برادر ہمسایہ ملک چین اپنے اندازِ سفارت کاری کی بدولت پوری دنیا میں ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اس کی سفارتکاری کا ایک اہم پہلو خاموشی ہے۔ نہ تو وہ سفارتی عمل سے قبل شور مچاتا ہے اور نہ ہی سفارتی عمل کی تکمیل کے بعد غوغا بلند کرتا ہے۔ ایک طرف سی پیک کے ذریعے چین نے وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت دنیا کے ایک بہت بڑے خطے کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے تو دوسری طرف مختلف عالمی تنازعات میں مثبت کردار ادا کرکے عالمی سیاست کے میدان میں ایک بڑا کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔7دسمبر 2022ء کو چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا جسے عرب میڈیا میں نمایاں کوریج ملی۔ دوسری طرف سعودی عرب کے کرائون پرنس محمد بن سلمان سعودی عرب کو اقتصادی طاقت بنانے اور اس کا ایک نیاچہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئےکوشاں ہیں۔ ولی عہد کے ویژن 2030ء کے تحت سعودی عرب اپنے تمام تنازعات سمیٹ کر ساری توجہ اقتصادی ترقی پر مرکوز کر رہا ہے۔ اس ویژن کے حامل رہنما کیلئے دنیا کے باہم متحارب ممالک سے تعلقات استوار کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔
انہوں نے قطر سے خراب تعلقات کو ٹھیک کیا اور عالمی فٹبال کپ کا میچ دیکھنے کیلئے قطر چلے گئے۔ ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات کو محمد بن سلمان نے ایک نئی جہت دی ہے اور ترکی میں پانچ بلین ڈالر کا ڈیپازٹ رکھا۔ اس اقدام کے جواب میں ترکی نے عربوں کے مقابلے میں ایک متوازی اسلامی بلاک بنانے کی کوششیں ترک کرتے ہوئے عرب دنیا کیساتھ تعلقات بہتر کئے۔ سعودی عرب اور چین کی طرح ایران میں بھی نئے رجحانات کی حامل حکومت منتخب ہوئی جسے ایران کے روحانی سربراہ علی خامنہ ای کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔14فروری 2023ء کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا ایک اہم دورہ کیا۔اس دورہ کے دوران کئی اقتصادی اور سیاسی فیصلے کئے گئے۔ اس پس منظر میں سعودی عرب اور ایران تنازعہ کا خاتمہ ایک اہم عالمی پیش رفت ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کی سینکڑوں سال پرانی تاریخ ہے تاہم ان تعلقات میں آخری بڑا بگاڑ 2016ء میں آیا اور دونوں ملکوں کےسفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔ تاہم پرنس محمد بن سلمان نے ویژن 2030ءکے تحت ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا اور 2021ء میں عمان اور عراق کے تعاون سے سعودی عرب اور ایران کے مابین مذاکرات کے پانچ دور ہوئے۔ بعد میں چین نے دونوں ممالک کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
تاریخی طور پر سعودی عرب امریکی کیمپ کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں امریکی فوجی اڈے بھی موجود ہیں لیکن چین کی طرف سعودی عرب کا جھکائؤ اور حالیہ معاہدے نے سعودی عرب کی نئی ترجیحات واضح کر دی ہیں۔10مارچ 2023ء کو چین میں سعودی عرب اور ایران کے مابین مذاکرات کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ عین اس دن جاری کیا گیا جب چینی صدر کے تیسرے صدارتی دور کے آغاز کا پہلا دن تھا۔ اس دن کے انتخاب نے چینی عزائم کو بھی واضح کردیا کہ آنے والے پانچ برسوں میں چین تمام عالمی تنازعات میں ایک مثبت ثالث کا کردار ادا کریگا۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک دو ماہ کے اندر سفارت خانے دوبارہ کھولیںگے اور ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے۔ حالیہ معاہدے کے مطابق سعودی عرب اور ایران1998ء میں ہونیوالے اقتصادی معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنائینگے اور2001 ء کے سیکورٹی معاہدے پر بھی عمل کرینگے۔ مذاکرات کے تینوں فریق یعنی سعودی عرب، ایران اور چین نے علاقائی اور عالمی امن کیلئے تمام کوششیں بروئے کار لانے کا عزم بھی کیا۔ اس معاہدے کے بعد، سعودی عرب اور ایران کے مابین تنازعے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں تشویش اور تنائؤ کا خاتمہ ہوگا۔ خطے میں امن نمو پذیر ہوگا۔ ایران بھی اپنے اقتصادی حالات بہتر کرنے کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اس اہم معاہدے پر امریکہ نے اگرچہ ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے تاہم یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین نے پہلی مرتبہ کسی عالمی تنازعے پر بلا معاوضہ ثالثی کر کے امریکی اقتدار کو چیلنج کیا ہے۔ چین نے اس صلح کے عوض نہ تو فوجی اڈے طلب کئےہیں اور نہ ہی کسی ملک کو مجبور کیا کہ وہ اس سے اسلحہ خریدے جس سے چین کے عالمی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے مابین صلح سے پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران اور پاکستان کے مابین تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کا خاتمہ ہوگا اور پاکستان کے داخلی حالات میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔ عالمی سطح پر ہونیوالی اس پیشرفت سے تبھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب پاکستان میں ایک مستحکم سیاسی حکومت قائم ہو۔ موجودہ حکومت کی سفارتی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اتنے اہم مذاکرات میں پاکستان کو سرے سے اعتماد میں ہی نہیں لیا گیا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران چین اور سعودی عرب کا رویہ بھی موجودہ حکمرانوں کیلئے غور طلب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں میں اپنا کردار برقرار رکھنے کیلئے ایک مستحکم سیاسی حکومت وجود میں آئےاور عمران خان جیسا مقبول لیڈر اس حکومت کی سربراہی کرے۔ ورنہ عالمی تنازعات میں بونے سیاسی لیڈروں کی کوئی وقعت نہیں ہوا کرتی۔