• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹے بیٹوں۔پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں سے ملنے ملانے ان کی سننے۔ اپنی سنانے کا دن۔ اتوار سے پہلے پہلے اتنے نئے مسائل۔ نئے موضوعات۔ ذہنی افق پر غالب آجاتے ہیںکہ ہمارے بچوں کی ترجیحات بھی مضطرب ہوجاتی ہیں۔

ہاتھیوں کی چنگھاڑیں۔ شیروں کی دھاڑیں۔ گھوڑوں کی ہنہناہٹیں زوروں پر ہیں۔ بیل بھینسے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے نے سینگ پھنسالئے ہیں۔ کوئی چھڑوانے آتا ہے تو اس کے کچے چٹھے کھول دیے جاتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ اینیمل فارم بنی ہوئی ہے۔ ولی خان یاد آتے ہیں کہ جب بیلوں کی آپس میں لڑائی ہوتی ہے تو مینڈک مارے جاتے ہیں۔ مگر اکیسویں صدی میں مینڈک۔ مینڈکیاں انٹرنیٹ کی بدولت بہت با خبر اور با شعور ہوگئے ہیں۔ وہ اب ان لڑائیوں کو اسٹیڈیم کی سیڑھیوں سے دیکھتے ہیں۔

لگتا ہے 2023 ایسے ہی گزرے گا۔ بلّی آگے بڑھ رہی ہے۔ کبوتروں نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ بصارت اور بصیرت دونوں اب ہمارے ہاں سے سرحد پار کرکے جاچکے ہیں۔ صرف سماعت باقی ہے۔ اسی لئے اب’آڈیو لیکس‘ جاری کی جارہی ہیں۔

میری تشویش آئندہ کے لئے ہے۔ الیکشن پر تو کبھی نہ کبھی جانا ہوگا۔ جنرل ضیاء کے مارشل لا کے بعد باریاں لگی ہوئی ہیں۔ کبھی مسلم لیگ(ن) ۔ کبھی پی پی پی۔ اس لیے جب مسلم لیگ(ن) کے حکمرانوں نے ہوا میں منڈلاتے ایک آرمی چیف کو معزول کرنا چاہا اور وہ تدبیریں الٹی پڑگئیں تو جلا وطن پی پی پی کو یہ امید ہوئی کہ اب اس کو باری ملے گی۔ ہوا یہی لیکن 1999 میں نہیں ۔2007 میں۔ جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی اور ملک میں سینکڑوں ہزاروں کا لہو بہنے کے بعد۔ تاریخ کتنی سفاک ہے۔ پی پی پی کو حکومت ملتی ہے۔ کبھی اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان کے قتل۔ کبھی پارٹی کے بانی چیئرمین کی شہادت اورکبھی دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کی مسند سے خدمات انجام دینے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد۔ تاریخ یہ بھی گواہی دیتی ہے کہ اس کو کبھی دو تہائی اکثریت نہیں ملی۔ اور جس الیکشن 1977 میں ملتی ہے، وہ احتجاج اور ہنگاموں کے بعد کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایک اور تاریخی حقیقت بھی ہے کہ 1977کے مارشل لا کے بعد سب سے بڑے صوبے میں پی پی پی کبھی اپنا وزیر اعلیٰ نہیں لاسکی۔ ہر چند کہ وفاق میں اس کی حکومت تین بار بن چکی ہے۔ اب محسوس ہورہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو بھی پنجاب سے اسی طرح دیس نکالا دیا جارہا ہے۔

........

اب جو سیاسی نقشہ نظر آرہا ہے۔ جب بھی عام انتخابات ہوں گے ۔ پورے ملک میں یا صوبوں میں۔ اور ابھی چند روز بعد قومی اسمبلی کے 16حلقوں میں تو جام پور کے مناظر دہرائے جاسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا اب لاٹھی گولی کی سرکار۔ دھونس دھاندلی سے زیادہ مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ خاموش اکثریت پاکستان میں سڑکوں پر اگر نکلی ہے تو سیاسی تحریکیں وہی کامیاب ہوئی ہیں۔ جن کے پیچھے مقتدرہ کی طاقت رہی ہے۔ مگر خاموش اکثریت کو جب تنہائی میں پولنگ بوتھ میں اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالنے کا موقع ملے گا تو جام پور ہی برپا ہوگا۔

مجھ جیسے گنہگاروں کو فکر یہ ہے کہ ملک آہستہ آہستہ جس خطرناک سیاسی۔ سماجی۔ اقتصادی اور اخلاقی موڑ پر پہنچ رہا ہے۔ اس کے بعد جب بھی عام انتخابات ہوکرکوئی پارٹی بر سر اقتدار آئے گی تو اس کا کپتان اس ڈولتے بحری جہاز کو کیسے سنبھال سکے گا؟ گزشتہ 40 برس کے زخموں۔ ضربوں اور چوٹوں کا اندمال کیا 5سال کی مدّت میں ممکن ہوگا؟ کیااس کے حلف اٹھاتے ہی بد حالی خوشحالی میں، انتشار استحکام میں تبدیل ہوجائے گا۔ کیا ہمارے سارے ادارے اپنی پچاس ساٹھ سال کی عادتیں ترک کردیں گے؟ کیا ہمارا ازلی دشمن بھارت اپنی مداخلتوں سے ہاتھ اٹھالے گا؟

محترمہ بے نظیر بھٹو 2007 میں جب واپس آرہی تھیں تو پرانی غلطیاں نہ دہرانے اور اپنی پارٹی میں استحصالی عناصر کو اعلیٰ عہدوں سے ہٹانے کے ارادے لے کر آرہی تھیں۔ اپنی تقریروں میں اس لائحہ عمل کا انہوں نے اظہار بھی کردیا تھا۔ تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ پہلے انہیں 18 اکتوبر کو خبردار کیا گیا پھر جب ارادے نہیں بدلے تو 27دسمبر کو 4اپریل برپا کردی گئی۔اب سارے سروے کیا کہہ رہے ہیں۔ 2022اور 2023 میںہونے والے ضمنی انتخابات کسے مقبول بتارہے ہیں؟ یہ شخصیت اپنی تقریروں میں کیا عزائم ظاہر کررہی ہے؟دنیا بھر میں خاص طور پر تیسری دنیا میں ایسی بھیانک مثالیں موجود ہیں۔ پہلا راستہ تو وہی ہے کہ ملک کے لیے ایسے پختہ ارادے رکھنے والوں کو جسمانی طور پر الگ کردیا جائے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو کہ اس سے ملک کے لیے زیادہ خطرات پیدا ہوجائیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ معیشت۔ زراعت۔ سیاست جن خدشات میں مبتلا ہیں۔ ملک پر قرضے جتنے واجب الادا ہیں ۔شرح سود جہاں پہنچ گئی ہے۔ طویل حکومتی تجربے رکھنے والی دو پارٹیوں سمیت 13سیاسی جماعتیں اور ان کے سرپرست بھی معیشت سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ وقت مٹھی سے نکلا جارہا ہے۔ ایسے میں متوقع انتخابی فاتح عمران خان کیا اچھی اور نتیجہ خیز حکمرانی کرسکیں گے۔ ان کا گزشتہ حکومتی تجربہ قابل فخر نہیں ہے۔ اگر یہ مقتدرہ کے دبائو میں تھا تو اس کے اچھے فیصلوں اور پالیسیوں کا سہرا بھی اسی طاقت ور شخصیت کے سرہوگا۔ اب ہم درد مند پاکستانی کیسے اعتبار کرلیں کہ 300 فی ڈالر پہنچا ہوا روپیہ واپس 50 یا 60پر آسکتا ہے۔ شرح سود کم ہوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف سے نجات مل سکتی ہے۔ مہنگائی کیسے کم ہوگی۔ غربت کی لکیر کے نیچے گئے چھ کروڑ کیا صرف احساس پروگرام سے اوپر آجائیں گے۔ کیا صرف آپ کے بر سر اقتدار آنے سے فی ایکڑ پیداوار بڑھ جائے گی۔ ملوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا شروع ہوجائے گا۔ بجلی کے نرخ کم ہوجائیں گے۔ مائوں بہنوں بیٹیوں کے ساتھ زیادتی ختم ہوجائے گی۔ قانون سب کیلئے یکساں ہوگا۔ آزاد میڈیا کو آپ کس حد تک برداشت کریں گے۔

ملک میں انتقام کی جگہ مفاہمت کی ضرورت ہوگی۔ آپ اگرمفاہمت کریں گے تو لوگ کہیں گے آپ این آر او دے رہے ہیں۔ ملک میں اتفاق رائے کیسے پیدا ہوگا۔ کیا آپ ظلم کرنے والے ڈرٹی ہیری۔ مسٹر ایکس۔ آئی جی۔ ڈی آئی جی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے؟ 2018 والے حالات ہیں۔ نہ سرپرست۔ آپ کی بصیرت وژن۔ آئندہ پانچ دس سال کا سماجی۔ سیاسی۔ اقتصادی نقشہ کیا بتارہا ہے؟ کیا قوم کو آپ ان معاملات پر اعتماد میں لینا چاہیں گے۔ مجھ جیسے دودھ کے جلے تو چھاچھ پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔ آپ ہمیں مطمئن کریں۔ اپنا منشور سامنے لائیں۔

تازہ ترین