چاند کے متعلق میں نے بہت پہلے کہا تھا،
چاند کے حسن پہ ہر شخص کا حق ہے منصورؔ
میں اسے کیسے کہوں، رات کو نکلا نہ کرے
برسوں سے چاند یہی کررہا ہے کہ میری مرضی کے خلاف نکل آتا ہے اور میں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پچھلے دنوں بھی یہی ہوا ۔رات گیارہ بجے جب اعلان ہوا کہ چاند نظر آگیا ہے تو مجھے کچھ دوستوں نے کہا رویت ہلال کمیٹی نے فیصلہ درست نہیں کیا۔ بہاول پور میں گہرے بادل تھے مگر وہاں سے انہیں جو گواہی ملی اسے بنیاد بنا کر انہوں نے فیصلہ سنا دیاکہ چاند نظر آگیا ہے ۔ میں نے ایک دوست کو بہاول پور فون کیا تو اس نے کہا ’’یہاں واقعی شام کو گہرے بادل تھے ، ان بادلوں میں جس نے چاند دیکھ لیا ،اس نے کمال کیا ۔ میں نے ایک اور دوست کو فون کیا جو سائنسی طور پر مجھے بتایا کرتا ہے کہ چاند کس وقت پاکستان میں رویت کے قابل ہوگا ۔ اس نے کہا کہ میری تحقیق تو یہی کہہ رہی ہے کہ چاند نظر نہیں آ سکتا ۔سو میں نےکہہ دیا کہ ’’چاند نظر نہیں آیا۔ کوئی کیسے اس سرکاری فراڈ پر کسی کو رمضان مبارک کہے ‘‘ مگر اگلے دن جب چاند دیکھا تو مجھے خاصی شرمندگی ہوئی ۔چاند پہلی کا نہیں ،دوسری کا تھا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ جموں وکشمیر کے مفتی اعظم ناصر اسلام کے ساتھ بھی ہوا۔ انہوں نے بھی میری طرح اعلان کر دیا کہ رمضان کا چاند نظر نہیں آیا اس لئے بروز جمعہ رمضان کا پہلا روزہ ہوگامگر چند گھنٹوں بعد پاکستانی رویت ہلال کمیٹی نے جب کہا کہ چاند نظر آگیا ہے تو معاملہ الٹ گیا ۔آدھی رات کو اہل ِ مقبوضہ کشمیر نمازِ تراویح کےلئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ کچھ احباب نے مفتی اعظم کشمیر کو بھی مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ آغازِ رمضان کرلیں مگر انہوں نے بات نہیں مانی ۔کچھ نوکری کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے ۔میں مفتی اعظم کشمیر کا بھی تھوڑا سا تعارف کرا دوں ۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں انیس سو چونسٹھ میں ’’دارالافتا‘‘نام کا ایک ادارہ قائم کیا تھا،جس کا مقصد وہاں کے علما کو اپنے ساتھ ملانا تھا۔انہوں نے اس ادارے کا سربراہ جس عالم دین کو بھی بنایا اسے ’’ مفتی اعظم جموں و کشمیر ‘‘کا خطاب دیا مگر زیادہ تر مفتیوں نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ عید کی ۔ کسی زمانےمیں سری نگر ٹائمز میں ایک کارٹون شائع ہوا تھا، جس میں مفتی اعظم کشمیر کے منہ کے سامنے کشمیرریڈیو پڑاہوتا ہے ۔ اور کان کے ساتھ ریڈیو پاکستان لگا ہوتا ہے جیسے ہی پاکستانی ریڈیو پر اعلان ہوتا ہے کہ چاند نظر آگیا ہے تو مفتی اعظم فوراً کشمیر ریڈیو پر اعلان کرتے ہیں کہ چاند نظر آ گیا ہے۔
خیر جب پورے کشمیر میں جمعرات کو رمضان کا آغاز ہوا تو وہاں حکومتی اہلکاروں کو بڑی تکلیف ہوئی۔ تکلیف تو ہونی تھی کہ کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ رمضان شروع کیا تھا۔ مفتی اعظم کو بڑا غصہ آیا کہ لوگوں نے میری بات نہیں مانی ۔مگراگلے دن جب مفتی اعظم نے بڑے سائز کا چاند دیکھا تو بیچارے میری طرح شرمندہ ہو کر رہ گئےمگر بولے کچھ نہیں ۔اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے’وقف بورڈ‘ کی سربراہ اور بی جے پی کی رہنما درخشاں اندرابی نے اعلان کیا کہ وہ جموں و کشمیر کے لئے ایک ’آزاد‘ رویتِ ہلال کمیٹی بنوائیں گی جس میں ہر ہر فرقے کے نمائندہ علماء کے ساتھ ساتھ فلکیات اور موسمیات کے ماہرین بھی شامل کئے جائیں گے ۔عید کے چاند کا فیصلہ وہی کمیٹی کرے گی ۔یہ آزاد رویت ہلال کمیٹی بھی بی جے پی کی غلام ہو گی ۔
کشمیریوں کا کہنا ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ،مقبوضہ کشمیر کےلوگوں نے رمضان اورعید کے چاند سے متعلق پاکستان کی تقلید کی ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں اس کی ایک وجہ تو صرف یہ ہے کہ جغرافیائی طور پر مقبوضہ کشمیر پاکستان کے بہت نزدیک ہے مگر میں سمجھتا ہوں یہ پورا سچ نہیں ہے۔کشمیری مسلمان پاکستان کو’’ خطہِ عشق محمدﷺ ‘‘سمجھتے ہیں۔ان کے سینوں میں پاکستان دل کی طرح دھڑکتاہے ۔ان کی آزادی کی تحریک دراصل کشمیر کو پاکستان بنانے کی تحریک ہے ۔یہ تمام وہ کشمیری ہیں جو اسلام کے ساتھ مکمل طور پر جڑے ہوئے ہیں مگر بھارت میں کچھ ایسے مسلمان ہیں جیسے جانثار اختر کےبیٹے جاوید اختر ،جو نام سے تو مسلمان ہیں مگر ذہنی طور پر مذاہب کو نہیں مانتے۔ ایسے کشمیری بھی آزادی کی تحریک میں شریک ہیں مگر وہ خود مختار کشمیر کے حامی ہیں ۔کشمیر میں ان کی تعداد بہت کم ہے ۔
پاکستان کی طرح کشمیر میں بھی کئی بار دو دو عیدیں ہوئی ہیں مگر جب وہاں ایسا ہوتا ہے پاکستان میں بھی ایسا ہی ہورہا ہوتا ہے ۔یہاں بھی دو عیدیں ہی ہورہی ہوتی ہیں ۔ماضی میں خیبر پختون خوا کے علما پاکستان کی رویت ہلال کمیٹی کو نہیں مانتے تھے اور رویت ہلال والے ان کی گواہیوں کو مصدقہ نہیں سمجھتے تھے ۔فواد چوہدری جب وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ہوتے تھے تو انہوں نے سائنس کی وساطت سے اس اختلاف کو ختم کرانے کی کوشش کی تھی مگر علمائے کرام برا مان گئے تھے ۔بات چاند کے حسن سے شروع ہوئی تھی کہ اس پر سب کا حق ہے ۔حکومت کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئےکہ عمران خان کو پاکستانی قوم سیاست کا چاند سمجھتی ہے ۔حکومت اسے نکلنے سے نہیں روک سکتی ۔اس نے اندھیری رات کو فروزاں کرنا ہی کرنا ہے۔ اسےدلوں کے آسمان پر طلوع ہونےسے کوئی نہیں روک سکتا۔