تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم کوطویل جدوجہد اور عظیم قربانی کے بغیر آزادی نصیب نہیں ہوئی۔ مسلمانانِ برِصغیر نے انگریز کے خلاف جب علمِ بغاوت بلند کیا تو انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ یہ ایک طویل، اور تھکادینے والی جدوجہد ہوگی، جس میں انھیں جانی و مالی قربانیاں بھی دینا پڑیں گی۔ تاہم، ان کے حوصلے بلند تھے اور وہ پرعزم تھے کہ آزادی حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔ برِصغیر کے مسلمانوں کی آزاد اور جداگانہ ریاست کے لیے جدوجہد ایک ایسی عظیم اور قابلِ فخر تاریخ ہے، جسے تاریخِ انسانی میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ہندوستان پر انگریز کی حکومت کو قبول کرنا مسلمانوں کے لیے کوئی عمومی واقعہ نہ تھا۔ ذرا تصور کریں کہ جس قوم نے 700سال تک اس خطے پر حکمرانی کی ہو، ان کے مذہب ومعاشرت، تاریخ وتمدن اور جذبۂ حریت پر بدقسمتی کے تالے پڑ جائیں اوران پر عرصۂ حیات اس قدر تنگ کر دیا جائے کہ انھیں اشک اور آہیں ہی اپنا نصیب معلوم ہونے لگیں، تو سوچیں ایسی قوم کی کیا حالت ہوگی۔
1857ء میں انگریز سامراج سے جان چھڑانے کے لیے لڑی گئی جنگ میں ناکامی کے بعد مسلمانوں کو ہندوستان پر حقِ حکمرانیت سے محروم ہونا پڑا۔1885ء میں سب کے لیے مساوی حقوق کے نعرے کے ساتھ انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی گئی، تاہم سر سید احمد خان اور ان جیسے دور اندیش مسلمان مفکرین کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ یہ نعرہ محض ایک لالی پاپ سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ انڈین نیشنل کانگریس کے اندر موجود ایک طبقہ مسلمانوں کے رہے سہے حقوق بھی سلب کرنے کے درپے تھا۔
مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے ان ہی خدشات کے نتیجے میں 1906ء میں شملہ میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔
انڈین نیشنل کانگریس اور مسلمان رہنماؤں کے مابین اختلافات کی چند بنیادی وجوہات میں اردو ہندی تنازعہ، فرقہ ورانہ فسادات اور تقسیمِ بنگال کی مخالفت سرفہرست رہی۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مساوی حقوق اور انگریز سے آزادی کی بات کرنے والے محمد علی جناح نے بھی کانگریس کے رہنماؤں سے مایوس ہوکر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔
محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، نوابزادہ لیاقت علی خان، سردار عبد الرب نشتر اور ان جیسی دیگر کئی اہم مسلمان شخصیات نے مسلمانوں کے لیے جداگانہ وطن کے حصول کی جدوجہد کا آغاز کیا۔
1930ء میں خطبہ الہٰ آباد میں علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک جدا گانہ مملکت کے قیام کو مسلمانوں کا مستقبل ٹھہرایا۔
مسلمانوں کی اپنے حقوق کے حصول کی جنگ اور آزادی کی سوچ بالآخر 23 مارچ 1940ء کو ایک ٹھوس خاکہ اور تصور کی صورت میں سامنے آئی۔ مقام تھا لاہور کا منٹو پارک، جہاں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت، آل انڈیا مسلم لیگ کے اس تاریخ ساز اجلاس کا انعقاد ہوا، جو برِصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کے مستقبل کے لائحہ عمل کاتعین کرگیا۔ بلاشبہ، یہ برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔
محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کی ذمہ داری نبھائی۔ انھوں نے اس جوش و ولولے اور یقین کے ساتھ فی البدیہہ خطاب کیا کہ ہندوستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے مسلمانوں میں آزاد وطن کے حصول کے لیے جذبہ اپنے عروج کو جا پہنچا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ برِ صغیر ایک مملکت نہیں جبکہ ہندو مسلم فرقہ وارانہ نہیں بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ قائد اعظم نے اپنی تقریر میں اس مسئلے کا حل ہندوستان میں ایک سے زیادہ ریاستوں کے قیام کو قرار دیا۔ قائد اعظم نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ مسلمان اور ہندو، دو الگ الگ قومیتیں ہیں، مسلمانوں کے زندگی گزارنے کا انداز، رہن سہن اور معاشرتی طور طریقے ہندؤوں سے جداگانہ ہیں۔
منٹو پارک میں مسلم لیگ کے ہونے والے اس تاریخی اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق نے قرارداد پیش کی، جسے ’قراردادِ لاہور‘ کا نام دیا گیا۔ آگے چل کر یہ قرارداد قیام پاکستان کی بنیاد قرار پائی۔ اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھاکہ، ’’کوئی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا، جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل وملحق یونٹوں پر مشتمل علاقوں کی حد بندی اور ضروری علاقائی ردوبدل نہ کیا جائے‘‘۔ ساتھ ہی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں خودمختار ریاستیں قرار دیا جائے، جس میں ملحقہ یونٹ خودمختار اور مقتدر ہوں۔
قرارداد میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کہا گیا، ’’ان یونٹوں کی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے صلاح و مشورے سے دستور میں مناسب و مؤثر اور واضح انتظامات رکھے جائیں اور ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کے اور دیگر اقلیتوں کے صلاح مشورے سے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے‘‘۔ قرارداد میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ ہندوستان کی تقسیم کے علاوہ کسی اور منصوبے کو قبول نہیں کرے گی۔
تحریکِ آزادی کے حوالے سے یہ ایک تاریخی اور ناقابلِ فراموش دن تھا۔ اس دن مسلمانانِ ہند نے بالآخر اپنے لیے ایک واضح منزل کا تعین کرلیا تھا۔ کانگریس کی قیادت نے اسے مسترد کیا جبکہ برطانوی پریس نے کوئی اہمیت نہ دی۔ تاہم انھیں یہ بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ، ’’لے کے رہیں گے پاکستان۔ ۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ کا نعرہ مسلمانوں کا مقصدِ حیات بن چکا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی سربراہی اور رہنمائی میں مسلمانانِ ہند نے 7سال کے قلیل عرصے میں وہ منزل حاصل کرلی، جسے دنیا دیوانے کا خواب قرار دیتی تھی۔
مسلمانوں کی تحریکِ آزادی سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ قوم اگر اپنے مقصد کے ساتھ مخلص ہو اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی نہ گھبراتی ہو تو پھر کامیابی ایسی قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔