• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل مرینو گروسی کی سربراہی میں 5 رکنی وفد نے گزشتہ دنوں پاکستان میں نیشنل ریڈی ایشن ایمرجنسی کوآرڈی نیشن سینٹر (NRECC)کا دورہ کیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق ڈی جی IAEA کا دورہ پاکستان اور IAEA میں جوہری ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال میں جاری تعاون کیلئے اہم ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ دورے کا مقصد پاکستان کے جوہری پروگرام پر پابندی لگانا نہیں۔ سوشل میڈیا پر دفتر خارجہ کے اس وضاحتی بیان پر تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ شدید معاشی بحران کے شکار ملک پاکستان سے نیوکلیئر پروگرام میں کمی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے اور ڈی جی IAEA کی اعلیٰ سطحی ٹیم کا پاکستان کی مختلف نیوکلیئر صلاحیتوں کا دورہ اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ڈی جی IAEA رافیل مرینو گروسی نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے بھی ملاقاتیں کیں جس میں صحت، زراعت، صنعت، نیوکلیئر میڈیسن کے شعبوں میں تعاون اور نیوکلیئر پاور کے ماحولیاتی تبدیلیوں پر اثرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دورے کے دوران IAEA کی ٹیم نے پاکستان نیوکلیئر سیکورٹی کے سینٹر آف ایکسی لینس کا دورہ بھی کیا جہاں نیوکلیئر پاور آپریٹرز عالمی معیار کے مطابق نیوکلیئر پاور پلانٹ کو محفوظ طریقے سے چلانے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اِسی دوران جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی تنظیم ICAN نے 2022ء میں 9جوہری طاقتوں کے اخراجات پر ایک رپورٹ جاری کی جبکہ IMF کی مذاکراتی ٹیم نے بھی پاکستان کے دفاعی اخراجات پر سوالات اٹھائے جس میں پاکستان 1.1 ارب ڈالر کے جوہری ہتھیاروں کے اخراجات کے لحاظ سے دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ پاکستان جس کے پاس اس وقت زمین سے فضا میں مار کرنے والے 165ایٹمی ہتھیار ہیں جس پر وہ اپنے دفاعی بجٹ کا 10فیصد خرچ کرتا ہے۔اسی رپورٹ کے مطابق ایٹمی صلاحیتوں کے اخراجات میں امریکہ 44ارب ڈالر کے ساتھ پہلے، چین 12ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے، روس 8.6ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے، برطانیہ 6.8ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے، فرانس 5.9ارب ڈالر کے ساتھ پانچویں،بھارت 2.4 ارب ڈالر کے ساتھ چھٹے، اسرائیل 1.2 ارب ڈالر کے ساتھ ساتویں، پاکستان 1.1ارب ڈالر کے ساتھ آٹھویں اور شمالی کوریا 0.64 ارب ڈالر کے ساتھ نویں نمبر پر ہے ۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ کے پاس 5428جبکہ روس کے پاس 5997 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کی موجودہ تعداد 165سے بڑھاکر چین کے برابر 250 تک لے جانے کا منصوبہ ہے جبکہ بھارت کا 160 سے بڑھاکر 200 ایٹمی ہتھیار تک لے جانے کا پروگرام ہے۔

پاکستان کا جوہری پروگرام وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 20جنوری 1972کو شروع ہوا جس میں معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ 28 مئی 1998کو پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد6کامیاب ایٹمی دھماکے کئے اور دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنا۔

امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کا پاکستان پر نیوکلیئر صلاحیت محدود کرنے کیلئے نان پرولی فیشن (NPT) اور نئے ایٹمی دھماکوں پر پابندی کے CTBT معاہدوں پر دستخط کرنے کیلئے دبائو ہے لیکن پاکستان نے ان معاہدوں پر بھارت کے دستخط نہ ہونے تک سائن کرنے سے انکار کردیا ہے۔ پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایٹمی ہتھیاروں کے پہلے استعمال نہ کرنے کی گارنٹی دینے سے بھی انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے امریکہ، یورپ اور بھارت کی آنکھوں میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام کھٹک رہا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ ایران کی طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھی غیر محفوظ ثابت کرکےاور پابندیاں عائد کرکےاسے محدود کیا جائے۔ پشاور مسجد اور کراچی پولیس آفس پر خود کش حملوں، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کا ان کی ذمہ داری قبول کرنے اور گزشتہ 2سال میں TTP کے مطالبات ماننے سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ چند سال میں پاکستان کے اہم دفاعی مقامات کامرہ ایئر بیس اسلام آباد، مہران نیول بیس کراچی پر کالعدم تحریک طالبان کے حملے اور اسامہ بن لادن کی پاکستان سے گرفتاری بھی سابق امریکی صدر بارک اوباما کے بیانئے کو تقویت دیتے ہیں کہ جہادیوں کے دوبارہ سر اٹھانے سے پاکستان کے نیوکلیئر اثاثے غلط ہاتھوں میں جاسکتے ہیں اور عالمی سیکورٹی کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔

پاکستان پر یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی شمالی کوریا اور ایران کو فروخت کی حالانکہ حکومتی سطح پر اس کا انکار کیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے 1993ء میں چین کی مالی اور تکنیکی امداد سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کی اور چشمہ I، II، III اور IV سے 1200 میگاواٹ، کینپ K-2 اور K-3 منصوبوں سے 2500 میگاواٹ سول نیوکلیئر انرجی عالمی حفاظتی معیار کے مطابق پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیا جس پر امریکہ اور مغرب خوش نہیں۔ ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان معاشی طور پر کمزور اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے بوجھ تلے دب کر IMF کے چنگل میں ہے۔ ان حالات میں امریکہ، بھارت اور یورپ کی یہ کوشش ہوگی کہ پاکستان پر معاشی دبائو بڑھاکراسے ملکی سالمیت اور بقا کے سول اور ملٹری نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا جائے جو پاک فوج اور عوام کو کسی صورت قبول نہیں ہوگا۔

تازہ ترین