سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے از خود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز میں ہوں گے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے فیصلہ سنانے کا آغاز قرآن کریم کی آیت سے کیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جنرل انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے، آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے، اسمبلی کی تحلیل سے 90 روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں، پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی، خیبر پختون خوا اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی۔
عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ گورنر کو آئین کے تحت 3 صورتوں میں اختیارات دیے گئے، گورنر آرٹیکل 112 کے تحت، یا وزیرِ اعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 222 کہتا ہے کہ انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے۔
’’گورنر KPK نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے آئینی ذمے داری سے انحراف کیا‘‘
چیف جسٹس پاکستان نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار دیتا ہے، اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو تاریخ کا اعلان بھی گورنر کریں گے، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتے تو صدرِ مملکت سیکشن 57 کے تحت اسمبلی تحلیل کریں گے، صدرِ مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمے داری گورنر کی ہے، گورنر خیبر پختون خوا نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے آئینی ذمے داری سے انحراف کیا، الیکشن کمیشن فوری طور پر صدرِ مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے۔
’’صدر پنجاب، گورنر KPK میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں‘‘
سپریم کورٹ نے اپنےفیصلے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدرِ مملکت پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، گورنر خیبر پختون خوا صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہئیں، تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولتیں فراہم کرے، عدالت انتخابات سے متعلق یہ درخواستیں قابلِ سماعت قرار دے کر نمٹاتی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن صدر اور گورنر سے مشاورت کا پابند ہے، 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جا سکتی ہے۔
فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ بھی پڑھوں گا۔
جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے اختلافی نوٹ پڑھا جس کے مطابق آرٹیکل 184/3 کے تحت یہ کیس قابلِ سماعت نہیں، عدالت کو اپنا 184/3 کا اختیار ایسے معاملات میں استعمال نہیں کرنا چاہیے، انتخابات پر لاہور ہائی کورٹ فیصلہ دے چکی ہے، سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں زیرِ التواء معاملے پر از خود نوٹس نہیں لے سکتی، پشاور اور لاہور ہائی کورٹ نے 3 دن میں انتخابات کی درخواستیں نمٹائیں، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں، انتخابات پر از خود نوٹس کی درخواستیں مسترد کرتے ہیں، اس معاملے پر از خود نوٹس بھی نہیں بنتا تھا، 90 دن میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 ججز کی اکثریت سے دیا، 3 ججز نے فیصلے سے اتفاق جبکہ 2 ججز نے اختلاف کیا۔
بینچ کے 2 ممبران جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض کیا۔
فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر سپریم کورٹ کے کمرۂ عدالت نمبر 1 میں وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے رہنما بڑی تعداد میں موجود تھے
فیصلہ سنائے جانے سے قبل کمرۂ عدالت نمبر 1 میں ساؤنڈ سسٹم بھی چیک کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے گزشتہ روز فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے 2 سماعتیں کیں۔
16 فروری کو جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا تھا، 22 فروری کو چیف جسٹس نے پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس لیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے از خود نوٹس پر سماعت کے لیے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا۔
حکمراں اتحاد نے 9 رکنی لارجر بینچ میں شامل 2 ججز پر اعتراض اٹھایا۔
جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللّٰہ بھی 9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہو گئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے بینچ کی از سرِ نو تشکیل کر کے اسے 5 رکنی کر دیا۔
گزشتہ روز 7 گھنٹے کی طویل سماعت میں فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہوئے۔
سماعت کے دوران اسپیکر کے وکیل علی ظفر، اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری، عوامی مسلم لیگ کے وکیل اظہر صدیق، اٹارنی جنرل شہزاد عطاء الہٰی، الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہر یار، گورنر خیبر پختون خوا کے وکیل خالد اسحاق، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک، مسلم لیگ ن کے وکیل منصور اعوان، جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ، صدرِ مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجہ، گورنر پنجاب کے وکیل مصطفیٰ رمدے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے دلائل دیے۔
بینچ میں شامل سپریم کورٹ کے تمام ججز نے گزشتہ روز ریمارکس دیے کہ آئینی طور پر انتخابات 90 دن میں ہوں گے۔
چیف جسٹس نے گزشتہ روز ریمارکس دیے کہ کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا ہے، انتخابات بر وقت نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔