بسنت پاکستان کا مقبول تہوار تھا جسے بہت جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے بھر جاتا تھا۔ دنیا بھر کے سیاح پاکستان کا رخ کرتے تھے۔ بعد میں دھاتی ڈور کے استعمال اور ہوائی فائرنگ ایسی خرافات نے ہماری ثقافت اور اخلاقیات کو بگاڑ کر اس خوبصورت تہوار کو خونی بنا دیا جس پر حکومت کو پابندی لگانا پڑی۔ پتنگ بازی کا یہ خونی کھیل پنجاب کے ہر شہر میں دھڑلے سے جاری ہے۔ گزشتہ روز تمام تر پابندیوں کے باوجود راولپنڈی میں بسنت دھوم دھام سے منائی گئی۔ کھل کر قانونی احکامات کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ ہوائی فائرنگ اور قاتل ڈور کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔گولیوں کے خول سڑکوں اور گلیوں میں گرتے رہے۔ شہری کٹی پتنگوں کی ڈور سے الجھتے رہے اور لوگ دن بھر پتنگ اڑاتے کھلے عام پولیس کو چیلنج کرتے رہے۔ ایک کمسن بچی سمیت 3 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ 80 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق زخمیوں میں زیادہ تر تعداد بچوں کی ہے جو قاتل ڈورپھرنے، چھت سے گرنے، کرنٹ لگنے اور پتنگ لوٹتے ہوئے گاڑیوں سے ٹکراکر زخمی ہوئے جن میں 10 کی حالت تشویشناک ہے۔نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے پابندی کے باوجود پتنگ بازی اور فائرنگ کے واقعات پر شدید برہمی ، انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار ، زخمیوں کے بہترین علاج معالجے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ آئی جی پنجاب نے بسنت روکنے میں ناکامی پر تین پولیس افسروں کو معطل کردیا ہے۔ پولیس کے مطابق 310 پتنگ بازوں کو گرفتار کرکے ان سے اسلحہ ، ڈوریں اور پتنگیں برآمد کی ہیں اور جن مکانات کی چھتوں سے پتنگیں اڑائی گئی ہیں ان کے مالکان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ بلا شبہ بسنت ایک تفریحی تہوار ہے لیکن کسی بھی شخص کو انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ دنیا بھر میں پتنگیں ساحل سمندر یا کھلے میدانوں میں اڑائی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں اس طرح کا کوئی رواج نہیں۔