دنیا مکافات عمل کا نام ہے۔انسان جو بوتا ہے ،وہی کاٹتا ہے۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ اگر یہ کرسی اتنی مضبوط ہوتی تو تم تک کیسے پہنچتی۔آج سے ٹھیک چار سال پہلے عمران خان اپنے مخالفین کو مٹانے کا دعویٰ کرتے تھے۔عمران خان کے فیض اور ریاستی طاقت کے سامنے شریف خاندان بے بس نظر آتا تھا۔شریف خاندان اور آصف زرداری کے گھر کی خواتین کو بھی انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا گیا۔ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے،شاید میڈیا کے حلقوں کی اکثریت ان کے ناموں سے بھی واقف نہ ہو۔ایسی گھریلو خواتین کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کروائے گئے،انہیں اشتہاری قرار دلوایا گیا۔مگر پھر وقت تبدیل ہوا۔نیب اور عمران حکومت کے انتقام کا مقابلہ کرنے والے شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے۔آج تحریک انصاف کے بدترین سیاسی مخالف اقتدار میں ہیں۔پی ڈی ایم جماعتوں پر مشتمل حکومت عمران کے حوالے سے وہی خواہش رکھتی ہے،جو کبھی عمران خان کی بطور وزیراعظم ان کے بارے میں ہوا کرتی تھی۔آج عمران خان کے سیاسی وجود کو مٹانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔وقت بہت تیزی سے بدلا ہے۔مگر موجودہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت میں باصلاحیت اور بہادر لوگوں کی شدید کمی ہے۔منزلیں ہمیشہ بہادروں کا استقبال کرتی ہیں،کمزوروں کو تو راستے کا خوف ہی مار دیتا ہے۔گزشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان سےجو مذاق کیا گیا،اس کی قیمت پاکستان کےغریب عوام نے چکائی ہے۔2017کا پاکستان تیزی سے ترقی کررہا تھا،سی پیک اپنے عروج پر تھا،ملک میں پیسے کی فراوانی تھی۔پاکستان نے پہلی مرتبہ کامیابی سے آئی ایم ایف کوخیر باد کہا تھا۔ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا تھا۔مگر پھر باجوہ ڈاکٹرائن کا آغاز ہوا۔ترقی کرتا ہوا پاکستان جلد انتشار کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔نوازشریف کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے سب سے پہلے ان کی سیاسی ساکھ کو متاثر کیا گیا۔چور،چور کا بیانیہ بنا کر پانامہ جے آئی ٹی کے ذریعے انہیں بزور طاقت چور ثابت کیا گیا۔اس سارے کھیل میں پاکستان کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ پیش پیش تھی۔ترقی کے راستے پر تیزی سے گامزن پاکستان کوپٹڑی سے اتار دیا گیا۔جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید نے پورے طمطراق کے ساتھ عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بٹھایا۔انہیں مسیحا بنا کر پیش کیا گیا۔عدالتوں سے ان کیلئے من پسند فیصلے کرائے گئے۔ججز کی ذہن سازی کرکے انہیں عمران کا حامی بنایا گیا۔جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو دھمکیاں دی گئیں۔جہاں اپوزیشن کے اہم رہنما کا کیس لگتا تھا ،فیض حمید اور ان کا ادارہ اسی عدالت کے ارد گرد نظر آتا تھا۔جنرل باجوہ اور فیض حمیدعمران خان کی حکومت کو عملی طور پر خود چلاتے رہے مگر جب عمران خان کی کشتی کو ڈوبتے دیکھا تو باہر چھلانگ لگادی اور پی ڈی ایم کی قیادت کی مہربانی کی وجہ سے دوسری سائیڈ پر آکھڑے ہوئے۔اپنا دامن اس خوبصورتی سے جھاڑا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔آج جنرل(ر) باجوہ اور فیض حمید کی ریٹائر منٹ کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ موجودہ حکومت کیساتھ نظر آتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے زعمانجی محفلوں میں دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان نے پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا ہے۔چین ،ترکی او ر سعودی عرب سے برسوں پرانے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔اگر ہم موجودہ حکومت کی سپورٹ سے پیچھے بھی ہٹ جائیں مگر پاکستان کے برادر ممالک عمران خان کو پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔اس لئے عمران خان کا دوبارہ اقتدار میں آنا پاکستان کے مستقبل کیلئےایک بھیانک خواب ہوگا۔لیکن حقائق یہ ہیں کہ طاقتور حلقوں کی ان باتوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑرہا۔عوام کی اکثریت آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔اعلیٰ عدلیہ کے ججز بھی اسی بنا پر عمران خان کے ساتھ ہیں،جو ان کے دلوں میں اسٹیبلشمنٹ نے ہی پیدا کی تھی۔آج اسٹیبلشمنٹ کے پاس دو راستے ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ اگر مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمان چور اور اس ملک کے دشمن تھے تو انہیں فیض اور باجوہ ڈاکٹرائن نے ٹھیک اقتدار سے نکالا تھا اور انہیں اب کسی بھی صورت اقتدار میں نہیں آنا چاہئے تھا۔لیکن اگر عمران خان پاکستان کی بدحال معیشت اور بدترین بدانتظامی کا ذمہ دار ہے تو پھر اسے جس طرح سے اقتدار میں لایا گیاوہ سب کردار آج کے حالات کے ذمہ دار ہیں۔ترقی کرتے ہوئے پاکستان کو جس طرح سے 2017میں ٹریک سے اتارا گیا،وہ تمام ججز اور تمام طاقتور حلقے جنہو ں نے عمران خان کی سہولت کاری کی،آج کے مسائل کے ذمہ دار اور قومی مجرم ہیں۔جب تک اسٹیبلشمنٹ بند کمروں سے باہر نکل کر برملا اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرے گی اور ان تمام کرداروں کو خود کٹہرے میں کھڑا نہیں کرے گی،جنہوں نے پاکستان کو اس حال تک پہنچایا ہے ،تب تک عوام کا یہ بخار ختم نہیں ہوگا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ نے مزید چند ماہ اپنی ہومیوپیتھی پالیسی جاری رکھی تو جلد وہ صورتحال پیدا ہوجائے گی کہ آگے کنواں ہوگا اور پیچھے کھائی۔اگر عمران کے معاملے میں ادارے نے غلطی کی اور ملک کی عدلیہ، بیوروکریسی اور عوام کی اکثریت کو غلط ٹریک پر ڈالا تو سامنے آکر اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں،قوم نے ہمیشہ آپ کی غلطیوں کو معا ف کیا ہے ،ایک غلطی اور سہی سمجھ کر معاف کردیں گے اور اگر عمران خان کو لانے کا فیصلہ صحیح تھا تو پھر موجودہ حکومت کی سپورٹ بند کر دیں۔ لیکن آج آپ کو ایک فیصلہ کرنا ہے،وگرنہ بہت دیر ہوجائے گی۔