مدت باقی ہونے کے باوجود انہیں ایوان صدر سے کیوں نکلنا پڑا اور اب ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ کیوں چل رہا ہے۔
پرویز مشرف کو پاکستان کی تاریخ کا خوش قسمت فوجی آمر قرار دیا جاتا تھا کیونکہ اقتدار سے ہٹنے کے بعد انہیں بیرون ملک جانے کے لئے محفوظ راستہ فراہم کردیا گیا تھا۔ ایسا محفوظ راستہ کسی بھی فوجی آمر کو پہلے نہیں ملا تھا۔ پرویز مشرف پہلے امریکہ میں رہے اور پھر دبئی آکر سکونت اختیار کرلی۔ دبئی میں انہیں وہ سہولتیں میسر تھیں جو سکندر اعظم کو بابل میں بھی میسر نہیں تھیں۔ ان پر کوئی ذمہ داری بھی نہیں تھی۔ سکندر اعظم کو تو یہ پریشانی لاحق تھی کہ اپنی اتنی بڑی سلطنت کو کیسے سنبھالے گا اور جو مال و دولت اس نے جمع کیا ہے اس کی حفاظت کیسے کرے گا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کو اس طرح کی کسی پریشانی کا سامنا نہیں تھا۔ سکندر اعظم ذہنی دباؤ میں پینے لگا تھا۔ پرویز مشرف اگر چاہتے تو بے فکری میں پی سکتے تھے۔ دبئی میں ہر وہ چیز وافر مقدار میں دستیاب ہے جس کی خواہش ماضی کے بادشاہ کر سکتے تھے لیکن جو بات سکندر اعظم سمجھ گیا تھا، وہ بات پرویز مشرف نہیں سمجھ سکے یا انہوں نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید وہ اقتدار کے نشے سے باہر ہی نہیں آ سکے تھے۔ اس پر ان کے مشیروں اور قریبی دوستوں کو چاہئے تھا کہ انہیں صحیح صورت حال سے آگاہ کرتے۔ اسے پرویز مشرف صاحب کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ ان کے قریبی دوستوں نے انہیں صحیح مشورہ نہیں دیا اور کراچی کی دیواروں پر یہ نعرہ لکھوا دیا ’’پورے ملک کا ایک ہی نعرہ ....پرویز مشرف آؤ دوبارہ‘‘۔پرویز مشرف بھی واپس چلے آئے اور انہیں ایئرپورٹ لینے کوئی بھی نہیں آیا۔ انہیں ایک سیاسی لیڈر بنانے کے لئے ان کی میڈیا ٹیم اور لابنگ کرنے والے دوستوں نے کروڑوں روپے ان سے بٹور لئے۔ ان سے یہ پیسہ وصول کرنے کے لئے ہی ان کے دوستوں نے چک شہزاد کے فارم ہاؤس کو جیل میں تبدیل کرادیا۔ اب یہاں سے نکالنے کے لئے انہیں مختلف نام نہاد سیاسی، مذہبی اور جنگجو عناصر کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کیونکہ وہ اپنے اقتدار میں جان چکے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی، مذہبی اور انتہا پسند گروہوں سمیت ادارے بھی اپنی خدمات فروخت کرتے ہیں اور پاکستان میں سارا کھیل ہی یہی ہے مگر انہیں اس بات کا بھی احساس کرنا چاہئے کہ خدمات پیش کرنے اور خدمات حاصل کرنے میں بڑا فرق ہے۔ جو شخص خدمات حاصل کرتا ہے اور اس کا معاوضہ دیتا ہے وہ ڈبل گیم نہیں کرنے دیتا اور پرویز مشرف یہ بھی جانتے ہیں کہ خدمات دینے والے ڈبل گیم کرنے سے باز نہیں آتے۔ پاکستان کو دوبارہ فتح کرنے کا خواب انہیں اس وقت ہی اپنی آنکھوں سے نکال دینا چاہئے تھا جب انہیں اقتدار میں لانے والی قوتیں ان سے آنکھیں پھیر چکی تھیں۔ انہوں نے سکندر اعظم سے بھی بڑا جرنیل بننے کی کوشش کی اور اس بات کی پروا نہیں کی کہ ساتھ دینے والوں کا موڈ کیا ہے۔ بعض مؤرخین کا خیال یہ ہے کہ سکندر اعظم بہت پرجوش اور بہادر تھا لیکن ذہین نہیں تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سکندر اعظم زیادہ ذہین تھا یا پرویز مشرف زیادہ ذہین ہیں۔