زلمے خلیل زاد سے پہلی ملاقات نائن الیون سے دو ماہ قبل امریکہ میں ہوئی تھی۔
پاکستانی اور افغان صحافیوں کا ایک وفد امریکہ کے دورے پر گیا تھا جس کا میں بھی حصہ تھا۔ رحیم اللّٰہ یوسفزئی مرحوم جو ہمارے وفد کے قائد تھے، نے بتایا کہ زلمے خلیل زاد امریکہ میں نہایت اہم آدمی ہے ان سے ملاقات کرنی چاہئے۔
ہم میں سے اکثر ساتھیوں نے اس ملاقات سے نہایت برا تاثر لیا کیونکہ ہم جتنے بھی امریکیوں سے ملے تھے، ان میں سب سے خراب رویہ زلمے خلیل زاد کا تھا۔وہ پشتو اور دری زبانیں بھی بول سکتے ہیں اور ہم نے بار بار ان سے پشتو میں بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے جواب میں ایک لفظ بھی پشتو کا نہیں بولا اور امریکی اسٹائل میں انگریزی بولتے رہے۔ ان کی ہر بات سے پاکستان سے نفرت جھلک رہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان سے متعلق امریکی اور افغانی غصہ ان کی ذات میں یکجا ہوگیا ہے۔
نائن الیون کے بعد زلمے خلیل زاد مزید منظر عام پر آگئے اور تب سے اب تک میں ان کی سرگرمیوں اور بیانات کا غور سے جائزہ لیتا رہتا ہوں۔
خلیل زاد بنیادی طور پر پختون افغان ہیں لیکن ان کی پیدائش ازبک شہر مزارشریف میں ہوئی۔ وہ اسکالرشپ پر تعلیم کیلئے امریکہ گئے اور پھر امریکہ ہی کے ہوکر رہ گئے۔
شگاگو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے بعد وہ مختلف حیثیتوں میں امریکی محکمہ ٔدفاع اور محکمۂ خارجہ کے لئے کام کرتے رہے۔ عمل کے لحاظ سے وہ سرتاپا امریکی ہیں اور مسلمان ہونے کے ناتے انہیں زیادہ تر مسلمان ممالک سے متعلق امریکی پالیسی سازی یا پھر وہاں پر امریکی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔
انہوں نے امریکی مفادات کے حصول میں اس قدر بنیادی کردار ادا کیا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (وزارت خارجہ) سے وابستہ ہونے کے باوجود انہیں سیکرٹریز دفاع (گیٹ، ڈونلڈ رمسفیلڈ اور ڈک چینی) نے ڈیفنس میڈلز سے نوازا۔
بعض رپورٹس کے مطابق صدر منتخب ہونے کے بعد صدر بش انہیں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بھی بنانا چاہ رہے تھے لیکن پھر کسی وجہ سے کونڈولیزا رائس کا پلڑا بھاری ہوگیا۔
طالبان کے خلاف امریکی حملے سے قبل اور اس کے بعد وہ ہمہ وقت امریکی انتظامیہ پر زور ڈالتے رہے کہ طالبان کے خلاف کارروائیوں سے زیادہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد وہ یہاں امریکہ کے سفیر مقرر کئے گئے لیکن عملاً ان کی حیثیت وائسرائے کی تھی۔ طالبان اور پاکستان سے متعلق ان کا رویہ اس قدر جارحانہ تھا کہ ان کے حامد کرزئی سے بھی شدید اختلافات پیدا ہوئے۔
خلیل زاد جیسے لوگوں کے مشورے پر ایک طرف گوانتاناموبے اور بگرام جیسے عقوبت خانے قائم کئے گئے اور دوسری طرف امریکی رات کو گھروں میں گھس کر کارروائیاں کرتے رہے جس کی حامد کرزئی مخالفت کرتے رہے۔ یہاں پر امریکی پنجے گاڑنے کے بعد جب امریکہ عراق پر حملہ آور ہوا تو اس کے لئے گراں قدر خدمات کی وجہ سے انہیں وہاں امریکہ کا سفیر مقرر کردیا گیا۔
2005سے 2007 تک وہ عراق میں سفیر رہے اور یہاں پر امریکی مقاصد پورے کرنے کے بعد انہیں 2007 میں اقوام متحدہ میں امریکہ کا مندوب مقرر کیا گیا۔
وہ پہلے مسلمان تھے جنہیں اتنے اہم عہدے پر تعینات کیا گیا کیونکہ امریکہ کے لئے ان کی خدمات کسی بھی امریکی سے کم نہیں تھیں ۔ مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی کی تشکیل میں بھی ہمہ وقت خلیل زاد کا ان پٹ شامل رہا اور ساتھ ساتھ انہوں نے رینڈ (RAND) کے لئے بھی کئی پیپرز لکھے۔
وہ کٹر ری پبلکن ہیں جب کہ ری پبلکنز میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر اور نیوکانز کا حصہ تصور کئے جاتے ہیں۔ وکی پیڈیا میں ان کے تعارف میں انہیں نیوکانز قرار دیا گیا ہے ۔
زلمے خلیل زاد کی آخری سرکاری ذمہ داری طالبان کے ساتھ دوحہ مذاکرات کے لئے امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی کی تھی اور اس کے لئے سی آئی اے، پنٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بھی صدر کے حکم پر ان کا ماتحت کردیا گیا تھا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکیوں کے ہاں ان کی کیا اہمیت ہے۔
وہ واحد ری پبلکن تھے جنہیں ڈیموکریٹ صدر جوبائیڈن نے حکومت کی تبدیلی کے بعد طالبان کے ساتھ ڈیل کو منطقی انجام تک پہنچانے تک انہیں اس عہدے پر برقرار رکھا۔
اس وقت سرکاری طور پر ان کے پاس کوئی عہدہ ہے اور نہ پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ ان کا کوئی سروکار ہے لیکن حیرت انگیز طور پر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے کچھ عرصہ بعد وہ خفیہ دورے پر پاکستان آئے اور بنی گالہ میں عمران خان سے تین گھنٹے پر محیط ون ٹو ون ملاقات کی۔
عمران خان کے علاوہ وہ جس دوسرے فرد سے ملے وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے اور اس ملاقات میں انہوں نے ان پر زور دیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ صلح کرلیں۔
بعدازاں ٹیلی فونک رابطہ کرکے وہ جنرل باجوہ کو عمران خان کے ساتھ ملاقات کیلئے قائل کرتے رہے اور ایوان صدر میں دونوں کی جو ملاقات ہوئی تھی وہ بنیادی طور پر زلمے خلیل زاد کی کوششوں سے ہوئی تھی۔
میں نے 24ستمبر 2022کو باجوہ عمران ملاقات سے متعلق جو کالم لکھا تھا اس میں بھی اس بات کا ذکر کیا تھا۔ وہ کالم اس لنک
https://jang.com.pk/news/1139490
پر کلک کر کے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے لیکن اب درپردہ کردار ادا کرنے کی بجائے زلمے خلیل زاد عمران خان کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ہیں اور ان کے حق میں ایسی ٹویٹ کی کہ جیسے وہ زلمے خلیل زاد نہیں بلکہ علی امین گنڈاپور ہوں۔
عمران خان کہا کرتے تھے کہ ان کی حکومت امریکہ نے گرائی ہے لیکن ان کی حمایت میں کھل کر چین یا روس کا نہیں بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا اہم کردار سامنے آیا۔
عمران خان کہتے ہیں کہ وہ عالم اسلام کے لیڈر ہیں۔ ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور عالم اسلام کے مفادات کی خاطر امریکہ کو آنکھیں دکھائیں لیکن دوسری طرف عالم اسلام میں امریکی مفادات کے سب سے بڑے محافظ زلمے خلیل زاد ان کے لئے سب سے زیادہ پریشان ہیں۔
گوانتاموبے، ابو غریب اور بگرام کے عقوبت خانوں میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم کی وکالت کرنے والے زلمے خلیل زاد کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی والوں کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔
اب کیا یہ بات معاملے کی حقیقت کو سمجھنے کے لئےکافی نہیں لیکن حقیقت سمجھنے کےلئے عقل کا استعمال ضروری ہے اور بدقسمتی سے ہم پاکستانی عقل کو زحمت دینے کے زیادہ روادار نہیں۔