• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توشہ خانہ کیس کیا ہے ؟ صرف اتنی سی بات ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے گھڑی خریدی اور اسے فروخت کر دیا ۔ اس سے جو رقم ملی وہ اپنے اثاثوں میں ڈکلیئر کردی مگر الیکشن کمیشن کا اعتراض یہ ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے خریدی ہوئی گھڑی اپنے اثاثوں میں ڈکلیئر نہیں کی ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو چیزفروخت کردی جائے ،اسے کوئی اپنے اثاثوں میں کیسے ڈیکلیئر کرسکتا ہے؟ حیرت ہے اس کیس میں بھی عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے ہیں ۔الیکشن کمیشن اس کیس میں زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہے کہ عمران خان کو نااہل کردے ۔آگے عدالتیں جانیں۔ الیکشن کمیشن کوئی حرف ِ آخر تھوڑا ہے ۔مگر یہ عمران خان کےوارنٹ گرفتاری جاری کرنا اپنی سمجھ میں تو نہیں آتا۔الحمدللہ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں الیکشن کا شیڈول جاری کردیا ہے۔ معاملات کچھ نہ کچھ بہتری کی طرف جانا شروع ہو گئے ہیں مگر سب سے تکلیف دہ علی بلال کی شہادت ہے۔وہ پہلے سے پولیس کے پاس تھا یا آج ہی اس کے سر پر ڈنڈے مار کر اسے شہید کیا گیا ہے۔ ان تمام واقعات کی مکمل تحقیق ہونی چاہئے نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے یہ جو کچھ کہا ہے کہ ’’ آرٹیکل 144 کا نفاذ عمران خان کی ریلی نہیں بلکہ پی ایس ایل کی سیکورٹی کے باعث کیا گیا، ‘‘ یہ بات درست نہیں لگتی۔ اس میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز پر لاہور کے مال روڈ پر تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سےکئے جانے والے احتجاج کی کوریج پر پابندی عائد کیوں کی ؟دوسرا عمران خان اور پی ٹی آئی کے قائدین کے خلاف جو ایف آئی آر اس واقعہ کے حوالے سے درج کی گئی ہے،اس میں لکھا گیا ہے کہ’’پی ٹی آئی کارکنان کو بتایا گیا تھا کہ دفعہ 144نافذ ہے اس کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ زمان پارک میں موجود پی ٹی آئی کے کارکنوں کےلئے دفعہ 144لگائی گئی ۔تیسرا اگر یہ دفعہ ایک سو 144لاہور میں عائد کی تھی تو کرکٹ میچ کا انعقاد کیسے ممکن ہوا؟کیا میچ دیکھنے والے تمام لوگوں نے دفعہ ایک 144کی خلاف ورزی کی ۔ پھر پولیس نے زمان پارک کے باہر موجود کارکنوں پر تشدد کیا اس جگہ سے قذافی اسٹیڈیم کئی کلومیٹر دور ہے ۔لاہور پولیس کے آفیشل ٹویٹ کے مطابق، ’’پی ٹی آئی کے پر تشدد ہنگاموں کے دوران لا اینڈ آرڈر کنٹرول کرتے ہوئے پولیس کےکئی افسر اور اہلکار شدید زخمی ہوئے ہیں ‘‘۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے جائے وقوعہ زمان پارک ہے وہاں پی ٹی آئی کے کارکن پر تشدد ہنگامے کیسے کر سکتے ہیں۔وہ وہاں کافی عرصہ سے مسلسل موجود ہیں اور عمران خان کی گرفتاری کے معاملے میں پولیس اور عمران خان کے درمیان سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں ۔کیا وہاں پولیس عمران خان کو گرفتار کرنے گئی تھی ؟ایسا بھی نہیں ہے ۔ پی ٹی آئی کی ریلی کے خلاف اگرپولیس نے اقدام اٹھایا ہے تو پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان جھگڑا زمان پارک کے علاوہ کہیں اور ہوتا۔ ریلی نکلتی تو پھر پولیس اسے روکتی ۔پولیس تشدد وہاں کیا گیاجہاں سے ریلی کا آغاز ہونا تھا ۔نگران حکومت کواگر کرکٹ میچز کے سبب ریلی کے روٹ سے کوئی مسئلہ تھا تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے ساتھ مذاکرات کرتی اور انہیں ریلی کا روٹ تبدیل کرنے کا مشورہ دیتی ۔پھر الیکشن کے دنوں میں نگران حکومت سیاسی سرگرمیوں کو کیسے محدود کرسکتی ہے ؟ قانونی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی جو لاہور میں سات روز کے لئے جلسے، جلوسوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ، وہ غلط ہے ۔معروف قانون دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ جیسے ہی الیکشن شیڈول کا اعلان ہوا،دفعہ 144خود بخود ختم ہو گئی ہے۔ زمان پارک کے واقعہ میں پولیس کو ’’اعلیٰ‘‘ کارکردگی دکھانے پر شاباش دی گئی ہے ۔ یعنی دال میں کچھ کالا نہیں ، ساری دال ہی کالی ہے ۔عورت مارچ لاہور شملہ پہاڑی سے شروع ہوا۔وہاں بھی دفعہ144عائد تھی مگر الحمدللہ وہاں پولیس نے اسے نافذ کرنے کےلئے تشدد سے کام نہیں لیا۔

اعتزاز احسن نے اس بات پر بھی نہایت افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پولیس نے ایک بچے کو شہید کر دیا انہوں نے مطالبہ کیا جو پولیس والے ویڈیو میں اسے ڈنڈے مارتے نظر آ رہے ہیں انہیں فوری گرفتار ہونا چاہئے۔اس سلسلے میں سب سے دلچسپ ٹویٹ فواد چوہدری کا ہے ، ’’میں دو دن سے اسلام آباد میں ہوں جہاں عمران خان کی سیکورٹی کےلئے پٹیشن دائر کررہے تھے ۔لیکن حالت یہ ہے کہ مجھ پر لاہور میں توڑ پھوڑاور دفعہ144کی خلاف ورزی کا پرچہ کٹ گیا ہے‘‘۔نگران وزیراطلاعات پنجاب عامر میر نے کہا ہے کہ ’’ہم نگران ہیں تو کیا بالکل ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ جائیں‘‘۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ نگراں نگاہ دار کو کہتے ہیں۔یہ لفظ دیکھنے والے کےلئے ، جائزہ لینے والے کےلئے استعمال ہوتا ہے ۔اس میں ہاتھوں اور پائوں کا استعمال درست نہیں ۔میر تقی میرؔ نے کہا تھا

اُس شوق کو ٹک دیکھ کہ چشم نگراں ہے

جو زخم جگر کا مرے ناسور ہوا ہے

عامر میر ایک اچھے صحافی سمجھے جاتے ہیں ۔انہیں اپنے آپ کو اس قدر متنازعہ نہیں بنانا چاہئے ۔ان کے والد گرامی وارث میر کا ایک بڑا نام ہے۔ ان کے بھائی حامد میر بھی ایک بڑی صحافتی شخصیت ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت عامر میر جو کچھ کررہے ہیں وہ درست نہیں ہے ۔ مجھے ڈاکٹر اجمل نیازی کا ایک جملہ یاد آرہا ہے ۔وہ جب گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے تو گورنر ہائوس کے سامنے انہوں نے تقریر کہتے ہوئے کہا تھا ،’’ میں نے دفعہ ایک سو چوالیس کی ایک سو چوالیس کرچیاں کرکے لاہور شہر میں بکھیر دی ہیں‘‘۔

تازہ ترین