پچھلے سال انہی دنوں ، شاہ ولی اللہ ؒ کے تنقیدی کام کو اختصار کے ساتھ پیش کیا تھا۔ صد افسوس کہ شاہ صاحب کے کام اور کارناموں سے تعارف طویل عمر نہ رہا۔ گہرائی میں پہلی دفعہ جھانکا، چار دانگ روشن ہو گئے۔ شاہ صاحب کی ذات ِمبارکہ کے اندر جھانکاتو فکر ونظر، اجتماعی فلسفہ ، آسان فہم منطق، قانون دین ، شریعت ، طریقہ عبادات، تقلید، احکامات ،طریقت، نظام اخلاق ، علم ودلیل ، انداز بیاں، اقتصادیات اور معیشت غرضیکہ کہ زندگی کا ایک ایک شعبہ ، ہر مسئلے پر محققانہ ومجتہدانہ سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ صاف شفاف اسلوب، عام فہم بیان ، آسان پیرائے، تعصبات سے پاک ، آزاد خیال مفکر ومبصر کی شخصیت دھاک بٹھا جاتی ہے۔ بقول سید مودودی ؒ ،’’کبھی تربیت یافتہ افراد کا جتھایا گروہ بناجاتے ۔تو انکے تنقیدی ، تعمیری ، سیاسی اور معاشی تحریکیں منظم ہو پاتیں ، مسلماناں ہند کی کایا بھی پلٹ جاتی‘‘۔مولانا شبلی ،’’تاریخ علم والکلام‘‘ میں رقمطراز ہیں، ’’پہلے زمانے میںپیدا ہوتے تو اماموں کے امام ٹھہرتے‘‘۔پچھلے سال شاہ صاحب کی تنقیدی تحریک کو اختصار کے ساتھ رقم کیا تو قلق رہا کہ شاہ صاحب کی معاشی تحریک اور اقتصادی فلسفہ کو ترجیح دینا چاہئے تھی۔ ایک سال سے اپنی ذات پر ادھار، اس کالم میں چکانے کی ٹھانی ہے۔
1707 میں پیدائش ہوئی ۔مت بھولیں ، کہ شاہ صاحب کے زمانہ میںطوائف الملوکی کو عروج حاصل ہو چکا تھا۔ گراوٹ، بیگاڑ ، کجی، اخلاق باختگی ، انتشارساری حدیں پھلانگ چکے تھے۔ ایسے زمانے کو ذہن میں رکھیں ،پھر شاہ صاحب کی برپا کردہ تنقیدی، تعمیری ، سیاسی اور معاشی تحریکوں کا جائزہ لیں۔ خصوصاً معاشی تحریک کی ہمہ گیریت، علمی سکتے کے عالم میں دھکیل جاتی ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں، امام غزالی، ابن تیمیہ سے لیکر سید مودودیؒ تک شاید ہی کوئی مجتہد ومحقق عالم آیا ہو جو معاشی اصولوں کی ایسی گہرائی میں غوطہ زن رہا ہو۔ اوپر سے کمال ِفن، سہل بنا کر پورا حل پیش کیا۔شاہ ولی اللہ جب یہ رقم کر رہے ہوں گے یا تحر یک برپا کر چکے ہوں گے، یورپ صنعتی انقلاب سے 50سال کی دوری پر تھا۔ انقلاب فرانس 100 سال بعد برپا ہوا۔ ایڈیم اسمتھ کی کمپیٹنٹ تھیوری 70 سال بعد متعارف ہوئی ۔ کارل مارکس اور اس کے چیلے اینگلز کی کیمونسٹ تحریک بمع کیمونسٹ منشورکو 100سال بعد خدوخال ملے۔ ہندوستان سے ابھرنے والی فلسفی، مفکر ، دیدہ ور مصلح ، مجدد نے برصغیر کے تمام معاشرتی ، تمدنی، سیاسی امراض کا ’’نسخہ کیمیا‘‘ معاشی انقلاب کی صورت میں تجویزپیش کر دیں۔
علم وادب کے حوالے سے عصرحاضرکی نابغہ روزگارشخصیت محترم وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران نے بہت عرصہ پہلے ایک تحقیقی مقالہ بصورت کتاب ،’’انقلاب روس اور وال اسٹریٹ ‘‘(Wall Street and the Bolshevik Revolution: Antony C. Sutton) مرحمت فرمائی۔ تحقیق کا لب لباب اتنا ہی کہ کیپٹلزم اور کیمونزم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں ارتکاز ِدولت اور اجارہ داری کی ترویج کرتے ہیں۔ سب کچھ بالآخر ایک مختصر گروہ کے رحم وکرم پرآجاتا ہے۔ کیمونزم میں یہ واردات مقتدر طبقہ جبکہ کیپٹلزم میں منظم سرمایہ دار طبقہ سرمایہ اور کارخانوں کا تن تنہامالک ومنتظم بن کر بالآخر ایک مخصوص طبقہ کو فائدہ پہنچاتا ہے۔
شاہ ولی اللہ ؒ کی معاشی تحریک کو کیمونزم اور کیپٹلزم کی مناسبت سے بنظر غائرپڑھیں۔ ایک ایسا شخص جو مغربی فلسفوں سے براہ راست متعارف نہ تھا۔ اکثر اوقات کے 50 سے 100 سال بعد وجود میں آئے۔
شعبہ معاشیات میں ایسے متوازن رہنماء اصول کہ بالمقابل آج تک وضع نہ ہو سکے۔ شاہ صاحب نے اپنی معرکۃ الراء تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘میں کماحقہ اپنے معاشی خیالات اور نظریات کا تشریح وتوجیہہ کے ساتھ احاطہ کیا ہے۔سید قاسم محمود نے اپنے کوزے (کتابچے) میں سید محمد میاں کی تصنیف ’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘ کے دریا کو بند کر دیا ہے۔شاہ ولی اللہ ؒ کی معاشی تحریک کے اہم نکات کو ایک ترتیب کے ساتھ رقم کرگئے۔ من وعن پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں.......
’’1۔دولت کی اصل بنیاد’’محنت ‘‘ ہے۔ مزدور اور کاشتکار اصل اکتسابی قوت ہیں۔ باہمی تعاون شہریت (Citizenship) کی روح رواں ہے۔ جب تک کوئی شخص ملک اور قوم کے لئے محنت نہ کرے ، ملک کی دولت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
2۔جوا، سٹہ اور عیاشی کے اڈے فی الفور ختم کیے جائیں جن کے ہوتے ہوئے تقسیم دولت کا صحیح نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ ان اڈوں کی موجودگی میں قومی دولت بہت سی جیبوں سے نکل کر ایک طر ف سمٹ آتی ہے۔
3۔مزدور ، کاشتکار اوروہ لوگ جوملک وقوم کے لئے دماغی کام کریں، وہ ہی دولت کے اصل مستحق ہیں۔ ان کی ترقی اور خوشحالی ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی ہے۔ جو نظام محنت کش قوتوںکو دبائے ، وہ ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ ایسے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔
4۔جو سماحی نظام محنت کی صحیح قیمت ادا نہ کرے، قابل اعتبار نہیں، جب تک اس کی محنت کی وہ قیمت ادا نہ کی جائے جو امداد باہمی کے اصول پر لازم ہوتی ہے۔
5۔ضرورت مند مجبور مزدور کی خاموش رضامندی قابل اعتبار نہیں، جب تک اس کی محنت کی وہ قیمت ادا نہ کی جائے جو امداد باہمی کے اصول پر لازم ہوتی ہے۔
6۔جو پیداواراور آمدنی ،باہمی اور تعاون کے اصول پر نہ ہو،وہ خلاف قانون ہے۔
7۔’’کام کے اوقات محدود کیے جائیں‘‘۔ مزدوروں اور کاشتکاروں کو اتنا وقت ضرور ملنا چاہئے کہ وہ اپنی روحانی اور اخلاقی اصلاح کر سکیں اور ان کے اندر اپنے مستقبل کے متعلق غوروفکر کی صلاحیت پیدا ہو سکے ۔
8۔باہمی تعاون کا بہت بڑا ذریعہ تجارت اور کاروبار ہے۔ لہٰذا اس کو تعاون ہی کے اصول پر جاری رہنا چاہئے۔ پس جس طرح تاجروں اور کاروباری حضرات کے لئے جائز نہیں کہ وہ بلیک مارکیٹ اور ذخیرہ اندوزی یا غلط قسم کی مقابلہ بازی سے تعاون اور امدادباہمی کی روح کو نقصان پہنچائیں، اسی طرح حکومت کے لئے بھی مناسب نہیں کہ طرح طرح کے بھاری ٹیکس لگا کر تجارت کے فروغ اور ترقی میں رکاوٹ پیدا کرے اوررخنہ اندازی کرے۔
9۔وہ تجارت یا کاروبار جو دولت کی گردش کو کسی خاص طبقے میں منحصر ومخصوص کردے، ملک وقوم کے لئے تباہ کن ہے۔
10۔ایسا سیاسی وسماجی نظام ، جس میں چند اشخاص یا چند خاندانوں کو عیش وعشرت کے سبب سے دولت کی صحیح تقسیم میں خلل واقع ہو، اس کا مستحق ہے کہ اس کو جلدازجلد اوپر سے نیچے تک ختم کرکے عوام کے مصائب دور کیے جائیں اور ان کو مساویانہ نظام زندگی کا موقع دیا جائے۔
11۔زمین کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ اور ظاہری نظام کے لحاظ سے ’’ریاست‘‘(State) ہے۔ ملک کے باشندوں کی حیثیت وہ ہے جو کسی مسافر خانے میں ٹھہرنے والوں کی۔ ملکیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے حق انتفاع میں دوسرے کی دخل اندازی قانوناً ممنوع ہے۔
12۔تمام انسان برابر ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو مالک الملک ، ملک الناس ، مالک ِقوم یا انسانوں کی گردنوں کا مالک تصور کرے ، نہ کسی کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی صاحب اقتدار کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرے۔
13۔ریاست کے سربراہ مملکت کی حیثیت وہ ہے جو کسی وقف کے متولی کی۔ وقف کا متولی اگر ضرورت مندہو تو اتنا وظیفہ لے سکتا ہے کہ عام باشندے کی طرح زندگی گزار سکے۔
14۔روٹی، کپڑااور مکان اور ایسی استطاعت کہ نکاح کر سکے اور بچوں کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کر سکے ، بلا لحاظ مذہب ونسل وزبان ، ہر ایک انسان کا پیدائشی حق ہے۔
15۔اسی طرح مذہب ، نسل، رنگ یا زبان کے کسی فرق وتفاوت کے بغیر، عام باشندگان کے معاملات میں یکسانیت ومساوات کے ساتھ عدل وانصاف ، ان کے جان ومال کی حفاظت، ان کی عزت وناموس کی حفاظت، حق ملکیت میں آزادی ، حق اظہار میں آزادی ، حقوق شہریت میں یکسانیت وبرابری ملک کے ہر باشندے کا بنیادی حق ہے۔
16۔اپنی تہذیب ، ثقافت اور زبان کو زندہ رکھنا ہر فرقے کا بنیادی حق ہے۔
17۔بین الاقوامی تحفظات وحقوق کے حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ خودمختار علاقے بنائے جائیں۔ یہ خودمختار اکائیاں اپنے معاملات میں آزاد اور خودمختارہوں گی۔ ہر ایک اکائی میں اتنی طاقت ضرور ہونی چاہئے کہ اپنی جیسی اکائیوں کے جارحانہ اقدام کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ تمام اکائیاں ایک ایسے بین الاقوامی نظام (بلاک ) میں منسلک ہوں جو فوجی طاقت کے لحاظ سے اقتدار اعلیٰ کا مالک ہو۔ اس کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ کوئی مخصوص مذہب یا تہذیب کسی اکائی پر لاد سکے ، البتہ اس کا یہ فرض ضرور ہوگاکہ کسی قوم یا اکائی یا یونٹ کو یہ موقع نہ دے کہ کسی دوسری قوم کے مذہب یا تہذیب پر حملہ کرسکے‘‘۔
مولانا شبلی کی تصنیف ’’تاریخ علم و الکلام‘‘ کا اقتباس حاصل ِکلا م ہی ہے۔ ’’ابن تیمیہ اور ابن رشد کے بعد خود انہی کے زمانے میں مسلمانوں میں جوفکری ، نظری وعقلی تنزل شروع ہوا تھا۔ اس کے لحاظ سے یہ اُمید نہ تھی کہ پھر کوئی دیدہ ورپیدا ہوگا۔ شاہ ولی اللہ ؒ جیسا شخص پیدا ہوا۔ جس نکتہ سنجیوں، باریک بینی، دقیقہ رسی اور دیدہ وری کے آگے غزالی ، رازی ، ابن رشد کے کارنامے ماند پڑگئے‘‘۔