• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوکرین جنگ کے بارے میں عالمی مقبول نظریہ انتہائی ناقص ہے۔ اس جنگ کی تمام تر ذمہ داری پیوٹن کے سر تھوپ دی گئی ہے۔ مغربی میڈیا روس کے خلاف بیانیے کو بڑھاوا دے رہا ہے، اسے ایک توسیع پسند، سامراجی اور جابر کے طور پر پیش کر رہا ہے، جو بے گناہ یوکرینیوں کو مار رہا ہے لیکن حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے۔ امریکہ نے تنازعات کو ہوا دی تاکہ جنگ سے فائدہ اٹھانے کے مواقع پیدا کر سکے۔ اس وقت امریکی وہ اثر و رسوخ چاہتے ہیں جو انہوں نے افغانستان اور عراق میں کھو دیا ہے۔ پیوٹن کو یوکرین کی جنگ میں ولن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، یہ دراصل امریکی مقاصد پورا کرنے کی حکمتِ عملی ہے۔

اس جنگ کے عوامل کودیکھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لئے پہلے یہ ضروری ہے کہ یوکرین جنگ کا روسی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے۔ ایسا کوئی ممکنہ مالی یا سیاسی فائدہ نہیں تھا جو روسی اس جنگ سے چاہتے تھے۔ پیوٹن نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس کے اس جنگ سے کچھ مقاصدوابستہ ہیں۔ سوویت یونین کے زوال سے پہلے، یوکرینی اور روسی کئی دہائیوں تک بغیر کسی تنازعے کے ایک ساتھ رہتے رہے ہیں۔ پیوٹن کے پاس یوکرین پر حملہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ یوکرین پر حملہ کرنے سے روسی امیج کو نقصان پہنچا، ان کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹ آئی اور روسی حکومت کو توجہ اقتصادی ترقی سے ہٹا کر جنگ پر مرکوز کرنا پڑی۔ روس کے پاس یوکرین پر قبضہ کرنے کا کوئی منصوبہ، کوئی مقصد یا محرک نہیں تھا اور اگر ایسا ہے بھی تو یہ روس کے لئے یہ انتہائی نقصان دہ ہو گا۔ پیوٹن نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ ایک سامراجی قوت کی طرح سرحدیں پھلانگنے جا رہا ہے، یہ جنگ روسیوں پر زبردستی مسلط کی گئی۔ یہ نیٹو کا ایجنڈا تھا، بالآخر نیٹو کے مقاصد امریکیوں نے اپنے وسیع اور طویل المدتی مفادات میں طے کئے۔ امریکہ کے پاس ایسی جنگ سے فائدہ اٹھانے کی تمام وجوہات موجود ہیں۔

سوویت یونین کو سرد جنگ میں شکست ہوئی لیکن روس اب بھی ایک ایسا ملک ہے جو طاقت کا حامل ہے۔ روس چین کے ساتھ اپنا اقتصادی تعاون بڑھانے میں پیش رفت کر رہا ہے۔ چین ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے ،روس ایک ایسا اتحاد بنا رہا ہے جو ایشیا اور یورپ میں ہر قسم کے مغربی اثر و رسوخ کو چیلنج کرے گا۔ژی جن پنگ اور پیوٹن نے ذاتی تعلقات استوار کر لئے ہیں۔ روس اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو متنوع بنا رہا ہے۔ روس مشرق وسطیٰ میں پہلے سے ہی طاقتور ملک ہے۔ شام میں اس کی موجودگی مغربی طاقتوں کے لئے مستقل دردِ سرہے۔ اسی امر نے امریکہ کو ایسی جنگ بھڑکانے پر اکسایا جہاں روسی پیشرفت کو جانچا جا سکے اور اسے ایک نہ ختم ہونے والے تنازعے میں الجھایا جائے جس سے اس کی توانائی اور وسائل ختم ہو جائیں۔

امریکہ نیٹو اتحاد میں جارجیا اور یوکرین کو شامل کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔یہی وہ نقطہ تھا جہاں روسیوں کے پاس حملہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہاجس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یوکرین میں نیٹو کی موجودگی کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ روسی سرزمین پر براہِ راست کبھی بھی حملہ آور ہو سکے گا۔ نیٹو کی چھتری تلے یوکرین کے اندر امریکی ہتھیاروں کا استعمال یوکرین کی فوج کو روس سے لڑانے کے لئے امریکی جنگی مشن تھا۔ نیٹو کی موجودگی روس کے لئے ایک خطرہ ہے۔پیوٹن کے پاس روسی سرزمین کو محفوظ بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

یوکرین کے عوام اس جنگ کا شکار ہیں جس میں انہیں روسی فوج کو مارنے کے لئے مغربی مدد تو مل رہی ہے لیکن اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ ان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ان کی برآمدات اور اناج کی کٹائی میں تعطل نے پوری دنیا میں سپلائی چینز کو متاثر کیا ہے۔ ایک پرامن قوم جو یورپی ممالک کے تعاون سے پروان چڑھ رہی تھی، جنگ میں مبتلا ہے،جسے دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کےلئے شاید کئی دہائیاں لگ جائیں۔خاص طور پر امریکیوں کے ہاتھوں افغانستان کی تباہی کے بعد یورپی ممالک چین کے قریب ہو رہے تھے اور امریکی تسلط میں عدم دلچسپی ظاہر کر رہے تھے ۔ یورپ پہلے کی طرح، امریکی جنگی مشن کے تحفظ کا خواہاں اور مکمل طور پر ان کے زیر اثرہے۔ یورپ نے اپنا دفاعی بجٹ بڑھا لیا ہے ، روس کی طرف سے یورپی سرزمین پر متوقع حملے کی صورت میں تیاری کے لئے خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ امریکی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی ایک بار پھر مانگ ہے، جنگ کےلئے مزید امریکی ہتھیاروں کی ضرورت نے امریکہ کی چاندی کر دی ہے۔

امریکہ کو جس چیز کا ادراک نہیں، وہ یہ ہے کہ روس جدید ترین اور ایٹمی ہتھیاروں کے وسیع ذخیرے کے ساتھ اب بھی ایک سابقہ سپر پاور ہے۔ پیوٹن نیٹو میں یوکرین کی شمولیت کو اپنے وجود کے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے اور وہ اس سے ایک خطرے کے طور پر ہی نمٹے گا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب ایٹمی ہتھیاروں کی حامل ایک سپر پاور کو کونے میں دھکیل دیا جائے تو وہ اپنے ہتھیار استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بم استعمال کئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر روس یوکرین میں جنگ ہارنے والا ہے، تو وہ یوکرین کو غیر مسلح کرنے کے لئے اپنی جوہری صلاحیتوں کو استعمال کرے گا، یوکرین کے دفاع میں روس کے ساتھ جوہری جنگ کا مطلب یوکرین کی تباہی اور لاکھوں ہلاکتیں ہوں گی۔ یہی امریکی جنگی مشن ہے لیکن اس جنگ کا نتیجہ تصور سے کہیں زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے ۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین