(گزشتہ سے پیوستہ)
اس عنوان کے گزشتہ کالم میں‘ میں نے مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کی روشنی میں سندھ میں گمشدہ سیاسی کارکنوں کے اعداد و شمار دئیےتھے مگر ان کارکنوں کیساتھ کی گئی ایک انتہائی شرمناک حرکت کے بارے میں ابھی تفصیلات نہیں دی تھیں جو میں اس کالم میں دے رہا ہوں‘ یہ شرمناک حرکت کرنے والے عناصر نے قوم پرست کارکنوں اور رہنمائوں کے خاندانوں کے افراد جن میں مرد بھی تھےاورخواتین بھی تھیں، ان کو غیر قانونی طور پر اغوا کیا ۔
اس سلسلے میں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ٹنڈو الہ یار شہر سے 7 مارچ 2018 ء کو ایک قوم پرست کارکن علی غلام تھارانی کی بیگم ثمینہ تھارانی اور بیٹے ایاز تھارانی کو اغوا کیا گیا اور بعد میں انہیں 16 اپریل 2018ء کو رہا کیا گیا‘ 19اپریل 022 ء کو قوم پرست کارکن نور چانڈیو کے چچا زاد بھائی محمد علی چانڈیو کو قمبر سے اغوا کیا گیا اور کچھ ماہ کے بعد اس کی گرفتاری ظاہر کی گئی اور اسے جیل میں ڈال دیا گیا‘ 17اپریل کو قوم پرست رہنما معشوق قمبرانی کے چچا زاد بھائی مظفر قمبرانی کو جامشورو پھاٹک سے گرفتار کیا گیا مگر اس گرفتاری کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی اور اسے رہا کردیا گیا‘ اسی شخص کے ایک اور چچا زاد بھائی ظفر قمبرانی کو 21 اپریل 2022ء کو ضلع دادو کے میہڑ تعلقہ کے گائوں تھوڑھا سے گرفتار کیا گیا‘ اس گرفتاری کے خلاف بھی سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی اور اسے بھی رہا کردیا گیا‘ اسی قوم پرست رہنما کے بھائی عبد العزیز قمبرانی کو 4 مئی 2022ء کو خورشید چوک کوٹری سے گرفتار کیا گیا اور اسے ایک مقدمے میں ملوث دکھا کر اس کیخلاف ستمبر میں مقدمہ داخل کیا گیا‘ اسی قوم پرست کارکن کے ایک اور چچا زاد بھائی پرویز چانڈیو کو بھی 19اپریل 2022 ء کو قمبر سے گرفتار کیا گیا مگر اسکے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں کہ رہا ہوگیا یا ابھی تک رہا نہیں ہوا‘ ممتاز قوم پرست رہنما شہید بشیر خان قریشی کے داماد امرقیس ابڑو کو 2 جون 2020 ء کو کلفٹن کراچی سے گرفتار کیا گیا اور بعد میں اسے 2 جولائی 2020 ء کو رہا کردیا گیا‘ قوم پرست رہنما اصغر شاہ کے چچا زاد بھائی زاہد شاہ کو 20جون 2020ء کو ضلع لاڑکانہ کے شہر ڈوکری سے گرفتار کیا گیا اور 24جون کو رہا کردیا گیا‘ جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن (جے ایس ایس ایف) (بشیر خان قریشی گروپ) کے رہنما دین محمد کھوسو کے تین بھائیوں دوست محمد کھوسو‘ عبدالرحمان کھوسو اور ابو بکر کھوسو کو 19 اگست کو کندھ کوٹ سے گرفتار کیا گیا اور بعد میں تینوں کو 25 اگست کو رہا کردیا گیا‘ جسقم کے کارکن منیر ابڑو کے بھائی منصور ابڑو کو یکم مارچ 2018 ء کو کنڈیارو‘ ضلع نوشہرو فیروز سے گرفتار کیا گیا‘ بعد میں 30مارچ 2018 ء کو گھر لوٹ آیا‘ قوم پرست رہنما ذوالفقار خاصخیلی کے چچا زاد بھائی مدثر خاصخیلی کو 22 جولائی 2020 ء کو ضلع دادو کے شہر میہڑ سے گرفتار کیا گیا اور بعد میں اسے 23 جولائی 2020 ء کو رہا کردیا گیا‘ گمشدہ کارکن کاشف ٹگڑ کے بھائی آکاش علی ٹگڑ کو 24 جون 2020 ء کو لاڑکانہ سے گرفتار کیا گیا ، 31 جولائی کو رہا کردیا گیا‘ قوم پرست کارکن عاقب چانڈیو کے چچا ارشد چانڈیو کو 18 جولائی کو لاڑکانہ سے گرفتار کیا گیا اور 8 اپریل کو رہا کیا گیا‘ ساجد سنجرانی کے عزیز عامر سنجرانی کو 14اگست 2020ء کو صفوراں چورنگی کراچی سے اغوا کیا گیا اور 9جولائی 2020 ء کو رہا کردیا گیا‘ قوم پرست رہنما اصغر شاہ کے بھتیجے امداد شاہ کو 20 جون 2020ء کو ڈوکری‘ ضلع لاڑکانہ سے گرفتار کیا گیا اور22 اکتوبر 2020 ء کو رہا کردیا گیا‘ قوم پرست کارکن سجاد شاہ کے باپ سید بچل شاہ کو 26 اگست 2020ء کو کشمور کے علاقے باڈانی سے اغوا کیا گیا اور 7نومبر 2020ء کو رہا کیا گیا‘ 21 اکتوبر 2021 ء کو قوم پرست کارکن نور چانڈیو کے والد گل حسن چانڈیو‘ ان کی والدہ بسران چانڈیو‘ ان کی بیگم عارفہ چانڈیو اور ان کی بیٹی سندھو چانڈیو کو قمبر‘ شہداد کوٹ کے گائوں نور واہ سے گرفتار کیا گیا اور انہیں 22 اکتوبر کو رہا کیا گیا‘ اسی دن نور چانڈیو کی بہن پارس چانڈیو کو بھی گرفتار کیا گیا اور اسے 23 اکتوبر کو رہا کیا گیا۔ یہ بات بھی کم دلچسپ نہیں کہ کافی عرصے سے حکومت نے سیاسی کارکنوں کی گمشدگی کے ذمہ دار عناصر کی نشاندہی کرنے اور ان کو سزا دینے کے لئے ’’انکوائری کمیشن فار مسنگ پرسن ‘‘ کے نام سے ایک کمیشن بنایا ہوا ہے مگر اس کمیشن نے آج تک سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کی گمشدگی کے ذمہ دار عناصر کی کبھی نشاندہی کی اورنہ ہی کارکنوں کی گمشدگی کا اب تک خاتمہ ہوا ہے یا ان غیر قانونی و غیر آئینی اقدامات میں کوئی کمی آئی ہے۔ مگر کیا کسی حکومت نےاس کمیشن کی اس’کارکردگی‘ کا کوئی نوٹس لیا؟ اس کمیشن کی کارکردگی کا اگر کسی نے نوٹس لیا تو وہ ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن حنا جیلانی ہیں‘ حنا جیلانی اس سال فروری میں سندھ کے دورے پر آئی تھیں۔ انہوں نےسندھ میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے سندھ کے کچھ اضلاع کے دورے کئے۔ انہوں نے سندھ کے یہ دورے انسانی حقوق کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کیلئے کئے۔حنا جیلانی کے دوروں میںگمشدہ ہونیوالوں کے متاثرہ خاندانوں نے شکایات کیں کہ کمیشن کی طرف سےان کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ کی جاتی ہے کہ ان کو ان حالات میں جب کہ ان کے عزیز گم ہوں اور ان کے کھانے کیلئے کچھ نہیں کراچی آکر شکایت درج کروانے کا کہا جاتا ہے۔(جاری ہے)