ہلدی رام کی دُکان سے گرما گرم تازہ سموسے کھا کر طبیعت بشاش ہوگئی۔ ویسے سموسے ہماری کم زوری بھی ہیں۔ لاہور میں اپنے ہم دَمِ دیرینہ، ڈاکٹر ناصر کے ساتھ ڈھونڈ ڈھانڈ کے خستہ، مزے دار سموسے کھاتے تھے، جب ہماری پوسٹنگ جوہر آباد میں تھی، تو دو کلومیٹر پیدل چل کر مین بازار کی ایک مشہور سموسوں کی دُکان سے سموسہ خوری کیا کرتے تھے۔
ہلدی رام کےسبزی والے سموسے لاجواب تھے، جن میں آلو، گوبھی اور مٹر کا آمیزہ تیز، تیکھے مسالوں کے ساتھ ٹھسا ٹھس بَھرا ہوا تھا۔ سموسے کھا کر باہر نکلے، تو تلاش تھی فتح پوری مسجد کی، جو بالآخر چاندنی چوک کے آخری سِرے پر ملی۔ اُس وقت مسجد سَرسری سی دیکھی، مگر بعد میں دن کے وقت یہاں کے متعدّد چکر لگے۔ ایک دن عصر کی نماز فتح پوری مسجد میں ادا کی اور کافی وقت وہیں گزارا۔
نماز کے بعد ایک ٹی وی چینل کا رپورٹر نمازیوں کا انٹرویو کرنے آگیا۔ اُس وقت کسی گیان واپی مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنےکا تنازع چل رہا تھا، تو اس پہ تلخ قسم کی بحث چل پڑی۔ اینکر بات گُھما کر اورنگ زیب عالم گیر کی طرف لے گیا کہ بھارت میں اب تک جاری ہندو، مسلم فسادات کی جڑ اورنگ زیب عالم گیر تک جاتی ہے۔ مسلمان نمازی اس بات پہ بھڑک اُٹھے اور انہوں نے اورنگ زیب عالم گیر کی تعریف میں زمین آسمان کےقلابے ملانے شروع دیئے۔
فتح پوری مسجد، چاندنی چوک بازار اور کھاری باؤلی بازار کے قریب ہی بتاشے والی گلی میں ڈپٹی نذیر احمد کا گھر ہے۔ اُردو کے نام وَر مزاح نگار، مرزا فرحت اللہ بیگ، مولوی نذیر احمد دہلوی کے شاگردِ رشید تھے۔ فرحت اللہ بیگ نے ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی‘‘ کے عنوان سے ڈپٹی صاحب کا بہت خُوب خاکہ لکھا۔ اُسے اُردو میں خاکہ نگاری کی صنف کی ابتدا بھی کہا جاسکتا ہے اور انتہا بھی کہ خاکہ نگاری میں فرحت اللہ بیگ کے معیار کو پھر کوئی نہیں چُھو سکا۔ اس خاکے میں مولوی صاحب کی شخصیت اپنی نظروں کے سامنے چلتی پھرتی، زندہ نظر آتی ہے۔
ایک دفعہ ہم لوگ جامع مسجد، دہلی کےعقب میں چاوڑی بازار اور وہاں سے حوضِ قاضی، سرکی والاں بازار وغیرہ سے ہوتے ہوئے کھاری باؤلی جا پہنچے، تو اس دوران چاندنی چوک جاتے ہوئے بتاشے والوں کی گلی سے بھی گزر ہوا، یوں سمجھ لیں یہ رستہ ہم لوگوں نے مرزا فرحت اللہ بیگ کا تعاقب کرتے ہوئے طے کیا۔ وہ اپنے گھر چوڑی والاں سے اِسی رستے پہ چلتے ہوئےڈپٹی نذیر احمد کے گھر جاتے تھے۔ بقول مرزا فرحت اللہ بیگ بتاشے والوں کی اسی گلی میں کہیں کبھی ڈپٹی نذیر احمد کا گھر ہوا کرتا تھا۔
شاید اب بھی ہو، مگر اپنے دَور کی اس نابغۂ روز گار ہستی کو اب کون جانتا ہوگا، جو ایک مدرسے میں پڑھا ہوا مولوی ہونےکے باوجود سلطنتِ انگلشیا سے’’شمس العلماء‘‘ کے خطاب کا مستحق ٹھہرا۔ بڑھاپے میں قرآن شریف حفظ کیا، پھر اردو میں اس کا بامحاورہ ترجمہ بھی کیا۔ زبان دانی کے فن میں ایسے یکتا کہ جس زبان کو چاہتے سیکھتے اور اُس میں اوجِ ثریا تک جا پہنچتے۔ انگریزی سیکھی تو 1903 ء کے ’’جشنِ تاج پوشی‘‘ کی کتاب کا انگریزی سے اُردو ترجمہ کر ڈالا، پھر تعزیراتِ ہند کا انگریزی سے اُردو ترجمہ کیا۔ دہلی کالج میں اُستاد ہوگئے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ اور دانی یہیں ان کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کیا کرتے تھے۔ مولانا نےجس طرح سے فرحت اللہ بیگ اور دانی کو عربی پڑھائی، سُننے والا اَش اَش کر اُٹھتا۔
ڈپٹی نذیراحمد کےپاس فتح پوری مسجد کے مدرسے سے افغان طالب علم پڑھنے آتے تھے، جنہیں عربی سکھانا جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا۔ فرحت اللہ بیگ لکھتے ہیں کہ ’’اس جماعت میں تمام سرحد پار ہی کےلوگ تھے۔لمبےلمبےکُرتے، بڑی بڑی آستینیں، ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو تھان کی شلواریں، شملہ، بمقدارِ علم کئی کئی سیر کی پگڑیاں، لمبی لمبی داڑھیاں، غرض لگتا تھا کہ افغانستان کا کوئی قطعہ اُٹھا کر بتاشوں کی گلی میں رکھ دیا گیا ہے۔ محنت کایہ عالم کہ رات رات بَھر کتاب دیکھتے اور ٹھوٹھ ایسے کہ باوجود محنت کہ کورے کے کورے ہی رہتے۔
مولوی صاحب ہمیشہ اُن کی موٹی عقل کی تعریف کرتے اور کہتے، ’’بھئی، مَیں ان مُلائوں سے عاجز آگیا ہوں، اپنا بھی وقت ضایع کرتے ہیں اور میرا بھی۔ جواب اس لیے نہیں دیتا کہ دل شکنی ہوگی، مگر کیا کروں کہ اللہ میاں نے اِن لوگوں کو ادب سمجھنے کا دماغ ہی نہیں دیا۔ بھلا ان کو حماسہ (رزمیہ نظم، وہ اشعار یا منظومات، جن میں فتوحات اور کارناموں پر فخرکا اظہار کیا گیا ہو) پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، فوج میں نوکر ہو جائیں، محنت مزدوری کریں یا ہینگ کا توبڑا گلے میں ڈال کر بیچتے پھریں۔‘‘ ایک روز کہنے لگے’’لو، آج تم ٹھہر جاؤ اور ان مولویوں کا رنگ بھی دیکھ لو، مگر دیکھو، کہیں ہنس نہ دینا، ورنہ چُھری بھونک دیں گے۔‘‘پھر اُس روز ہم لوگ پڑھ کے فارغ ہوئے ہی تھے کہ یہ جماعت آگئی اور مولوی صاحب کو گھیر کر بیٹھ گئے اور ہم اُٹھ کر ایک کونے میں جابیٹھے۔
اس دن مقاماتِ حریری کا سبق تھا، کتابیں کھولی گئیں اور ایک صاحب نے بڑی گرجتی ہوئی آواز میں آعُوذ باللّہ سے سبق شروع کیا۔ زید بن حارث کے سفر کا حال تھا اور رات کے وقت سفر کرنے کو ’’فی انا اللیل‘‘ سے ادا کیا تھا، ان بھلے آدمیوں نے رات کو قاموس دیکھ کر مطالعہ کیا تھا، پھر شامتِ اعمال ’’انا‘‘ کے معنی مٹکے کے بھی ہیں، تو انہوں نے یہاں مٹکاپھنسادیا اور نہایت متانت سے ’’فی انا اللیل‘‘ کے معنی ’’رات کے مٹکے میں سفر کیا‘‘ سے کر دیئے۔ مولوی صاحب نے کہا ’’انا کے دوسرے معنی بھی تو ہیں۔‘‘ اس پر پڑھنے والے نے کہا ’’جی ہاں، کئی معنی ہیں، لیکن اس مقام پر مٹکا ہی زیادہ چسپاں ہوتا ہے۔‘‘ یہ سُن کر ہمیں ہنسی آنےلگی، جس پرمولوی صاحب نے مُسکرا کر اور ان لوگوں نے نہایت بڑے بڑے دیدوں سے ہماری طرف دیکھا۔
ہم نے سوچا ’’بھائی! یہاں ہمارا ٹھکانا نہیں، کھسک جانا ہی مناسب ہے کہ کہیں کوئی اُٹھ کر گلا نہ گھونٹ دے۔‘‘ پھر ہم نے اجازت چاہی، مولوی صاحب کہتے ہی رہے۔’’بیٹھو، ذرا اور کچھ سُن لو۔‘‘ تو ہم نے کہا’’مولوی صاحب! ہمیں کام ہے، کسی اور دن دیکھا جائے گا۔‘‘ یہ کہہ جوتیاں پہن، سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اور کوٹھے سے اُتر کر جو ہنسناشروع کیا، تو گھر پہنچتے پہنچتے بڑی مشکل سےہنسی رُکی۔ اب جب کبھی خیال آتا ہے، تو اس جماعت کا نقشہ آنکھوں کے نیچے پِھر جاتا ہےاور رات کےمٹکے میں سفرکرنےکا فقرہ ہنساتا نہیں، تو کم ازکم چہرے پر مسکراہٹ ضرور لےآتا ہے۔ افغانی مولویوں کی یہ جماعت فتح پوری مسجد کے مدرسے میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتی تھی، ساتھ ہی مولوی نذیراحمد سےسبق بھی سیکھتی تھی۔‘‘
بہرحال، مٹیامحل اور چتلی قبر میں مٹر گشت کرتے ہوئے ہمارا گزر چُوڑی والاں سے بھی ہوا، مگر افسوس کے کچھ پتا نہیں تھا کہ اردو نثر کے بےتاج بادشاہ، مرزا فرحت اللہ بیگ کا گھر کہاں ہے اور اب تک باقی بھی ہے یا نہیں۔ مسجد فتح پوری دیکھنےکا شوق بھی دل میں فزوں تر تھا، چاندنی چوک کی بِھیڑ میں لوگوں کے سیلابی ریلے کے ساتھ چلتے چلتے فتح پوری مسجد کے سامنے جا پہنچے۔ فتح پوری مسجد کا چاندنی چوک والا سنگِ سُرخ کامحرابی دروازہ بازار کی روشنیوں میں روشن تھا۔
محرابی دروازےکو اندر سے سفید قلعی کی گئی ہے، جب کہ دروازے کے درمیان ایک بھدّے چوکھٹے میں گھڑیال نصب ہے۔ تین لاؤڈ اسپیکرز چاندنی بازار کے رُخ، خاموشی سے بازار کی بِھیڑ تکتے ہیں۔ فتح پوری مسجد کے دروازے کے ساتھ ایک گول دائرے میں خشک میوہ جات کی دُکانیں ہیں۔ مسجد فتح پوری، شاہ جہاں کی ایک بیوی ’’فتح پوری بیگم‘‘ نے تعمیر کروائی تھی۔ غدر کے ہنگامے میں انگریز، مسلمانوں کی دیگر املاک کے ساتھ اس مسجد کو بھی ملیامیٹ کردیناچاہتے تھے، لیکن ایک ہندو تاجر، رائے لالا چونا مل نے مسجد فتح پوری مبلغ انیس ہزار روپے میں خرید کر اسے انگریز سرکار کی دست بردسےمحفوظ رکھا۔ اسی مسجد کی مثال دیتے ہوئے غالب نے اپنی بیوی امراؤ بیگم سے متعلق کہا تھا کہ’’امراؤ بیگم نے گھر کو بھی فتح پوری مسجد بنا رکھا ہے۔‘‘
فتح پوری مسجد کے نیچے جو بازار ہے، وہاں خشک میوہ جات کی دُکانیں بھی ہیں، وہیں پہ ’’لاہور ڈرائی فروٹ‘‘ نامی ایک دُکان بھی دیکھی۔ دہلی میں لاہور دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ دہلی کے لال قلعےکا مرکزی دروازہ بھی ’’لاہوری دروازہ‘‘ کہلاتا ہے۔ فتح پوری مسجد سے ایک بازار، کھاری باؤلی شروع ہوتا ہے، جو ایشیا کی سب سے بڑی مسالوں کی مارکیٹ ہے، جس کا اختتام دہلی شہرکے لاہوری دروازے پہ ہوتا ہے۔ اسے دہلی شہر کی لاہور والی اکبری منڈی بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہم جب بھی کھاری باؤلی سے گزرے مسالوں کی تیز خُوش بُو کی وجہ سے مسلسل چھینکیں شروع ہوجاتیں۔ ہمارے خیال میں تو اس بازار کا نام کھاری باؤلی کی بجائے ’’چھینک بازار‘‘ ہونا چاہیے۔ مسجد کی دُکانوں میں ایک دُکان کابل ڈرائی فروٹ شاپ کے نام سے بھی تھی۔ جس پربیٹھےایک سکھ نوجوان نے جب ہم لوگوں کو پاس سے گزرتے ہوئے پنجابی میں باتیں کرتے سُنا، تو فوراً آواز دے کر دکان پر بلا لیا۔ پھر جب اسے پتا چلا کہ ہم لوگ پاکستان سے ہیں، تو لڑکے کو بھگایا اور ہمارے لیے ٹھنڈی بوتلیں منگوائیں۔ خیر، کافی دیر تک گپّیں ہانکتے رہے۔
یہ سردارفیملی اسّی کی دہائی میں افغانستان چھوڑ کر یہاں آباد ہوئی تھی، سرد جنگ کی حشر سامانیوں سے بچنے کے لیے دہلی میں آن بسے تھے۔ سکھ نوجوان نے فون کر کے اپنے پِتا جی (والد) کو بھی بُلا لیا۔ کچھ دیر کے بعد سفاری سوٹ میں ملبوس نیلے رنگ کی پگڑی باندھے، برف سفید داڑھی والے ایک بزرگ سردار جی کہیں سے نمودار ہوئے، بہت گرم جوشی سے ہم سب سے بغل گیر ہوئے اور دیر تک پاکستان، کابل اور پشاور کی یادیں تازہ کرتے رہے۔ سردار جی کو پنجابی اور پشتو پہ عبور حاصل تھا۔ باتوں کی گنگا جمنا بہہ رہی تھی اور گرمیٔ گفتار میں کبھی کبھار پنجابی میں پشتو زبان کے لفظ ٹانک دیتے، مگر پشتو کے وہ الفاظ ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتے۔
ایک دن اسی فتح پوری مسجد کے شمالی دروازے پہ روئی والاں بازار سے کچھ خریداری کر کے واپسی پہ اُترے، تو قریب ساڑیوں کی دُکان تلاش کرنے لگے، ایک بزرگ ملے،اُن سےساڑیوں سے متعلق استفسار کیا اور اپنا تعارف کروایا، تو بزرگ تو ہم سے لپٹ ہی گئے۔ کہنے لگے، ’’ہم بھی شرنارتھی (مہاجر) ہیں۔ ادھر ہی سے آئے ہیں، پِتا(والد) ملتان سے تھے اور ماتا جی کا گاؤں لاہور کے قریب تھا۔‘‘ ہم نے پوچھا ’’لاہور کے قریب کون سا گاؤں؟‘‘ تو بزرگ بولے، ’’بھیرہ میانی۔‘‘ جیسے پنجابی دنیا بھر میں ایک دوسرے سے رشتے داری نکال لیتے ہیں، ہم نے کہا، ’’آپ کا ننھیال لاہور سے نہیں، سرگودھا سے ہے اور خاک سار کا تعلق بھی سرگودھا کے قریب گاؤں بھابڑہ سے ہے۔ آپ کا ننھیالی شہر بھیرہ میانی تو بالکل ہمارے ہم سائے میں ہے۔‘‘ یہ سُن کر بزرگ سکھ نے ہمیں گلے لگالیا اور پھر نم آنکھوں کے ساتھ الوداع کیا۔
چاندنی چوک بازار کے بیچوں بیچ پہنچے، تو ایک ساڑی کی دکان میں داخل ہوگئے، جب دکان دار کو پتاچلا کہ ہم پاکستانی ہیں، تو کہنے لگا، ’’مجھےگانے کا بہت شوق ہے اور پاکستانی گلوکارہ نصیبو لال کی آواز بہت پسند ہے۔ مَیں نصیبو لال کے گانے بڑی اچھی طرح سے گا لیتا ہوں۔ اُس کی بات سُن کر ہمیں لگا کہ اگر یہاں تھوڑی دیر اور رُکے، تو ساڑی ملے نہ ملے، کان ضرور پک جائیں گے، لہٰذا فوری جان چھڑوا کر آگے بڑھ گئے۔ (جاری ہے)