ملک میں ساتویں مردم و خانہ شماری آج سے شروع ہورہی ہے جس کے لیے متعلقہ عملہ گھر گھر جائے گا۔ یہ ہماری پہلی ڈیجیٹل مردم شماری ہوگی لہذا اس میں کاغذ اور قلم کے بجائے ٹیبلیٹس اور آن لائن ایپلیکشنز استعمال ہوں گی۔ اس قومی مشق پر مجموعی طور پر چونتیس ارب روپے خرچ ہوں گے اور یہ باضابطہ طور پر آج سے شروع ہو کر یکم اپریل کو مکمل ہو جائے گی۔
اس کے بعد ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس)،جسے قومی مردم شماری کرانے کا کام سونپا گیاہے، کی جانب سے حتمی نتائج جاری کرنے میں تیس دن لگیں گے۔ یاد رہے کہ اکتوبر2021 میں سابق حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری کو آگے بڑھایا تھا اور اکتوبر 2022 میں اس کے آغاز کا شیڈول طے کیا تھا۔ تاہم بعدازاں اسے فروری 2023 تک مؤخر کردیا گیا تھا۔ اب ادارہ شماریات پاکستان کو 30 اپریل تک اعداد و شمار جمع کرانے ہیں۔
اس موقعے پر بعض ذہنوں میں یہ سوالات پیدا ہوئے ہوں گے کہ یہ عمل کیوں ضروری ہوتا ہے، کیا دیگر ممالک میں بھی ایسا ہوتا ہے، اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے اور نہ کرنے سے کس قسم کا نقصان ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ذیل میں ہم نے ان ہی سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں ہر چند برس بعد (عموماً دس برس بعد) مردم شماری کرائی جاتی ہے۔ اس کا مقصد ملک کی آبادی معلوم کرنا اور ملک میں رہنے والوں کے بارے میں مختلف اقسام کی معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ معلومات بالخصوص اقتصادی اور بالعموم دیگر اقسام کی منصوبہ بندی میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ مردم شماری کے ذریعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی ضروریات کیا ہیں، آبادی میں کتنا اضافہ ہوایا کمی آئی ہے،کتنے باشندوں کا تعلق کس زبان، نسل، مذہب اور طبقے سے ہے، ان کی تعلیم کیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
دیگر ممالک کی طرح پہلے پاکستان میں بھی پہلے یہ عمل ہر دس برس بعد ہوتا تھا۔ ملک میں پہلی مردم شماری آزادی کے چار سال بعد 1951ء میں ہوئی تھی۔ پھر 1961،1972،1981 ، 1998 اور2017 میں ہوئی۔ 1972میں ہونے والی مردم شماری دراصل 1971میں ہونی تھی، مگر بھارت سے جنگ کی وجہ سے ایک سال تاخیر سے ہوئی۔ پھر1991کی مردم شماری سیاسی گہما گہمی کے باعث موخر ہوکر 1998ء میں ہوئی ۔ یاد رہے کہ 1973کے آئین کے مطابق ہر دس برس بعد ملک میں مردم شماری ہونا لازم ہے۔2017 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی تقریباً پونے 21 کروڑ ہے۔جو اب مزید بڑھ چکی ہے۔
ڈیموگرافی ایک سائنسی علم
ڈیموگرافی وہ سائنسی علم ہے جس کے ذریعے ہر ملک اپنے عوام میں وسائل اور سہولتوں کی منصفانہ تقسیم اور قومی منصوبہ بندی کرتا ہے۔یہ دراصل سماجی سائنس کا علم ہے جو آج ہر ملک کی ضرورت ہے۔ ڈیموگرافی ہر ملک کی ترقّی اور منصوبہ سازی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کے ذریعے ہر ملک انسانی آبادی کی تعداد، جنس،عمر، ساخت ، سماجی تقسیم، تعلیم، بیماریوں، پیدائش و اموات کی شرح کا تعیّن کرتا، ملکی وسائل کا تخمینہ لگاتا، آبادی کی ضروریات معلوم کرتا، معاشرتی ساخت کا اندازہ لگاتا اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
ملک میں ہونے والی آخری مردم شماری کےمطابق اُس وقت پاکستان کی آبادی تقریبا چودہ کروڑ افراد پر مشتمل تھی جو شماریاتی پروجیکشن فارمولے کے تحت اب 22 کروڑ سےبھی تجاوز کر چکی ہے۔ اس عرصے میں ملک کی ڈیموگرافی یقینا بدل چکی ہے۔ اگرچہ ملک میں پلاننگ ڈویژن موجود ہے، محکمہ شماریات بھی ہے، ہر سال بجٹ اوراقتصادی منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں، مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے، مگر سائنسی بنیادوں پر حقیقی اعداد و شمار کے ذریعے نہیں، بلکہ شماریاتی اور ریاضیاتی فارمولوں کی بنیاد پر کمپیوٹر پر گرافک پروجیکشن کے ذریعے کام چلا یا جاتا ہے۔
ملک کے قیام کو طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود کسی حکومت نے خوشی سے مردم شماری کرائی اور نہ ہی منصوبہ سازوں نے اس کی اہمیت پر زور دیا۔ہمارے سیاست دانوں کو سماجی سائنس کاادراک ہے اور نہ اس کی اہمیت کا احسا س۔ لہذا انہوں نےکبھی مردم شماری کی اہمیت محسوس نہیں کی اور پورے ملک میں کسی نے بھی اس کا مطالبہ شدّو مد سے نہیں کیا۔ لیکن2017 سے قبل اقوامِ متّحدہ کی ایک کمیٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان میں جلد از جلد مردم شماری کرائی جائے۔
اقوامِ متّحدہ کی نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلّق کمیٹی کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے تازہ ترین اعداد و شمار کی عدم موجودگی کے سبب ملک کی آبادی کے بارے میں نسل کی بنیاد پر تازہ ترین تفصیلات دست یاب نہیں ہیں۔ کمیٹی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی آبادی کی نسلی ترکیب اور ان کی معاشی و معاشرتی صورت حال کا مکمّل ڈیٹا مہیا کرے تاکہ کمیٹی ان نسلی گروہوں کی صورت حال اور انہیں ریاست کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولتوں کے بارے میں درست طور پر آگاہ ہوسکے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نےبھی ان ہی دنوں2017 کےعام انتخابات سے متعلق ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیے تھے کہ مردم شماری کے بغیر2017کے عام انتخابات کی کوئی افادیت نہیں ہوگی۔ پلاننگ کمیشن اور الیکشن کمیشن ماضی میں متعدّد بار مردم شماری کی اہمیت بیان کرچکے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ماضی کی کسی حکومت نے مردم شماری جیسے اہم مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے۔
ڈیجیٹل دور کی سہولت
اس بار مردم شماری کے لیے آپ اپنے ڈیٹا کا اندراج خود آن لائن کر سکتے ہیں۔ساتویں مردم و خانہ شماری سے متعلق خود شماری پورٹل کا افتتاح بیس فروری کو وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونی کیشن، امین الحق نےکیا تھا۔ جو افراد قومی شناختی کارڈ نہیں رکھتے اس مرتبہ انہیں بھی گِنا جائے گا۔
شمار کنندگان ہر پاکستانی شہری سے اس کے رہن سہن، عمر اور جنس کے علاوہ دیگر معلومات لیں گے، مثلاً ان کے گھر میں کمروں کی تعداد، بنیادی سہولتیں، رہایش پذیر لوگوں کی تعداد وغیرہ۔ اس کے علاوہ تعلیم، ملازمت، کاروبار، مذہب اور اگر کوئی معذوری ہے تو اس کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جائیں گی۔ حکام کے مطابق پی بی ایس پہلی بار ایسا ڈیٹا جمع کرنے جا رہا ہے، جس میں ملک میں موجود معذوری کی اقسام کے بارے میں تفصیلی معلومات ہوں گی۔
خود شماری ایپ
وہ پاکستانی شہری جو چاہتے ہیں کہ فیلڈ شمار کنندگان ان کے گھر نہ آئیں وہ اپنی تفصیلات درج کرانے کے لیے اپنے موبائل نمبر کا استعمال کرتے ہوئے پی بی ایس کے بنائے ایک ویب پورٹل میں لاگ اِن کر سکتے ہیں۔ ایک بار جب کوئی فرد مردم شماری کا فارم مکمل کر کے جمع کرا دے گا تو اسے ایک کیو آر (QR) کوڈ جاری کیا جائے گا۔ پھر جب کوئی فیلڈ شمار کنندہ اس کے گھر پہنچے گا تو اسے محض اس کوڈ کو سکین کرانا ہو گا تاکہ ڈیٹا کی تصدیق کا عمل شروع کیا جا سکے۔ جب پی بی ایس اس ڈیٹا کی تصدیق کر لے گا تو اس شخص اور اس کےاہلِ خانہ کے بارے میں معلومات مردم شماری کا حصہ بن جائیں گی۔
ہماری تیزی سے بڑھتی آبادی
آبادی سے متعلق ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی موجودہ آبادی 23کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ اگر آبادی اسی شرح سے بڑھتی رہی تو 2050ء میں پاکستان 30 کروڑ کی آبادی کے سا تھ دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن جائے گا۔ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح ایک اعشاریہ نو فی صد بتائی جاتی ہے۔
ہمارے مقابلے میں ایران میں یہ شرح ایک اعشاریہ دو فی صد، بنگلا دیش میں ایک اعشاریہ تین فی صد، ملائیشیا میں ایک اعشاریہ سات فی صد ،انڈونیشیا میں ایک اعشایہ دو فی صد، بھارت میں ایک اعشاریہ پانچ فی صد اور سری لنکا میں ایک فی صد ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں ایک عورت کے ہاں اوسطاپیدا ہونے والے بچوں کی تعداد تین اعشاریہ چھ جب کہ دنیا میں اوسطا ایک عورت کے ہاں بچوں کی پیدائش کی شرح دو اعشاریہ چار ہے۔
ماہرین کے مطابق قیام پاکستان سے اب تک ملک کی آبادی میں چھ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ صوبہ سندھ میں تو یہ اضافہ سات گنا تک ہوا ہے۔ پاکستانی آبادی کا بہت بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے اور ہر 20 منٹ میں ایک عورت زچگی کی پےچیدگیوں کی وجہ سے جان گنوا دیتی ہے۔
مردم شماری پر اتنا زور کیوں ؟
ملک کے ہر فرد کی گنتی مردم شماری اورہر گھر کی گنتی خانہ شماری کہلاتی ہے۔ یہ کام کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ٹیمز گھر گھر جاتی ہیں اور لوگوں سے مختلف اقسام کی معلومات حاصل کرکے سوال نامہ پُر کرتی ہیں۔ پہلے سوال نامے کے تحت گھر کے افراد کی تعداد، ان کی عمروں، جنس، تعلیم، روزگار سے متعلق معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔
دوسرے حصے میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ گھر میں کتنے کمرے ہیں، کچن کیسا، باتھ رومز کیسے ہیں،پینے کے پانی اورگند آب کی نکاسی کی کیا صورت حال ہے، بچوں کی صحت کیسی ہے، انہیں حفاظتی ٹیکے لگے ہیں یا نہیں۔
اس عمل کے دوران عموما اسکول ٹیچرز اورفوج کے جوانوں پر مشتمل ٹیمز مردم اور خانہ شماری کے لیے علیحدہ علیحدہ ڈیٹا لیتی ہیں تاکہ غلطی کی گنجائش نہ رہے ۔مردم شماری کے عمل سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر ماہرین ملک کے مختلف شعبوں کے بارے میں منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
ماہرین شماریات کہتے ہیں کہ نادرا کا ڈیٹا بھی مردم شماری کے اعداد و شمار کو درست کرنے میں مدد گار ہو سکتاہے اور جب تک مردم شماری نہیں ہو گی صوبوں کے درمیان وسائل منصفانہ طورپر تقسیم نہیں ہو سکتے۔ وسائل کی تقسیم، ترقی کی منصوبہ بندی اور نئی انتخابی حلقہ بندیاں ، ان سب کے لیے مردم شماری ضروری ہے ۔ ماہرینِ آئین کا کہنا ہے کہ مقررہ وقت پر مردم شماری نہ کرا کر آئین کی خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔
دراصل کسی بھی ملک کےعوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا دارومدار آبادی کے درست اعداد شمار پر ہوتا ہے۔ مردم شماری صرف سروں کی گنتی کا نام نہیں بلکہ یہ ایسا پیمانہ ہے جس کے ذریعےیہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی ضروریات کیا ہیں ،ملک کو کن کن مسائل کا سامنا ہے، آبادی میں کتنی کمی ہوئی یا اضافہ ہوا ہے، اکثریتی آبادی کا تعلق کس نسل، زبان یا مذہب سے ہے، کُل آبادی کا کتنا فی صد طبقہ تعلیم یافتہ ہے اور کتنا ناخواندہ ہے،کس نے کتنی اور کیسی تعلیم پائی ہے؟وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ مردم شماری سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر ہم معاشرے میں رہنے والے مختلف اقسام کے لوگوں کے معیارِ زندگی کا مطالعہ بھی بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔
اس عمل کے ذریعے ہم ملک کی کُل آبادی میں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد، شرح نمو،شرح اموات، ملک کے اندرونی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد اور شرح ، بیرون ملک کام کرنے والوں، غیر شادی شدہ اور شادی شدہ افراد، گھروں، بیت الخلا اور کچن کی تعداد، زراعت، صنعت یا ذاتی کاروبار سے منسلک افراد ، پرائمری اور میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والوں اور گریجویٹس کی تعداد کی، ذریعہ آمدن، غربت کی شرح وغیرہ وغیرہ معلوم کرسکتے ہیں۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو قوم اپنے نفوس کی تعداد گننے میں دل چسپی رکھتی ہے وہ سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ترقی کے اعتبار سےمستحکم ہوتی ہے۔ ہم اس وقت تک ترقی کی راہ پر گام زن نہیں ہوسکتے جب تک ہمیں اپنے ملک کی آبادی کے اعدادو شمار درست طور پر معلوم نہ ہوں۔ مردم و خانہ شماری کے تحت ملکی آبادی کا تعین ہی وہ بنیادی عمل ہے جس کے ذریعے ہم معاشرے کے مسائل کی بہتر انداز میں نشان دہی کرکے انہیں حل کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی مرتب کرسکتے ہیں۔
مردم شماری سےحاصل ہونے والے مواد اور اعدادو شمار کے ذریعے محققین اور ماہرین معاشرے کے مختلف امور اور شعبوں میں جنم لینے یا ختم ہونے والے رجحانات کی نشان دہی کرتےاور مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ لوگوں سے حاصل کیے گئے ڈیٹا کے ذریعے مختلف علاقوں اور یونٹس میں رہنے والے لوگوں کی طرز زندگی کا مطالعہ کرسکتے اور انہیں بہتر اندازسے جانچ سکتے ہیں کہ فلاں علاقے کے لوگ کس قسم کے ہیں،وہ کیا پسند کرتے ہیں، کس پیشے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے رجحانات کس قسم کے ہیں۔
یاد رہے کہ ان ہی اعدادو شمار کی بنیاد پر یونٹس اور صوبوں میں قومی وسائل تقسیم کیے جاتے ہیں اور آبادی کے تناسب سے وسائل کی منصفانہ تقسیم شفاف انداز سے کرنے میں مردم شماری کے اعدادو شمار معاون اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح پالیسی بنانے والے مردم شماری کے اعدادو شمار کی بنیاد پر مختلف شعبوں کے لیے ٹھوس اور موثر پالیسیز بنانے کے قابل ہوپاتے ہیں اور ان ہی اعداد شمار کو سامنے رکھتے ہوئے حکومتیں اپنی پالیسیز بناتی ہیں۔
عوام کا نقصان
مردم شماری کا عمل خواہ کسی بھی بہانے سے ٹلے نقصان عام آدمی ہی کا ہوتا ہے۔کیوں کہ جب یہ ہی معلوم نہ ہو کہ کس صوبے، شہر ،قصبے اوردیہات کی آبادی کتنی ہے،اس میں مردوں، عورتوں، بچوں، جوانوں، بوڑھوں کی تعداد کیاہے،کتنے خاندان ہیں، وہ کیسے گھروں میں رہتے ہیں، ان کی تعلیم اور آمدن کیا ہے؟ اور آمدن کے ذرایع کیا ہیں؟ ملک کے کتنے باشندوں کی جنس، عمر، سماجی ساخت اور سماجی تقسیم کیا ہے، تعلیم، پیدائش و اموات اور بیماریوں کا تناسب کیا ہے، معاشرتی ساخت کیا ہے، قومی ترجیحات کیا ہیں، ملکی وسائل کا تخمینہ کیا ہے، آبادی کی ضروریات کیا ہیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ تو اقتصادی اور سالانہ میزانیے کی ترجیحات ہمیشہ فرضی اور گڑبڑ ہی رہیں گی۔ دوسری جانب نئی انتخابی حلقہ بندیاں نہ ہونے سے پارلیمان، صوبائی اسمبلیز اور بلدیات کی نشستیں فرضی تخمینوں پر بٹتی رہیں گی۔ قومی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے محرومیاں اور نفرتیں بڑھتی رہیں گی جس سے معاشرہ انارکی کا شکار ہوسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے قومی وسائل پر دباؤ بڑھاہےاور پاکستان توانائی اور پانی کے بحران سے دوچار ہے۔ ان کے مطابق اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے اورمستقبل کے بارے میں ٹھوس اور موثر حکمت عملی طے کرنے کے لیے مردم شماری ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ اسی بنیاد پر آبادی اور وسائل کا تعین کیا جاتا ہے۔ مزید برآں انتخابات کے لیے رائے دہند گان کی فہرست کی تیاری اورنئی حلقہ بندیوں کے لیے بھی یہ اقدام نہایت ضروری ہے۔ دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہےکہ 2017سے اب تک ملک میں بہت کچھ بدل چکا ہے جس کا سائنسی انداز میں پتا لگانا بہت ضروری ہے۔
پائے دار ترقی اور منصوبہ سازی کے لیے کام کرنے والے ماہرین کے بہ قول کسی ملک میں قابل عمل منصوبہ بندی کے لیے مردم شماری بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کی بنیاد اعداد و شمارپر ہوتی ہے۔ جب یہ ہی معلوم نہ ہو کہ ملک کی کُل آبادی کتنی ہے، کس صوبے، اور ضلعے میں کتنی آبادی ہے، لوگوں کی تعلیم اور ان کا پیشہ کیا ہے، ان کی اوسط عمریں کیا ہیں تو ٹھوس منصوبہ بندی کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ سب کچھ مردم شماری کے ذریعے معلوم ہوتا ہے جو اصولی طور پر ہر دس سال بعد ہونی چاہیے۔
وقت مقررہ پر مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں منصوبہ بندی آبادی کے ایک محتاط تخمینے کی بنیاد پر کی جاتی رہی ہے۔ اس لیے ان کے بہ قول ہمارے ہاں منصوبہ بندی بنیادی حقایق کے مطابق نہیں ہوتی۔ وہ مردم شماری اور خانہ شماری کرانےکے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئےکہتے ہیں کہ اس عمل کی تکمیل کے بعد ملک میں منصوبہ بندی کا عمل حقیقت کے قریب ہو نے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
ماضی میں مردم شماری میں تاخیر کے علاوہ اِس کے نتائج کبھی بھی جامع اور کبھی بھی ملک کے تمام سیاسی و سماجی حلقوں کےلیے قابل قبول نہیں رہے۔ پچھلے ادوار میں ہم نے وقت پر یہ عمل نہ کرکے بہت سنگین غلطی کی۔اس عرصے میں پلوں کے نیچے سے بہت زیادہ پانی بہ چکا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ حقیقت سے نظریں چرائے بیٹھے ہیں۔ ہمارے فیصلہ سازوں کے پاس ملک کی حقیقی آبادی ،اس کی ضروریات اور رجحانات کے بارے میں درست اور مکمل اعدادوشمار ہی نہیں ہیں ۔ لہذا ایسے میں کوئی ملک کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟
ماضی کی جھلک
1991ء میں ملک میں ہونے والی مردم و خانہ شماری غلط اعدادوشمار جمع کیےجانے کے باعث التواء کا شکار ہوئی تھی۔مارچ 2011ء میں آئندہ برس ہونے والی مردم شماری کے لیے پیشگی اقدام کے طور پر خانہ شماری کے عمل کا آغاز کیا گیا تھا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت مردم شماری کے فیصلے کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل(سی سی آئی) سے لی جاتی ہے۔ جب خانہ شماری کے نتائج سی سی آئی کے سامنے پیش کیےگئے تو بنیادی طور پر سندھ اور بلوچستان کے اعدادوشمار پر تنازع نے جنم لیا جو گنتی کی صداقت کے حوالے سے تھا، جس پر سی سی آئی نے مردم شماری کا فیصلہ ملتوی کر دیا تھا۔
بعدازاں ذرایع ابلاغ میں یہ بات افشا ہوئی کہ ان اعدادوشمار میں کچھ غلطیاں اختلافات کا باعث بنیں۔ خانہ شماری کے مطابق آبادی کا تخمینہ 19کروڑ 20لاکھ تھا جب کہ غیرجانب دار تنظیموں کی جانب سے اس حوالے سے پیش کیا جانے والا تخمینہ 17کروڑ50 لاکھ تھا۔ بنیادی طور پر سندھ اور بلوچستان کے اعدادوشمار میں تضادات پائے گئے تھے۔
خانہ شماری کے مطابق سندھ کی آبادی کا تخمینہ 5 کروڑ 50لاکھ تھا جب کہ اس کے مطابق نقل مکانی جیسے تغیر پذیری کے حامل محرک کے تحت سالانہ اضافے کو مدنظر رکھ کر آبادی کا تخمینہ تقریباً 4 کروڑ 20 لاکھ لگایا گیا۔ اس تخمینے میں 1.3 کروڑ نفوس کے فرق نے ان اعدادوشمار کو ناقابل یقین بنا دیا تھا۔ بلوچستان کے اعدادوشمار میں بھی اسی قسم کے تضادات کا انکشاف ہوا تھا ۔ جو کچھ ہورہا تھا وہ واضح تھا، جس میں کراچی و کوئٹہ کے مخالف نسلی گروہ وسائل کے زاید حصول کی مسابقت میں دست و گریباں تھے۔
وسائل کے حصے بڑھوانے میں ایک بہتر طور پر منظم گروہ نے اپنی برادری کو اپنے اہل خانہ کی تعداد زیادہ ظاہر کرنے کے حوالے سےحوصلہ افزائی کی۔جس کے نتیجے میں صوبائی سطح پر آبادی کے اعدادوشمار میں اضافہ ہوا، زمینی حقائق کے برعکس بڑھتی ہوئی آبادی کے تخمینے نے ان اعداد و شمار کو مشتبہ بنا دیا۔ 2011ء میں ہونے والی خانہ شماری میں لسانی گروہوں کے مابین طاقت اور وسائل کی مسابقت بن گئی اور اتنی شدت اختیار کر گئی تھی کہ کراچی میں دو سرکاری شمار کنندگان کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا اور دوزخمی ہوئے تھے۔ جس کے بعد مردم شماری کے عملے کی سیکورٹی ایک اور مسئلے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی۔
وہ تنازعات جن کی وجہ سے مردم شماری متعدد مرتبہ التواء کا شکار ہوئی ان کا تعلق صوبوں کی جانب سے قومی وسائل میں سے حصے کا دعویٰ کرنے اور صوبوں میں اندرونی سطح پر لسانی جھگڑے ہیں۔ لیکن مردم شماری کو خاص طور پر ان تنازعات کی نذر نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اسی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہوتی ہے اور عوامی ضروریات کے مطابق منصوبے کے لیے وسائل مختص کیے جاتے ہیں۔
مردم شماری ایک قومی معاملہ ہے اور اگر اس میں کسی قسم کے ہیر پھیر کی کوشش کی گئی تو یہ وفاق اور صوبوں، دونوں کے لیے زہرقاتل ثابت ہوگی لہذا امید ہے کہ یہ عمل شفاف انداز میں کیا جائے گا۔