• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات کی جانب جانے والا راستہ خار دار جھاڑیوں میں گِھری پگڈنڈی کی طرح کا ہوگیا ہے۔ الیکشن کمیشن، صدرِ پاکستان اور سپریم کورٹ مختلف سمتوں میں گامزن ہیں۔ پی ڈی ایم اتحاد الیکشن سے دور بھاگ رہا ہے، عمران خان الیکشن کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کیلئے تیار ۔ دو معصوم سے سوال ہیں ، ایک سوال خان سے اور دوسرا پی ڈی ایم سے:عمران خان ! جب آئینی طریقے سے آپ سے حکومت چھینی گئی، اور آپ کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے غیر آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹ کرانے کیلئے جی بھر کر حیل و حجت سے کام لیا، چلئے چھوڑئیے دراصل جن کے سبب آپ کی حکومت قائم ہوئی تھی، اسی باپ، ایم کیو ایم، اور آپ کے چند اپنے کرم فرماؤں نے بھی منہ موڑ لیا تو حکومت گئی، سوال یہ ہے کہ وہ جو پونے چار سال آپ انتہائی ناکام حکمراںرہے، ایک وعدہ نہ پورا کر سکے ، ہر چیز پر یو ٹرن لئے، حتیٰ کہ اقتدار کا کھونا پہلے امریکہ پر ڈالا بعد میں جنرل باجوہ پر اور جانے آگے جاکر کس پر ڈالیں، پھر دورانِ حکومت کم و بیش چار وزرائے خزانہ بدلے ، اسد عمر کابینہ کا سب سے ناکام شخص تھا ، تو اب آپ نے کون سا کورس کرلیا، کیا سیکھ لیا کہ آپ جس حکومت کے حصول کیلئے ہلکان ہوئے جارہے ہیں، اسے پانے کے بعد کامیاب ہو جائیں گے؟

پی ڈی ایم کے اکابر سے سوال یہ ہے کہ، جس طرح عمران 2011سے ہر صورت میں حکومت چاہ رہے تھے ، اور انہیں حکومت سازی میں مدد فراہم کرنے کیلئے طاقت ور حلقے ہر طرح کی مدد فراہم کر رہے تھے لیکن عمران خان کو تجربہ نہیں دے سکتے تھے محض مقبولیت دے سکتے تھے ، وہ مقبولیت کسی عمرانی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں محض آصف زرداری ، میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کی شہرت خراب کرنے کا بیڑا اٹھا کر ہی دی جاسکتی تھی سو دی! اسی طرح جب پی ڈی ایم کو حکومت ملی، تو آپ لوگوں نے بھی سوچاکچھ نہیں تھا کہ فیٹف، آئی ایم ایف، بند صنعتیں اور مضطرب لوگ، پس سوائے عنانِ اقتدار تھامنے کے آپ کے ہاتھ میں آیا کیا؟

اس میں رتی برابر شک نہیں کہ، مقتدر کی خواہش ہوگی کہ کسی قومی حکومت کو منظر عام پر لایا جائے لیکن اس پر آصف زرداری ، میاں نوازشریف اور عمران خان میں سے کوئی ایک بھی راضی نہیں ہوگا۔ لیکن اس بات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اگر میاں نواز شریف پاکستان تشریف نہیں لاتے تومسلم لیگ نواز کیلئے پنجاب واپس لینا مشکل ہو جائے گا۔ سندھ اور کے پی کے نتائج وہی پرانے ہوں گے، بلوچستان سے کسی قاسم سوری اور زبیدہ جلال کا واپس آنا ممکن نہیں۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں اور گہرے انداز میں سوچتے ہیں کہ آخر میاں نوازشریف واپس کیوں نہیں آ رہے انہیں یہ معلوم ہے کہ میاں نوازشریف نے دو دفعہ رخت سفر باندھ لیا تھا لیکن آگے سے راستہ ہموار نہیں ملا۔ میاں نوازشریف کوئی رسک نہیں لے سکتے۔ گویا رسک نہیں لے سکتے تو پنجاب بھی نہیں ملے گا۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ میاں نوازشریف فی الحال آپشن نہیں۔ باقی بچنے والے آپشنز عمران خان، شہباز شریف، مریم نواز اور بلاول بھٹوزرداری ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے ہنوز دلی دور است جب کہ مریم نواز اور نواز شریف ایک ہی بات ہے۔ درج بالا سب آپشنز اور سارے معاملات کو دیکھا جائے تو کبھی کبھی یوں لگتا ہےکہ ایک یا ایک سے زائد پارٹیوں یا اتحادوں کو متشکل کیا جائے گا۔ چونکہ ابھی کسی تشکیل کی صورت دکھائی نہیں دے رہی چنانچہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔ سیاسی افق کے ستاروں کے راز اور گردش سے آشنا کچھ لوگ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ’’نو مور عمران حکومت‘‘ لیکن اپنا یہ خیال ہے کہ عمران خان ایک پرِیزَروَڈ آپشن ہے جسے کبھی گنوایا نہیں جاسکتا۔ واضح رہے کہ عمران خان کو صرف پاکستانی مقتدرہ ہی نہیں لائی تھی بلکہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کا بھی برابر کا ہاتھ تھا۔ کیا لوگوں کو یہ یاد ہے کہ جمال عبدالناصر کا راز پانچ دہائیوں کے بعد افشا ہوا تھا کہ وہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا (واللہ اعلم بالصواب)۔

آخر ہوگا کیا؟ میاں نوازشریف واپس آتے ہیں تو وہ ناقابلِ تسخیر ہو سکتے ہیں مگر یہ امر کچھ لوگوں کیلئے ناقابلِ برداشت ہے۔ عمران خان واپس آتے ہیں تو وہ باڈی لائن سیریز کھیلیں گے۔ باڈی لائن سیریز 1932/33 کے اس دورے کو کہا گیا جس میں انگلینڈ کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کا دورہ کیا۔ انگلینڈ ٹیم کو یقین ہوگیا کہ آسٹریلین بلے بازوں کو ڈھیر کرنا ممکن نہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب باؤنسر پر پابندی تھی نہ اس پر لِمٹ۔ گویا اس فاسٹ لیگ تھیوری باؤلنگ سے لیجنڈ بیٹسمین ڈان بریڈ مین کو قابو کرنا تھا۔ عمران خان عصرِ حاضر کی سیاست کے بریڈ مین نواز شریف کو باڈی لائن سے ہراساں کرے گا، اور اس سے قبل یہی ہوا، عمران خان تمام مخالف سیاست دانوں کی باڈی، کردار اور شہرت پر فاسٹ لیگ تھیوری کا استعمال کر کے یہاں تک پہنچا، اور یہی سیریز اس نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی شروع کردی، سو یہاں آکر معاملہ بگڑ گیا ورنہ سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا۔ شاید کچھ لوگوں کو یاد ہو کہ فیصل واوڈا نے پانچ ہزار پھانسیوں کی بھی ایک بات کی تھی۔ وہ کس کی لائن تھی ؟کہتے ہیں پانچ ہزار بندوں کو پھانسی والی بات فیصل واوڈا نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں سنی تھی اور ایک ٹاک شو میں زبان پر لے آئے ! یہ بھی یاد رہے کہ آج فیصل واوڈا عمران خان سے دور ہیں جیسے مفتاح اسماعیل اورشاہد خاقان عباسی شہباز شریف سے دور اور مصطفےٰ نواز کھوکھر بلاول بھٹو سے، اس میں بھی نشانیاں ہیں سیاست کے نباضوں کیلئے! اور آپشن بدلتے دیر بھی کتنی لگتی ہے جب الیکٹ ایبلز کو کسی کو اشاروں پر نچانا ہو ؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان سمیت سب سیاست دان اگر آج سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گے تو ہر کوئی عمر بھر اختیاری (Optional) فہرست کا کبھی میٹھا تو کبھی کڑوا حصہ رہے گا، نہ سیاسی جینا مرضی کا نہ سیاسی مرنا فطری!

تازہ ترین