ہر زمانہ ،گزرے زمانے سے مختلف ہوتا ہے، جو معاشرے کے سوچنے سمجھنے کے اندازیک سر بدل کے رکھ دیتا ہے۔ وقت کے ساتھ ہمارا نظریہ، انداز، طور طریقے، کئی روایات بھی تبدیل ہوجاتی ہیں، لیکن جانے کیوں جب عورت کی بات آتی ہے، تو ہماری سوچ جیسے ساکن ہو کررہ جاتی ہے۔یعنی آج بھی ہمارے معاشرے کےاکثر افراد خواتین کے لیے محدود، گزرے زمانے کی سوچ ہی رکھتے ہیں۔ آج بھی بہت سے لوگوں کو یہی لگتاہے کہ عورت کا وجود گھر ، شادی اور بچّوں ہی تک محدود رہنا چاہیے۔
ہاں، اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ زمانے میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیا جاتا ہے، اس رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے، لیکن جب اس کے معاشی طور پر مستحکم ہونے کی بات ہوتی ہے، تو اس پر ہزار طرح کی پابندیاں، رکاوٹیں اور قد غنیں لگا دی جاتی ہیں۔ گویا 21 ویں صدی کے 23 ویں سال بھی لوگوں کی سوچ اس قدر محدود ہے کہ اُنہیں خواتین کا خود مختار، اپنے پَیروں پر کھڑاہوا، مضبوط و مستحکم کہلانا اچھا نہیں لگتا بلکہ گراں گزرتا ہے۔لیکن سچ یہ ہے کہ آج کے معاشرے کو ایک مضبوط و مستحکم عورت کی اشد ضرورت ہے، جو مَرد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کے کھڑی ہوسکے، اس کا ہاتھ بٹا سکے۔ معاشرے کو ایسی عورت کی ضرورت ہے، جو نہ صرف اپنے حقوق سے آشنا ہوبلکہ اُسے ان کے لیے لڑنا بھی آتا ہو۔
خواتین کے عالمی کے دن کے موقعے پر معاشرے میں مساوات کے فروغ کے لیے او آئی سی سی آئی اور ایک کثیر القومی کمپنی کی جانب سےایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جو پینل ڈسکشنز اور مینٹورنگ سیشنزپر مشتمل تھی۔ تقریب میں پاکستان بَھر سے کارپوریٹ اور اسٹارٹ اَپ دنیا کے لیڈرز(مَرد و خواتین) کو اظہارِ خیال کا موقع دیا گیا۔
اس موقعے پر کارپوریٹ دنیا سے تعلق رکھنے والی خواتین رہنماؤں نے دیگر خواتین کے ساتھ اپنے تجربات بھی شیئر کیے اور انہیں بزنس ٹِپس بھی دیں۔پروگرام کے کلیدی اسپیکرز میں او آئی سی سی آئی کے صدر اور ملٹی نیشنل کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر، عامر پراچہ، او آئی سی سی آئی کے نائب صدر اور نجی بینک کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر، ریحان شیخ، ٹی سی ایف کے بانی، مشتاق چھاپرا، ایک نجی ٹیک کمپنی کی بانی اور سی ای او، صدف عابد ،ٹی وی میزبان اور کنسلٹنٹ، سدرہ اقبال اور دیگر شامل تھے۔
مقرّرین نے مختلف پینلز میں ڈیجیٹل دَور میں خواتین کو میسّر مواقع کی وسعت کے حوالے سے بات کی۔ اس موقعے پر عامر پراچہ نے کہاکہ ’’خواتین کو اجتماعی اور انفرادی مساوات کے درمیان فرق کی پہچان ہونی چاہیے تاکہ وہ مستقبل میں اپنے بیانیے اور کیریئر کو نئی شکل دے سکیں۔ اب ہماری خواتین نہ صرف کارپوریٹ دنیا بلکہ انٹرپری نیورشِپ کے میدان میں بھی قدم جمارہی ہیں۔‘‘ صدف عابد نے خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے اپنے ادارے میں ٹیکنالوجی کے سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ’’گرچہ اب معاشی میدان میں خواتین بھی آگے آرہی ہیں، لیکن یہ رفتار کافی سُست ہے۔
ہمیں اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ خواتین کو آگے آنے سے کیا چیز روک رہی ہے، اس حوالے سے جرأت مندانہ گفتگو بھی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسائل کا حل نکل سکے اور صرف چند خواتین نہیں، ہم سب مل کر ترقّی کرسکیں۔ نیز، لڑکیوں اور خواتین کی انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل خواندگی تک رسائی ناگزیر ہے۔‘‘ تقریب کے اختتام پر ریحان شیخ نے کہاکہ ’’مساوات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے پبلک، پرائیویٹ پارٹنرشِپ کی بھی اشد ضرورت ہے۔‘‘