کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مسئلہ یا المیہ کیا رہا ہے جس نے انسان کو صدیوں تک پسماندہ رکھا اور اس کی ترقی کرنے کی رفتار نہایت سست رہی۔مذہبی نظریات کے مطابق انسان ہزاروں سال سے اور سائنسی نظریات کے مطابق لاکھوں سال سے اس کرہ ارضی پر آباد ہے لیکن اس کی ترقی کا آغاز محض چند صدیاں پہلے ہوا۔ جب اس نے نت نئی ایجادات اور علمی کمالات سے دنیا کی شکل ہی بدل ڈالی۔ جب ہم نہایت باریک بینی سے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر ایک حیرت انگیز راز کا انکشاف ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑالمیہ اقتدار کا حصول اور اسکو برقرار رکھنے کی تگ و دو میں ہونے والی خونریزی ، سازشیں اور قتل و غارت گری رہی ہے۔ کیونکہ اس کے لئے جنگل کا قانون استعمال ہوتا رہا ہے۔ جس کا بنیادی محور طاقت کا بہیمانہ استعمال تھا۔ اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہر وقت محلّاتی سازشوں کا جال پھیلا رہتا تھا اسی طرح اقتدار برقرار رکھنے کے لئے بھی اسی طرح کے حربے استعمال کئے جاتے تھے۔ جس کی وجہ سے ہر صاحب ِ اقتدار علم و دانش کو فروغ دینے کی بجائے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں لگا رہتا تھا۔ اقتدار کی اسی جنگ و جدل میں علما، فضلا اور سائنسدانوں کو نہ تو حکومت ِ وقت کی سرپرستی میّسر تھی اور نہ ہی وہ پرسکون حالات جن میں تحقیق و جستجو کے کام یکسوئی سے کر سکتے ۔ یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ ایک حکومت کے تبدیل ہو جانے کے بعد ایسے قابل ، اہلِ علم افراد اور جرنیلوں کو قتل کردیا جاتا تھا تاکہ وہ نئی حکومت کے لئے کسی خطرے کا باعث نہ بن سکیں۔
ولید بن عبدالمالک کے بعد جب اس کا بھائی سلیمان بن عبدالمالک تخت نشین ہوا تواس نے ولید کے دیگر اہل ِ علم درباریوں کے ساتھ ساتھ اس کے انتہائی قابل جرنیلوں کو جنہوں نے افریقہ یورپ اور ہندوستان میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑدئیے تھے چُن چُن کر ختم کردیا تھا۔ یہ شخصی حکومتیں کسی قانون اور قاعدے کی پابند نہیں تھیں اور نہ ہی اُن کے دشمن کسی ضابطے کے قائل تھے۔ چنانچہ وہ اکثر غیر بلکہ دشمن ممالک کو اپنی حمایت کے لئے دخل اندازی کی دعوت دیا کرتے تھے اسی طرح حکومتِ وقت اپنا غاصبانہ اقتدار برقرار رکھنے کے لئے اور عوام کے دل و دماغ پر اثر انداز ہونے کے لئے مذہب کی من پسند تاویلیں کرنے والے نام نہاد مذہبی علماء کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ جو عوام کو باور کرایا کرتے تھے کہ بادشاہ کی بلا مشروط اطاعت ہی اطاعتِ خداوندی ہے ۔ جب کوئی نیا غاصب آجاتا تھا تو وہ اسے خدا کی طرف سے بھیجا ہوا نجات دہندہ قرار دینے لگتے تھے۔ ایسے منافقت اور سازشوں سے بھرے ماحول میں ترقی اور علم و تحقیق کے دروازے کیسے کھُل سکتے تھے اور اگر کوئی ایسی جرات کرتا تو اسے کافر یا مرتد قرار دینے کا پورا سامان موجود ہوتا تھا کیونکہ برسرِ اقتدار طبقہ اسے اپنے لئے خطرہ سمجھنے لگتا تھا، گلیلو، ابنِ رُشد ، ابنِ خلدون اور بہت سے دانشوروں اور سائنسدانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
آج سے کچھ صدیاں پہلے تک ساری دنیا اقتدار کی اس جنگ کا ایندھن بنی ہوئی تھی کبھی یہ جنگ انتقام اور نفرت کے نام پر لڑی جاتی تھی اور کہیں مذہب اور روایات کے نام پر۔ انسانوں کو صدیوں کی اس لاقانونیت ، انتشار اور افراتفری سے بچانے کےلئے کچھ صدیاں پہلے امریکہ اور یورپ میں ’’جمہوریت‘‘ نام کا نظامِ حکومت اپنایا گیا ۔ جس میں پُرامن طریقے سے اقتدار کے حصول اور منتقلی کو یقینی بنایا گیااور اقتدار کے حصول کے لئے عوام کی اکثریت کی حمایت کو لازمی قرار دیا گیا۔ کیا یہ کام وہاں اچانک رونما ہوکر بلوغت تک جا پہنچا؟ کیونکہ ہمارے آمریت پسند دانشور، تجزیہ نگار، بعض مذہبی رہنما اور فوجی حکمراں ہمیشہ ان ممالک کی مثالیں دیتے ہیں جہاں جمہوریت صدیوں سے رائج ہے۔ انہوں نے بھی اپنے اپنے وقتوں میں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیاء ، جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں سے مقابلہ کیا ہے جو جنرل پرویز کی طرح کھل کر کہتے تھے کہ جمہوریت ہمارے ملک کے لئے مناسب نہیں۔ لیکن وہاں اور ہمارے ہاں میں فرق یہ ہے کہ وہاں بحث مباحثہ ہوتا رہا لیکن کسی نے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کیا چنانچہ جیسے جیسے اُن ممالک میں جمہوریت مستحکم ہوتی گئی ۔ وہاں معاشرے میں وہ امن اور سکون پیدا ہوتا گیا جو انسانی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آمرانہ ادوار کے وہ ادارے بھی ختم ہوگئے جن کا کام ہی انسانی شعور اور ترقی کو آگے بڑھنے سے روکنا ہوتا ہے۔برطانیہ کے صنعتی انقلاب نے جہاں جاگیرداری کا خاتمہ کیا وہیں انقلاب ِ فرانس نے آمروں کے سب سے مضبوط ادارے چرچ کو امورِ سلطنت سے علیحدہ کردیا۔ جو ہر نئے خیال اور سوچ کے مخالف تھے۔ پھر ان جمہوری ممالک نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آج وہ ترقی کی جس معراج پر کھڑے ہیں ہم اس کا تصّور بھی نہیں کر سکتے ۔ وہاں صرف جمہوریت ہی نہیں جمہوری کلچر بھی ہے جس کے بغیر جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی اور جمہوری کلچر آمریت کی نرسری میں پرورش پانے والے پیدا نہیں کر سکتے ۔ ہمیں اپنے سیاستدانوں کی نا اہلی اور کرپشن پر بجا طور پر اعتراض ہے لیکن کیا اس کا حل آمریت ہے ہرگز نہیں ۔ ہم سے زیادہ آمریت کا زخم خوردہ کون ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ جمہوریت کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار ہمیشہ کے لئے ہٹا دی جائے اور حقیقی جمہوری عمل کو رواں دواں کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا تو آمریت کی نرسری میں پلنے والے جمہوری پودے ، جمہوریت کے لئے نہیں اپنی آمریت کے لئے جمہوریت کو بدنام کرتے رہیں گے اور ہمارا معاشرہ بدستور تذبذب اور جان کنی کی کیفیت میں مبتلا رہے گا کیونکہ جمہوری کلچر حقیقی جمہوریت سے ہی فروغ پا سکتا ہے جس کے بغیر جمہوریت کے ثمرات نہیں مل سکتے۔