پروفیسر خالد اقبال جیلانی
رمضان المبارک کا مہینہ اہلِ ایمان کے لئے سراپا رحمت ہے ، یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ اس ماہِ مبارک میں ہر مومن اپنی استعدادِ اعمالِ خیراور وسعتِ ظرفِ روحانی کے مطابق اللہ کے نازل کردہ انوار و برکات سے اپنی عبادات کے ذریعے مستفیض ہوتا ہے۔ اس مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا یہ ہے کہ ایمان والوں کو کسی قدر متنوع اور مختلف عبادات کے ذریعے روحانی ترقی، نجاتِ اخروی اور اُن کے لئے اپنی رضاجوئی اور خوشنودی کا پروانہ عطا فرمائے۔
ایمان والے اس مبارک مہینے کی مختلف النوع اور ہمہ جہت عبادات و ریاضات کے اہتمام کے ذریعے اپنے خالق کا بے انتہا تقرب حاصل کر لیتے ہیں۔ اور اپنے روحانی سفر کی ان تمام منزلوں کو بیک جست طے کر لیتے ہیں، جنہیں وہ سال کے بقیہ گیارہ مہینوں میں دنیا کی مادی مصروفیات میں منہمک ہونے کی وجہ سے حاصل کرنے کی سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اس ماہ مبارک کی متنوع اور ہمہ پہلو عبادات میں سے ایک اہم ترین، مخصوص اور مہتم بالشان عبادت ، نماز ِ تراویح ہے۔ دن کا روزہ اور رات کی تراویح رمضان کی دو اہم اور کلیدی عبادات ہیں۔ یعنی جہاں دن میں روزے کا اہتمام کیاجائے ،وہاں رات کو تراویح کا بھی التزام رکھا جائے ۔ روزہ اور تراویح کی اسی اہمیت و افادیت اور لازم و ملزدم حیثیت کو اجاگر کرنے کے لئے دو ہم وزن الفاظ ’’صیام و قیام‘‘ کا احادیث میں استعمال کیا گیا ۔ صیام یعنی روزے اور قیام یعنی تراویح ،گویا کہ روزہ اور تراویح دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
لہٰذا اس اعتبار سے تراویح روزے کا جزوِ لاینفک ہے۔ اگر غور کیا جائے تو رمضان المبارک کی ساری رحمتوں ، مغفرتوں ، برکتوں ، سعادتوں ، نورانیت اور چکا چوند کا تصور ان دونوں عبادتوں کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ زیرنظر سطور میں تراویح کی اسی شرعی اہمیت و فضیلت اور اس کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی کوتاہیوں اور سستی کی نشان دہی ہمارا موضوع بحث ہے۔
اس وقت ہمارا موضوع بحث تراویح کی رکعتوں کی تعداد سے متعلق مسلکی اور فقہی اختلافات نہیں ہیں، بلکہ ہم تراویح کی متفق علیہ مسنونیت اور فضیلت پر گفتگو کر رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ، خلفائے راشدینؓ و صحابہ کرامؓ کے زمانہ اقدس سے ہر زمانے اور عہد میں رمضان المبارک میں تراویح کا اہتمام تواتر و تسلسل کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے او ر تراویح کے سنتِ موّکدہ ہونے پر امت کا اجماع رہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے متعدد احادیث مبارکہ میں تراویح کے فضائل و برکات اور اہمیت روایت کئے گئے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں ایمان و یقین کے ساتھ قیام کرے (نماز تراویح ادا کرے ) تو اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ ’’(ریاض الصالحین) حضرت ابوہریرہؓ ہی سے ایک دوسری روایت اس طرح منقول ہے ’’رسول اللہ ﷺ ہمیں رمضان کی راتوں میں قیام کرنے یعنی تراویح کی خوب ترغیب دیا کرتے تھے۔‘‘ (ریاض الصالحین)
رسول اللہ ﷺ نے رمضان کی راتوں میں تراویح کا مکمل و ہمیشہ تو اہتمام نہیں فرمایا۔ صرف چند راتوں میں آپ کی حیاتِ مبارکہ میں تراویح کی ادائیگی کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی توجیہ حضرت زید بن ثابتؓ سے یوں مروی ہے کہ ’’آپ ﷺ نے جب تراویح کے حوالے سے صحابۂ کرامؓ کا ذوق و شوق اور نمازِ تراویح میں ان کی کثیر تعداد میں شرکت دیکھی تو آپ ﷺ کو تراویح کی فرضیت کا اندیشہ ہوا، اور ہم سے فرمایا کہ اگر تم پر نماز تراویح فرض کی دی گئی تو تم اسے ادا نہیں کر سکو گے۔‘‘ لہٰذا آپ ﷺ نے تراویح کی جماعت میں اپنی شمولیت ترک کر تے ہوئے صحابہؓ سے فرمایا کہ تم اسے گھروں پر ادا کیا کرو‘‘۔ (مشکوۃ شریف)
آپ کی اس ممانعت کے بعد صحابہ کرامؓ انفرادی طور پر نمازِ تراویح ادا کرتے رہے، ایک بار آپ ﷺ نے مسجد نبوی میں چند صحابہ کرام ؓ کو حضرت ابی بن کعب ؓ کی امامت میں تراویح ادا کرتے ملاحظہ فرمایا تو اس پر اپنی خوشی کا اظہارفرمایا اور صحابہؓ کی اس جماعت کی تعریف و تحسین فرمائی۔‘‘ (حیات الصحابہ ، ج 3، ص 219) اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں مسجد نبوی میں یہ مناظر ملاحظہ فرمائے کہ صحابہ کرامؓ مختلف مختصر مختصر ٹولیوں کی شکل میں با جماعت نماز تراویح ادا فرما رہے ہیں ، جس سے مختلف ائمہ کی آوازیں آپس میں ٹکرانے سے مسجد میں شور شرابے کی سی کیفیت ہے تو حضرت عمرؓ نے صحابہ ؓکی ان مختلف جماعتوں کو ایک بڑی جماعت کی شکل میں جمع فرمادیا۔
جن کی امامت حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ۔ تمام جید صحابہ کرام ؓنے حضرت عمر ؒ کے اس اقدام کی تائید کرتے ہوئے اس سے اتفاق کیا۔ اس طرح صحابہؓ پابندی کے ساتھ تراویح ادا کرتے رہے۔ حضرت عمر ؓ کے وصال کے بعد حضرت علی ؓ نے آپ کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ـ’’ اللہ عمرؓ کی قبر کو اسی طرح نور سے معمور رکھے ،جیسے انہوں نے ہماری مساجد کو قرآن کے نور سے معمور کر دیا‘‘۔ (حیات الصحابہ)
نماز تراویح کی اصل اہمیت اور افادیت یہ ہے کہ تراویح فہم قرآن اوراشاعت قرآن کی تیاری کی ایک مسلسل تحریک ہے جس کا ریفریشر کورس امت کو ہر سال رمضان میں کرایا جاتا ہے۔ قرآن کریم انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ اور نظام حیات ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ نماز تراویح میں حفاظِ کرام کا کم و بیش 27دنوں میں اس ضابطہ حیات کا پڑھنا اور سمجھنا اس مقصد کے لئے ہے کہ ہم زندگی کے فرائض سے واقف ہو جائیں اور اس آگہی مہم کے بعد ہماری زندگی کا ہر قدم اس کے مطابق اٹھے۔
نماز تراویح میں پورا قرآن ختم کرنے کی اصل غایت یہی تھی کہ ملتِ اسلامیہ کاہر ہر فرد قرآن کریم کے احکام و مسائل کو سال میں کم از کم ایک بار سن لے، سمجھ لے اور اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے،تاکہ قرآن کریم کی اشاعت و تبلیغ اور معاشرے میں نظامَِ قرآنی کی تنفیذ ہو سکے اور تمام غیر خداوندی قوانین مٹ جائیں۔ چونکہ قرآن کریم رمضان کے اسی مہینے میں نازل ہواتھا ،اس لئے یہ جشن نزول قرآن کا مہینہ بھی ہے اور نمازِ تراویح اسی جشن کی تکمیل کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔
کسی بھی عمل کی اصل روح اس کے اصول و آداب کا لحاظ رکھنے میں ہوا کرتی ہے۔ اصول و آداب کے لحاظ کے بغیر اُس عمل کی حیثیت جسدِ بے جان کی مانند ہوا کرتی ہے جسے گھر کی چہار دیواری سے باہر لے جاکر کسی ویرانے میں سپرد خاک کئے جانے ہی کو عافیت اور اس کے مضر اثرات سے بچاؤ تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے کسی بھی عمل کے، اللہ کے ہاں مقبول ہونے کے لئے اس کے آداب کا خیال رکھنا اصل ہے۔ مسلمانوں سے جہاں دوسرے اعمال میں کوتاہیاں ہونے لگی ہیں۔
وہاں اسی طرح کی کوتاہیاں تراویح کے معاملے میں بھی ہونے لگی ہیں۔ اس میں پہلی کوتاہی تو یہی ہے کہ ہم تراویح کو روزے کا جزو لاینفک نہیں سمجھتے اور اسے محض سنت سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں۔ یہ بہت ہی خراب اور گمراہ کن سوچ اور رویہ ہے اور ہمیں اسے ترک کر کے تراویح کو روزے کا جزو لاینفک بنانا ہوگا۔ دوسری کوتاہی یہ کہ ہم اپنی تن آسانی کے باعث اب عبادات میں مشقت کے بجائے آرام و سہولت اور راحت کے طالب ہوگئے ہیں، لہٰذا رمضان سے پہلے ایسی مساجد کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کس مسجد میں کتنی جلدی تراویح ختم ہوتی ہے۔
کون سے حافظ صاحب جلدی جلدی قرآن پڑھتے ہیں۔ بعض نوجوان تراویح میں امام کے تراویح کی پہلی رکعت کے رکوع کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں، امام جیسے ہی رکوع میں جاتاہے، وہ جھٹ سے نیت باندھ کر رکوع میں چلے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز میں اس طرح کی سستی ، کاہلی اور غفلت مسلمان کا شعار نہیں ہے ،بلکہ یہ تو منافقین کا شیوہ ہے ۔
آج کل تراویح کے حوالے سے ایک افسوس ناک روش یہ بھی ہے کہ اکثر لوگ خصوصاً نوجوان پانچ روزہ، دس روزہ تراویح کی تلاش میں رہتے ہیں اور یہ پانچ دس دن کی تراویح میں قرآن کریم سن کر بقیہ تراویح کی چھٹی کر دیتے ہیں۔ حالانکہ تراویح میں مکمل قرآن سننا ایک علیحدہ سنت ہے لہٰذا رمضان میں جتنے روزے ہوں تیس یا انتیس اتنی ہی تراویح مستقل سنت ہے۔ اگر پچیس یا ستائیس رمضان کو ختم قرآن ہو جائے ،تب بھی بقیہ روزوں تک تراویح ہر گز نہیں چھوڑی جا سکتی ۔ جتنے روزے اتنی ہی تراویح کا اصول ایک مسلّمہ سنت ہے۔
تراویح میں غفلت اور سستی ہی کے ضمن میں یہ مشاہدہ بھی عام ہے کہ جب رمضان کا آغاز ہوتا ہے اور تراویح شروع ہوتی ہے تو مساجد میں عشاء کی نماز اور تراویح میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ مساجد کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں۔ دو تین تراویح تک نمازیوں کی تعداد کی یہی صورتحال رہتی ہے، لیکن تیسری تراویح کے بعد سے نمازیوں کی یہ تعداد کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور گھٹتے گھٹتے یہ تعداد پانچویں چھٹی تراویح میں پانچ چھ صف رہ جاتی ہے اور دسویں تراویح تک یہ تعداد بھی کم ہو کر تین چار صف ہی رہ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں اور صحت مند افراد کی ہوتی ہے۔
آپ اگران سے پوچھیں کہ بھئی تراویح میں نظر نہیں آ رہے تویہ نوجوان کہتے ہیں کہ دو تین پڑھی تھیں ،مگر حافظ صاحب بہت لمبی کھینچتے ہیں ،ٹانگوں میں درد ہوجاتا ہے، تھکن ہو جاتی ہے اور آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ یہی نو جوان عصر کے بعد افطار سے کچھ دیر پہلے تک گلیوں سڑکوں پر کھیلتے نظر آتے ہیں ۔ اس روزے کی حالت میں انہیں کھیلتے بھاگتے دوڑتےکوئی تھکن نہیں ہوتی ۔ اکثر لوگ روزے کے بعد عشا ء کے وقت تراویح جیسے اہم عمل اور فضیلت والی عبادت کو غیر اہم جان کر اور اسے ترک کر کے عید کی شاپنگ کے لئے نکلتے ہیں اور رات گئے تک مختلف مارکیٹوں اور شاپنگ سنٹرز میں گھنٹوں شاپنگ کرتے نہیں تھکتے۔
یہ تراویح کی اہمیت و مشروعیت، اس کے مسنون ہونے اور تراویح سے متعلق چند کوتاہیوں کی نشاندہی ہے جس پر توجہ اور اس کے ازالے کے لئے کوشاں ہونے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہم رمضان المبارک کی اس عظیم عبادت کے اجرو ثواب کے مستحق بن سکیں، ناکہ یہ عبادت ہمیں بجائے ثواب کے عتاب اور سزا کا سزاوار نہ بنادے۔( الامان والحفیظ) اللہ ہمیں دین ، اعمال دین اور اپنی اطاعت پر ثابت قدمی عطا فرمائے۔