• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اس وقت جس معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کا شکا رہے، ماضی میں غالباً یہ صورت حال کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ پاکستانی روپے کی قدر جس تیزی سے ہر دن زوال کا شکار ہو رہی ہے، مہنگائی، بے روزگاری کا یہ بدترین دور پہلی مرتبہ اس ملک کو دیکھنا پڑ رہا ہے۔ سیاسی صورتحال یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی ذاتی خواہش پر پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں مگر کسی بھی سطح پر یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ جو حکومتیں درست انداز میں کام کر رہی تھیں، انہیں وفاقی حکومت کی جانب سے کسی قسم کی مداخلت کا سامنا بھی نہیں تھا، تو پھر انہیں تحلیل کیوں کیا گیا؟ سپریم کورٹ میں اس کیس کا فیصلہ تین دو سے سامنے آیا جس میں پنجاب اور کے پی میں انتخابات90دن میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر نےحق میں فیصلہ دیا، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ معاملہ ہائیکورٹس میں تھا۔ از خود نوٹس جلد بازی میں لیا گیا۔ دونوں فاضل ججوں نے جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے 23فروری کے الگ نوٹ سے اتفاق کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت یہ مقدمہ قابل سماعت ہی نہیں ہے، اس سے قبل جسٹس اعجاز الاحسن اور مظاہر علی نقوی نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اب ان دونوں صوبوں میں صرف چند ماہ کے لئے انتخابات کروائے جائیں گے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پچھلے دس ماہ کے دوران ملک کے دو اہم ترین اداروں افواج پاکستان اور عدالتوں کو جس طرح سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت نے تنقید کا نشانہ بنایا، یہ عمل تو کسی دشمن نے بھی نہیں کیا، عمران خان نے تو ایک نئی روایت متعارف کروا دی ہے کہ عدالتوں میں مقدمے کی سماعت کے لئے جلوس کی شکل میں جایا جائے، اس کا خود عدالتوں کو نوٹس لینا چاہئے یہ روایت چل نکلی تو مستقبل میں ہر مقدمے میں سماعت کے لئے بھاری سیکورٹی تعینات کرنا پڑے گی۔ ہمارے سیاست دانوں کو اس بات کو اہمیت دینا ہو گی کہ وہ انتخابی نتائج کو تسلیم کریں، اگر کوئی شکایت ہے تو عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں جا کر قانونی راستہ اختیار کریں۔ اسمبلیاں اگرتحلیل کرنے یا استعفیٰ دینے کا سلسلہ چل نکلا تو پھر پانچ سال میں صرف ضمنی انتخابات ہی ہوتے رہیں گے، ایک غریب اور قرضوں میں جکڑا ہوا ملک اور اس کی قوم اس سیاسی عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی، پاکستان میں اس وقت معاشی اعتبار سے ایک ہیجانی کیفیت ہے۔ صنعت کار، سرمایہ دار، سرکاری اور نجی ملازمین اور عام شہری پریشان ہیںکہ ملک کا مستقبل کیا ہے؟ آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ خوف، بے یقینی اور عدم اطمینان کی فضا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی بھی اس صورت حال سے شدید پریشان ہیں۔ حکومت کی جانب سے تاحال معیشت کی بہتری کے لئے کوئی ٹھوس اور قابلِ عمل منصوبہ سامنے نہیں لایا گیا۔ پاکستان کی نئی نسل اس وقت بہت مایوس ہے۔ صرف ایک سال میں بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوان جو پاکستان کا اثاثہ ہیں،بیرون ملک چلے گئے، یہ ان کا پاکستان کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان نے پاکستان کے حوالے سے مزید تشویش پیدا کر دی ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہو چکا ہے۔ موجودہ حالات کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ، بیورو کریسی اور سیاستدان ہیں۔ 1500کنال پر قائم گالف کلب کا کرایہ 500روپے، وہاں اشرافیہ شام بسر کرتی ہے۔ دو گالف کلب بیچ دیں تو پاکستان کا ایک چوتھائی قرضہ اتر جائے گا۔ اس وقت ضروری یہ ہے کہ گالف کلب سمیت ایسی تمام املاک جن کا کرایہ بہت کم ہے، ان کے کرایے میں موجودہ حالات کے مطابق اضافہ کیا جائے۔ ساتھ ہی حکومت بیرونی دبائو کے باوجود قوم کو ریلیف دینے کے لئےحکمتِ عملی بنائی جائے۔ بنیادی اشیائے خورو نوش آٹا، گھی، چینی، دودھ، چاول، دال، ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے، عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے سخت ترین مشکلات سے دوچار ہیں مگر انہیں کوئی تسلی دینے والا نہیں ہے۔ عمران خان یا کسی بھی سیاسی جماعت، حکومت کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔ قرضوں کا بوجھ کم کرنے کا کوئی پلان سامنے نہیں لایا جا رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اب غیر ملکی قرضوں کے حصول کے عادی ہو چکے ہیں، کبھی آئی ایم ایف کے در پر تو کبھی عالمی بینک کے سامنے ہاتھ پھیلانا ہی ہمارا فخر بن گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک پالیسی کے تحت ملکوں کو قرضوں کے شکنجے میں پھنسایا جاتا ہے اور پھر مقروض ملک عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہی نہیں رہتے- بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں، قرضوں سے نجات کی اب کوئی امید نظر نہیں آتی۔ قوم کو اس وقت سب سے بڑی فکر اپنے ایٹمی اثاثوں کی ہے جن کو رول بیک کرنے کے لئے بیرونی دبائو ڈالا جا سکتا ہے، ہمیں اس حوالے سے کسی بھی قسم کے دبائو کے سامنے سر نہیں جھکانا۔ پاکستان دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں شامل ہے اور رہے گا۔ کئی ملکوں کی جن میں امریکہ، اسرائیل، بھارت اور یورپ کے بعض ممالک شامل ہیں، کوشش ہے کہ معاشی دبائو بڑھا کر ہمیں نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا جائے جو پاک فوج اور عوام کو کسی صورت قبول نہیں ہو گا۔ موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں ملک کو اس ہیجانی صورتحال سے نکالنے کے لئے تمام اختلافات بھلا کر یکجا ہو جائیں۔

تازہ ترین