• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے سپریم کورٹ میں انتخابات والے کیس کی تمام کوریج کابغورمشاہدہ کیا اور دیر تک سوچتارہا کہ اتنی سیدھی سادی گفتگواتنی پیچیدہ کیسے ہو گئی ۔سو میں نے سوچا کہ منگل والے دن کی کارروائی اپنے کالم میں درج کروں ۔کھلی کھلی ، واضح ، صاف ۔بغیر کسی پیچیدگی کے ۔تاکہ سب کی سمجھ میں آ جائے کہ آدھی سے تھوڑی زیادہ اسمبلی نے از خود نوٹس کےقانون کے خلاف جو بل پاس کیا اس کا پس منظر کیا ہے ؟اس بل کے بارے میںاعتزاز احسن نے تو صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ازخود نوٹس آئینی اختیار ہے، جسے محض قانون سازی سے محدود نہیں کیا جاسکتا۔یہ قانون سازی موثر بہ ماضی بھی نہیں ہوسکتی۔ لطیف کھوسہ نےبھی ان کی تائید کی اور کہا کہ ازخود نوٹس کیس میں اپیل کا حق سادہ قانون سازی سے نہیں دیا جاسکتا۔ سو مجھے نہیں لگتا کہ اس بل سے نواز شریف ، یوسف رضا گیلانی یا جہانگیر ترین کوئی فائدہ اٹھا سکیںگے۔یہ بل ایک آدھ دن میں عدالت میںچیلنج ہوجائے گا اور وکلا اس کے بخیے ادھیڑ ڈالیں گے ۔ویسے بھی موجودہ اسمبلی خاصی متنازعہ ہے ۔اس سے متعلق چیف جسٹس نیب ترامیم والے کیس میں کہہ چکے ہیں کہ نیب ترامیم اس اسمبلی نےکیں جو مکمل ہی نہیں۔ جہاں تک نواز شریف کی پاکستان واپسی کاتعلق ہے تو اس کے امکانات خاصے واضح ہیں۔نون لیگ کوتھوڑا سا چین قصور کے جلسے سےبھی ملاہے۔ ملک احمد خان نے کمال کیا ہے ۔جیسےممکن ہوا ۔پنڈال بھر دیا۔مجھے یقین ہے کہ اب عمران خان پرمقدمات بھی ختم ہونا شروع ہو جائیں گے۔حکومتی رویے میں تبدیلی آئے گی ۔نواز شریف کی آمد کے ساتھ شہباز شریف سکینڈ نمبر پر چلے جائیں گے اور نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ برابر کی سطح پر گفتگو کرنا شروع کریں گے۔اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی کہ نواز شریف پاکستان آئیں مگر عمران خان کا اعصابی دبائو ہی اتنا ہے کہ کچھ اور ممکن ہی نہیں ۔کوئی اور راستہ نظر ہی نہیں آتا۔یہ الگ بات کہ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے۔

ہاں تو بات ہورہی تھی سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کا کوئی قانون یا اختیار نہیں۔ایمر جنسی لگا کر صرف انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں ۔ملک کو بحران کے حوالے نہیں کر سکتے ۔الیکشن کےلئے ہماری تنخواہوں پر کٹ لگایا جا سکتا تھا۔صرف پانچ فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے ۔ صدر پاکستان کے فیصلے کو ختم کرنے کے الیکشن کمیشن کے اقدام کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ۔الیکشن کرانا آئینی تقاضا ہے۔کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے ۔الیکشن ایکٹ اٹھاون انتخابات کی تاریخ منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی الیکشن منعقد ہوئے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اس کا تھا ہی نہیں ۔تاریخ صدر یا گورنر کودینا ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس کے مطابق شیڈول دینا ہوتا ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ لیپ ٹاپس کیلئے دس ارب نکل سکتے ہیں تو الیکشن کیلئے بیس ارب کیوں نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اخبار میں وزیر اعظم کا بیان چھپا تھا کہ وفاقی حکومت نے فروری تک پانچ سو ارب روپے ٹیکس جمع کیا ہے ۔حیرت ہےکہ پانچ سو ارب روپے میں سے بیس ارب روپےنہیں دئیے گئے ۔ ان ساری باتوں کے جواب میں حکومت کی طرف سے نئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو صرف پنجاب کی حد تک چیلنج کیا گیا ہے۔ فنڈز کے حوالے سے کل سیکرٹری خزانہ سے معلومات لے کر تفصیلات بتاؤں گا۔آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت کو 170ارب ملنے تھے۔ 30 جون تک 170 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے، آئی ایم ایف نے شرح سود بڑھانے کا مطالبہ کیا، شرح سود میں اضافے سے مقامی قرضے بڑھیں گے۔ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق غریب اور صوبے امیر ہو گئے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ہدایات لے کر آگاہ کروں گا۔ ترقیاتی فنڈ کا معاملہ شاید پانچ ماہ پرانا ہے۔ مسئلہ آئینی اختیار کا نہیں وسائل کی کمی کا ہے۔ پولنگ اسٹیشنز پر فوج تعینات کرنے کا مطالبہ تھامگر فوج کی فراہمی مشکل تھی، الیکشن کمیشن کا خیال تھا کہ اکتوبر میں تمام اسمبلیوں کی مدت پوری ہو جائے گی۔منگل کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔ بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔اگلی حکومت عمران خان کی ہو گی ، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے کچھ لوگ پی ٹی آئی میںشامل ہونے والے ہیں ۔ سندھ بلوچستان میں بھی پی ٹی آئی کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ وہاں سے بھی نئے لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہونگے ۔ اسٹیبلشمنٹ میں بھی تبدیلیوں کے دن قریب ہیں۔ اہم عہدوں پر نئے چہرےدکھائی دینے والے ہیں ۔فوج کے وقار میں اضافہ ہونے والا ہے۔نون لیگ کو ایک مشورہ یہ دیا گیا کہ پنجاب میں انتخاب کرالئے جائیں اگر خدا نخواستہ وہاں پی ٹی آئی جیت گئی تو وفاق کے انتخابات موخر کر دئیے جائیں گے اور نون لیگ ایک سال اسی طرح ملک پر حکمران رہے گی لیکن پنجاب میں اگرکامیابی مل گئی تو پھر جنرل الیکشن پورے ملک میں کرا لئے جائیں گےمگر یہ بات طے کر لی گئی ہے کہ مذہبی جماعتوں کو اسمبلی میں نہیں پہنچنے دینا اور یہ وعدہ مغرب سے کیا گیا ہے یعنی اتنی آسانی سےاس سے منحرف نہیں ہوا جا سکتا۔

تازہ ترین