• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زوال زدہ معاشرے میں کوئی اچھی خبر تو ان دنوں کہیں سے سنائی نہیں دے رہی مگر ایک امید کے ساتھ ایڈن ہائی اسکول کی تقریب سے واپس آرہا ہوں ۔ یہ سن کر کہ تعلیمی ادارہ ’’نو پروفٹ نو لاس‘‘کی بنیاد پر چل رہا۔ دل کو اچھا لگا ۔وہاں اقبال حسین اقبال ،آغا عرفان حیدر جوہری ، آغاز ذوہیب جوہری ، پروفیسر کلیان سنگھ کلیان اور فرحت عباس شاہ کی گفتگو نے مایوسی کے اس دورمیں امید کی کرنیں جگائیں ۔ واپس آکر ٹیلی وژن کھولا تو پھر وہی تکلیف دہ خبریں سنائی دینے لگیں۔سپریم کورٹ سے جیلوں تک پھیلی ہوئی تحریک قدم قدم پر دکھائی دی ۔جیل بھرو تحریک کا آغاز اس لئے کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو بےوجہ گرفتار کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ۔ اس کے خلاف قوم سراپا احتجاج ہے اور جیلوں میں جا کر بتانا چاہتی ہے کہ ہم جیلوں سے ڈر کر پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ آئیے ایک نظر دیکھتے ہیں کہ گرفتار شدگان کا قصور کیا تھا اور ان مقدمات کا کیا ہوا ؟فواد چوہدری کو ہی لیتے ہیں، ان کے خلاف درج مقدمات کی جو تفصیلات لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی ہیں ، ان کے مطابق فواد چوہدری کے خلاف 5 مقدمات درج ہوئے۔پنجاب میں تین جب کہ اسلام آباد میں دو۔ فواد چوہدری کے خلاف دو مقدمات خارج ہو چکے اور دو مقدمات زیر التوا ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ جہلم میں 13 اکتوبر 2022ء کو درج ہونے والا مقدمہ خارج ہو چکا ہے، جب کہ فواد چوہدری کے خلاف 25 ستمبر 2022ء کو فیصل آباد میں درج مقدمہ بھی خارج ہوچکا ہے۔ فواد چوہدری کے خلاف 30 اپریل 2022ء کو درج ہونے والے مقدمے میں بھی انہیں بے گناہ قرار دیا گیا ہے۔ 22 اگست 2022ء کو مقدمہ تھانہ آبپارہ میں درج ہوا۔ 25 جنوری 2023ء کو تھانہ کوہسار میں فواد چوہدری کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فواد چوہدری کوجن مقدمات میں گرفتار کیا گیا اور وہ بے گناہ ثابت ہوئے تو کیا جھوٹے مقدمات درج کرنے والوں کے خلاف عدالت کوئی کارروائی نہیں کرے گی ۔ جب تک عدالتیں یہ کام شروع نہیں کرتیں ۔ اسی طرح کے جھوٹے مقدمات درج ہوتے رہیں گے ۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو باقاعدہ کوئی آرڈر جاری کرنے چاہئیں کہ غلط مقدمہ درج کرنے والے کو بھی سزا سنائی جائے گی۔

فواد چوہدری کا جرم یہ تھا کہ انہوں نےچیف الیکشن کمشنر کیلئے منشی کا لفظ استعمال کر لیا تھا۔ان کے کہنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ متنازعہ ہو چکے ہیں ۔وہ اب پی ٹی آئی کے لئے قابل قبول نہیں رہے۔ اس جرم میں فواد چوہدری کو گرفتار کرلیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔اس وقت سپریم کورٹ کے ججز کے متعلق محترمہ مریم نواز جو کچھ فرما رہی ہیں ، وہ بھی ساری قوم سن رہی ہے۔ادھر کوئی قانون حرکت میں نہیں آرہا ۔غلام محمود ڈوگر کی بحالی کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا۔ ہفتہ ہونے کو ہے ۔ابھی تک پنجاب کی نگران حکومت نے اس پر عمل در آمد نہیں کیا۔یعنی یہ نگران حکومت نہیں بلکہ ایک پارٹی کی حکومت ہے۔جتنے سرکاری افسران کے تبادلے انہوں نے کئے ان سب کے سامنےسوالیہ نشان چمک رہا ہے۔معاشی صورتحال کی گمبھیرتا کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین نے ستر کروڑ ڈالر پاکستان کودئیے ہیں مگر اس کے باوجود اس ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی حکومت کیلئے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق ’’وفاقی وزیر خزانہ نے چین کی جانب سے 70 کروڑ ڈالر قرض وصول ہونے کا اعلان کیا تو غالباً ان کی خوشی کی وجہ پاکستان کے کم ہوتے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ تھا لیکن چین اور چینی بینکوں سے حاصل کئے گئے قرضے اب پاکستان کے ذمے واجب الادا مجموعی قرضوں کا ایک تہائی ہو چکے ہیں۔پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضوں میں گزشتہ سات سے آٹھ برسوں میں چین اور چینی کمرشل بینکوں سے حاصل کئے گئے قرضوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ایسے میں پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی کو قرار دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ملکی ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کو موجودہ مالی سال اور اگلے دو مالی برسوں میں بیرونی قرضوں کی مد میں بڑی ادائیگیاںکرنی ہیں‘‘۔ایسی صورتحال میں بھی الیکشن کو روکنے کی غیر آئینی کوششیں جاری ہیں۔

آئین کو معطل کرنے کا مطلب صرف اور صرف مارشل لا ہےاور پاکستان کسی صورت میں بھی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔نوے دن میں انتخابات ہر صورت میں ہونے ہیں ۔مفر ممکن نہیں کہ سامنے آئین کی دیوار کھڑی ہے ۔سپریم کورٹ اس سلسلے میں از خود نوٹس لے چکی ہے اور پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک مرتبہ سپریم کورٹ پر فزیکل حملہ بھی ہو چکا ہے۔ ایک سیاسی جماعت نے باقاعدہ سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا تھا۔چیف جسٹس سمیت باقی تمام ججوں کو بھاگ کر ریٹائرنگ رومز میں پناہ لینا پڑی تھی ۔پھر کسی ایسی صورتحال کیلئے سپریم کورٹ کو تیار رہنا چاہئے؟ سوال پیداہوتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ یہ از خود نوٹس نہ لیتی اور موجودہ حکومت نوے دن میں انتخابات نہ کراتی تو آئین شکنی پر آرٹیکل 6 کا اطلاق کس پر ہوتا ۔ یقیناً بیچارے وزیر اعظم شہباز شریف پراور ان کے ساتھ دو گورنرز پر بھی ۔ انہیں کون قربان کرنا چاہتا ہے؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔بہر حال میں مایوس نہیں ہوں ۔روشنی اور خوشبو کہیں دور سے آتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔اسے پر بھی لگ سکتے ہیں ۔بہرحال بات فواد چوہدری سے شروع کی تھی ۔ میں نے کل ایک بہت ہی اہم شخصیت سے سوال کیا کہ دس پندرہ سال بعد پاکستان میں لیڈر کون ہوگا تو اس نے کسی توقف کے بغیر کہا ،’’فواد چوہدری‘‘۔

تازہ ترین