• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بھوکا ہوں کھانے کو دے دیں، دعائیں دیں گے‘‘

نیلسن منڈیلا کے بقول"غلامی اور نسل پرستی کی طرح غربت فطری یا اتفاقیہ طور پر پیدا نہیں ہوتی ہے، بلکہ انسانوں کی بنائی ہوئی ہے اور اسے انسانوں ہی کی کاوشوں اور اعمال سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ "ہم جیسے ممالک جہاں ہر معاشی منصوبہ بندی صرف اور صرف غریبوں اور پسماندگان کے لئے کی جاتی ہے۔ لیکن اتنے سارے منصوبوں، فلاحی کاموں اور سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی کاوشوں کے باوجود غربت کی شرح میں کمی کے کوئی آثار نہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ ساری غربت کے خاتمہ کے لئے کی جانے والی منصوبہ بندی کیوں کامیاب نہیں ہورہی ہیں؟ کیا ان کی ناکامی کی وجہ"انسان" (منصوبہ ساز) ہی ہیں؟ لگتا ہے نیلسن منڈیلا نے یہ بات یقینا بہت مشاہدہ اور تجزیہ کے بعد ہی کی ہوگی۔ گلوبل ورلڈ رپورٹ کے مطابق عالمی آبادی کا صرف 4۔8 فیصد حصہ عالمی دولت کے 3۔83 فیصد حصہ کا مالک ہے۔ انتہا ہے غیر منصفانہ تقسیم دولت کی۔ ملینیم ڈیولپمنٹ گولز millennium development goals اور پھر sustainable development goalsکے اہم ترین نکات دنیا سے غربت کا خاتمہ ہیں۔ لیکن افسوس اس کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کے خاتمہ کے لئے اس کی ہونے کی بنیادی

وجوہات کو جاننا ضروری ہے۔ پوری دنیا میں کرنسی کی تخلیق اور تقسیم کا موجودہ نظام انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ یہ امیروں کا ہمدرد اور غریبوں کو مزید غریب بناتا جارہا ہے۔ اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ تک میں کہا جارہا ہے کہ ان کا مرکزی بنک فیڈرل ریزرو معاشی ناہمواری کا ذمہ دار ہے کیوں کہ اس بنک کی پالیسی کی مدد سے امیر امیر تر اور غریب غربت تر ہوتے جارہے ہیں۔ یہی کچھ پاکستان میں بھی ہورہا ہے۔ یہاں بھی بینکنگ سیکٹر تیزی سے ترقی کر رہا ہے لیکن معاشی ناہمواری بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔آئیے ذرا نچلی سطح پہ آ کے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انسان دوست شہر ہے۔ سب کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ جہاں ان گنت فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ کھانا کھلانے پر زور ہے، اس کے باوجود کسی بھی پبلک پلیس پر جائیں سب سے پہلے کانوں کو یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ بھوکا ہوں کھانے کو دے دیں، دعائیں دیں گے۔ اور یہ کسی ایک کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ آپ کسی سے بھی شہری سے پوچھیں گے وہ کراچی شہر میں یہی جواب دے گا کہ کہیں بھی جاو یہ صدا ساتھ نہیں چھوڑتی کہ کھانے کو دے دو۔ کئی دفعہ کہا بھی گیا کہ ہر علاقے میں مین روڈ پہ دسترخوان بچھائے گئے ہیں آپ ہی لوگوں کے لئے وہاں سے کیوں نہیں کھاتے۔ زیادہ تر لوگ جواب نہیں دیتے لیکن ایک دفعہ ایک مانگنے والے نے یہ جواب دیا کہ وہاں کھانا اچھا نہیں ہوتا۔ ۔۔ کئی دفعہ دل نرم ہوا اور کھانا خرید کر دیا تو کھانے کے بجائے تھیلے میں رکھ لیا اور آگے جا کے

بیچ دیا۔ ان سب مانگنے والوں کو پیسہ چاہے ہوتا ہے کھانا نہیں۔اتنی ساری تمہید دراصل اس لئے پیش کی گئی ہے کہ یہ سمجھایا جا سکے کہ غربت میں کمی کے نام پر کئے جانے والے اقدامات سے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں۔ دراصل ان تمام پالیسیوں اور سماجی تنظیموں کا جگہ جگہ دسترخوان سجانے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بھکاریوں اور نشئیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ غربت کی ایک اور وجہ آبادی میں اضافہ گردانہ جاتا ہے۔ یقینا یہ ایک اہم وجہ ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر ذرا سا سوچیں کہ اگر آبادی یا لوگوں کو علم۔و ہنر میں لگانے کی بجائے ان کو ان کے حال پہ چھوڑ دیا جائے گا تو یقینا آبادی وبال بن جائے گی۔ کراچی کی مثال ابھی چل ہی رہی ہے۔ یہاں آپ کو سڑک کے کنارے ہیرونچیوں، افیمچیوں کی پڑی تعداد ملے گی یہ ہر وقت سوتے ہوئے ہی نظر آتے ہیں یا دسترخوان پہ کھانا کھاتے، تیسرا بڑا کام جو یہ کرتے ہیں وہ ہے جتنے بھی شہر میں لوہے لگے ہوئے ہیں ان کو نکال نکال کر غائب کرنا ، گٹروں کے ڈھکن غائب کرنا، پبلک پارکس یا جگہوں کے نلکے غائب کرنا۔ شہر کی مصروف ترین سڑک شاہراہ فیصل تک پہ لگے لوہے کہ جنگلے انہوں نے غائب کردیئے، یقینا ان لوہے کے جنگلوں، گٹر کے ڈھکنوں، اور واش رومز میں لگے نلکوں کا کوئی نہ کوئی خریدار بھی ہے، جس کا کاروبار ہی یہی ہے، (کوئی شک نہیں کہ کباڑ کے کاروبار میں بہت پیسہ)۔ جو ان کو راغب بھی کرتا ہے اور صاف راستہ بھی دکھاتا۔ تو جناب والا پس ثابت ہوا کہ غربت آبادی کو گمراہ کرکے ذاتی مفادات کے کئے خود پیدا کی جاتی ہے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین