• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل : عریشہ شاہ

ملبوسات : منوش برائیڈلز

آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر

گفٹ پیکس: Suthi packing by Zara

کوارڈی نیشن: محمّد کامران

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

فراق گورکھپوری کی ایک غزل کے کچھ اشعار ہیں ؎ باغِ جنت پہ گھٹا جیسے برس کے کُھل جائے…یہ سہانی تیری خُوشبوئے بدن، کیا کہنا… ٹھہری ٹھہری سی نگاہوں میں یہ وحشت کی کرن… چونکے چونکے سے یہ آہوئے ختن، کیا کہنا… رُوپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کایہ رچائو… تجھ پہ لہلوٹ ہے بے ساختہ پن، کیا کہنا… نگہہ ناز میں یہ پچھلے پہر رنگِ خمار… نیند میں ڈوبی ہوئی چندر کرن، کیا کہنا… جس طرح جلوئہ فردوس ہوائوں سے چَھنے… پیرہن میں تیرے رنگینیٔ تن، کیا کہنا… دل کے آئینے میں اِس طرح اُترتی ہے نگاہ… جیسے پانی میں لچک جائے کرن، کیا کہنا…لہلہاتا ہوا یہ قد، یہ لہکتا جوبن… زُلف سو مہکتی ہوئی راتوں کا بَن، کیا کہنا… تیری آواز سویرا، تیری باتیں تڑکا… آنکھیں کُھل جاتی ہیں اعجازِ سُخن، کیا کہنا… زلفِ شب گوں کی چمک، پیکرِ سیمیں کی دمک … دیپ مالا ہے سرِگنگ و جمن، کیا کہنا… جلوہ و پردے کا یہ رنگ دَم نظارہ … جس طرح اَدھ کُھلےگھونگھٹ میں دُلہن، کیا کہنا۔ اور بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ اِک ’’حُسنِ کامل‘‘ کی بہترین تمثیل کے لیے آج بھی ’’دُلہن‘‘(مشرقی دلہن)سےبہتر کوئی استعارہ نہیں۔ 

اِک تو دُلہن کی آرائش و زیبائش، اُس کا سولہ سنگھار، اُس پر زندگی کے اِس سب سے خاص دن کے موقعے پر مَن اندر سے پُھوٹتی اِک الوہی خُوشی و مسرت، کچھ حُزن و ملال ، کئی اندیشے، فِکریں، خُوش گمانیاں، خُوش خیالیاں، اِک یک سر نئے سفر، اِک جنم سے دوسرے جنم کی سی کیفیت کے مِلے جُلے احساسات وجذبات سب مل کے اُسے کچھ ایسا ملکوتی، ماورائی سا حُسن عطا کر دیتے ہیں کہ پھر شعراء ادباء کو بھی حُسنِ کامل، سب سے خُوب صُورت کے لیے ’’دلہن، عروس‘‘ سے بہتر کوئی تشبیہہ، تمثیل، استعارہ، پیمانہ سجھائی نہیں دیتا۔ وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’میرا خیال تھا کہ فرشتے زمیں پر کبھی چلتے پِھرتے دکھائی نہیں دے سکتے، لیکن پھر مَیں نے ایک دُلہن کو دیکھا اور اُس کی معصومیت، اُس کے چہرے کے نُور، اُس کے ملکوتی حُسن نے میری سوچ بدل دی۔‘‘ اِسی طرح ایک اور مفکّر کا خیال ہے کہ ’’جب زمین پر کوئی دُلہن تیار ہوتی، بنتی سنورتی، تو مجھے لگتا ہے، آسمان سے فرشتے بھی اُس فرشتہ صفت کی بلائیں لیتے ہوں گے۔‘‘

تو، ہماری آج کی بزم کچھ عروسی پہناووں ہی پر مشتمل ہے۔ ذرادیکھیے، روایتی بلڈ ریڈ رنگ کے ہیوی کام دار، پیپلم (چولی ) کے ساتھ اسکن رنگ بنارسی فیبرک میں نفیس ودل آویز، ہینڈ ایمبرائڈری سے مرصّع لہنگے اور شیفون جارجٹ کے کام دار دوپٹے کا جلوہ۔ گہرے عنّابی رنگ میں فُل ایمبرائڈرڈ شرٹ کے ساتھ آف وائٹ پلازو اور ستارہ ورک سے مزیّن دوپٹا ہے۔ سلور گِرے رنگ میں نیٹ کی بہت بھاری، بِیڈز ورک سے آراستہ و پیراستہ میکسی ہے، تو گلابی رنگ میں چُوڑی دار پاجامے کے ساتھ آرگنزا کی بہت ہی حسین ودل نشین فراک، دوپٹا بھی ہے۔ اور پھر سب پہناووں کے ساتھ ہم آمیز بھاری زیورات اور دُلہن بی بی کے سامانِ آرائش کی حفاظت کی خاطر کچھ خُوب صورت و منفرد باکسز کابھی انتظام ہے۔

تو کہیے، کیسی لگی، ہماری ا ٓج کی بزم، دولھے میاں اس بدرِ کامل کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں ناں ’’تو زمینِ رنگ و بُو، تُو آسمانِ رنگ و بُو… مختصر یہ ہے کہ تُو ہے اِک جہانِ رنگ و بُو۔