سکھر( بیورو رپورٹ،چوہدری محمد ارشاد) ضلع سکھر میں اتائی ڈاکٹروں کا دھندا تیزی سے فروغ پارہا ہے، محکمہ صحت کی غفلت ، لاپرواہی یا پھر پشت پناہی کے باعث ضلع بھر میں سیکڑوں اتائی ڈاکٹر لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں، صرف صالح پٹ ، روہڑی اور پنو عاقل تعلقوں میں دوسو سے زائد اتائی ڈاکٹر اطمینان سے اپنے کلینک چلا رہے ہیں۔ صالح پٹ ، روہڑی اورپنو عاقل کے دیہی علاقوں اور سکھر شہر کے نواحی علاقے بچل شاہ میانی میں اکثر وبیشتر غلط ادویات دیئے جانے یا غلط انجکشن لگائے جانے سے اموات بھی سامنے آئی ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروا ئی نہیں کی گئی۔ کھلے عام مریضوں کو ڈرپ چڑھائی جاتی ہے ، مریضوں کو چیک اپ کے بعد اتائی ڈاکٹر ان کمپنیوں کی ادویات لکھ لکھ کر دے رہے ہیں جن کمپنیوں سے ان اتائی ڈاکٹروں کو مراعات اور تحائف مل رہے ہیں لیکن محکمہ صحت سکھر نے اپنی دونوں آنکھیں بند کررکھی ہیں اور ضلعی ہیلتھ آفیسر سمیت دیگر متعلقہ افسران سب کچھ ٹھیک ہے کی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ، سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے دیہی علاقوں میں اتائی ڈاکٹروں کا راج ہے، ضلع کے دیہی علاقوں سمیت سکھر شہر کے مختلف علاقوں میں بھی اتائی ڈاکٹر کھلے عام انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں لیکن متعلقہ ادارے کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جارہی، گزشتہ سال ڈپٹی کمشنر سکھر شہزاد فضل عباسی اور اس وقت کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر حضور بخش تنیو نے اتائی ڈاکٹروں کے خلاف شہر سمیت ضلع بھر میں گرینڈ آپریشن شروع کیا تھا اور متعدد اتائی ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی تھی، کارروائی کے خوف سے کئی اتائی ڈاکٹر اپنی کلینکیں بند کر کے راہ فرار اختیار کرگئے تھے لیکن ڈپٹی کمشنر شہزاد فضل عباسی کے تبادلے اور ڈی ایچ او حضور بخش تنیوکے ریٹائرمنٹ کے بعد اتائی ڈاکٹروں کے خلاف جاری آپریشن سرد خانے کے نذر ہوگیا اور ایک مرتبہ پھر سکھر شہر سمیت ضلع بھر میں اتائی ڈاکٹروں نے اپنا راج قائم کر لیا، ضلع کے دیہی علاقوں میں ڈاکٹر بڑی تعداد میں کلینکس اور اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی اکثریت کو ڈرپ لگاتے ہیں کیونکہ بعض ڈاکٹروں کے مطابق کہ ڈرپ لگانے سے ان کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے ، مریض کو یہ تاثر دیاجاتا ہے کہ ڈرپ لگنے کے بعد اس میں جسمانی طور پر طاقت آئے گی اور بڑی حد تک بیماری بھی ختم ہوجائے گی،یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں اتائی ڈاکٹروںاکثر کلینکس پر صبح سے شام گئے تک مریض چارپائیوں پرلیٹے ہوتے ہیں اور انہیں ڈرپ لگی ہوئی ہوتی ہے، محکمہ صحت کے ضلعی افسر نے کبھی ان علاقوں میں جاکر اتائی ڈاکٹروں کے کلینکس کا نہ تو دورہ کیا ہے نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کھلے عام چلنے والے اتائی ڈاکٹروں کے ان کلینکس پر کس طرح لوگوں کو موت بانٹی جارہی ہے، سکھر شہر اور تمام دیہی علاقے اتائی ڈاکٹروں کی چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، بعض اتائی ڈاکٹروں نے اپنے کلینک اس طرح سجا اورسنوار کر رکھے ہیں کہ ان کو دیکھ کر کسی کو یہ شبہ ہی نہیں ہوسکتا کہ اس کلینک میں علاج کرنیو الا ایک معمولی کمپوڈر یا اتائی ڈاکٹر ہے جو مختلف جعلی ڈگریوں کے نام سے لوگوں کو لوٹ رہا ہے، ضلع سکھر میں ایک جانب دیہاتی اتائی ڈاکٹروں کے تجربات کا شکار ہورہے ہیں۔ حکومت محکمہ صحت کی بہتری اور سرکاری اسپتالوں میں جدید طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے دعوے کرتی نہیں تھکتی لیکن عملی طور پر اقدامات دکھائی نہیں دیتے جس کی واضح مثال سکھر ضلع میں اتائی ڈاکٹروں کی بھرمار ہے ، ان اتائی ڈاکٹروں کے خلاف اگر محکمہ صحت یا کوئی متعلقہ ادارہ کارروائی نہیں کرتا تو آخر حکومت کو ہی کچھ کرنا چاہیئے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو ان اتائی ڈاکٹروں سے بچایا جا سکے۔