سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف کے بھانجے اور معروف تجزیہ نگار و صحافی حفیظ اللہ خان نیازی کے بیٹے بیرسٹر حسان خان نیازی آج کل مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، ان کے خلاف مختلف شہروں میں تشدد اور بغاوت پر اکسانے کے مقدمات درج ہوچکے ہیں جن میں سے کئی ایک مقدمات میں ان کی ضمانت ہوچکی ہے اور کئی مقدمات میں پولیس کی جانب سے وہ عدالتوں میں پیش کئے جارہے ہیں ،حسان نیازی ایک پرجوش نوجوان قانون دان اور بھرپور جذبے کے ساتھ ابھرتے ہوئے مستقبل کی سیاسی شخصیت ہیں لیکن ان کو جس طرح عمران خان نے اپنے والد اور خاندان کے خلاف استعمال کیا ہے اس کی نظیر ملنا بہت ہی کم ہے ۔ شاید کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ سیاست میں کوئی کسی کا رشتہ دار نہیں ہوتا مفادات کی جنگ میں باپ بیٹے اور بیٹا باپ کو قربان کرنے پر راضی ہو جاتا ہے یہاں تو معاملہ ماموں بھانجے کا ہے بھانجا جو اپنے ماموں کی محبت میں سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہے تو دوسری طرف ماموں اپنے سیاسی مفاد کی خاطر اپنے بھانجے کو سولی پر چڑھانے سے گریزاں نظر نہیں آتا ۔ حسان نیازی کے والد محترم حفیظ اللہ نیازی جو رشتہ میں عمران کے سگے چچا زاد بھائی ہونے کے علاوہ ان کے بہنوئی بھی ہیں، نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے کے بعد تحریک انصاف کی ابتدائی سیاسی جدوجہد سے لے کر لاہور کے مینار پاکستان کے تاریخی جلسے جس نے تحریک انصاف کو ایک حقیقی سیاسی جماعت کی شناخت دلائی اور پھر اس کے بعد تحریک انصاف میں جاوید ہاشمی سے لے کر کئی دیگر بڑے قد کاٹھ والے سیاسی قائدین کو تحریک انصاف کی صفوں میں کھڑا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ 2014کے دھرنے کے دوران جب عمران خان اقتدار کےلئے آئین شکنی کرنے کی طرف مائل ہوئے اور قومی اداروں کی طرف غیر قانونی طور پر چڑھائی کی تو حفیظ اللہ نیازی نے عمران خان کو اس سے روکا اور انہیں سمجھایا کہ اس طرز سیاست سے پی ٹی آئی کا نظریاتی تشخص خراب ہوگا اور پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کی کئی سالہ جدوجہد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے لہٰذا وہ کسی قسم کا غیر جمہوری رویہ نہ اپنائیں لیکن عمران خان جو اس وقت پاکستان کی سیاست میں خود کو سب سے بڑا سیاست دان خیال کر رہے تھے، کو حفیظ اللہ نیازی کے مشورے برے لگے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حفیظ اللہ نیازی، جن کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ عمران خان کے زمان پارک کے گھر کی تمام تر ذمہ داری ان کے پاس تھی، سے عمران خان نے بتدریج دوری اختیار کرلی اور آج عمران خان اور حفیظ اللہ نیازی کے درمیان نظریات کی بنیاد پر ایک واضح تقسیم ہے کہ ایک طرف حفیظ اللہ نیازی کی پاکستان اور اس کے آئین سے وفاداری کی سوچ ہے اور دوسری طرف عمران خان کی جھوٹی انا اور تکبر کی اونچی دیوار ہے جس نے ان دونوں کے راستے جدا کئے ہیں ۔ عمران خان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جس کو اپنا مخالف کہہ دیں اس کے ساتھ مخالفت کو آخری حد تک لے کر جاتے ہیں اور اس بات کا حوالہ کچھ دنوں قبل حفیظ اللہ نیازی نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں معروف اینکر پرسن طلعت حسین سے گفتگو کرتے ہوئے بھی دیا ۔ آج حسان نیازی کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس کی پوری ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے وہ حسان نیازی کی ماموں سے محبت کے جذبے کو اپنے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی کے ساتھ اپنے سیاسی و نظریاتی اختلاف اور انتقام کےلئے کھل کر استعمال کررہے ہیں، انہوں نے حسان نیازی کو اپنے حصار میں اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ اسے اپنے والد کا دکھ بھی محسوس نہیں ہوتا ۔ حسان نیازی کے خلاف درج مقدمات کی پیروی میں اس کے والد محترم حفیظ اللہ نیازی ہی دوڑے پھررہے ہیں نہ دن کا سکون نہ رات کا چین اپنے لخت جگر کو عدالتی چکروں سے آزاد کروانے کےلئے کبھی راولپنڈی ، کبھی کوئٹہ اور کبھی کراچی کی عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں لیکن جس ماموں کی محبت میں حسان خان نیازی ملکی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں وہ ماموں اور ان کے ہم رکاب ان کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کی پیروی کے دوران کہیں نظر نہیں آتے بلکہ ان کے منہ سے کبھی حسان نیازی کے حوالے سے خیر کا ایک لفظ بھی نہیں سنا گیا ۔ ایسے حالات میں حسان خان نیازی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ماموں کی محبت کے حصار سے باہر نکل کر اپنے حقیقی والد کے جذبات اور محبت کا احساس کریں کہ وہ ان کی ان غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی وجہ سے کس قدر دکھی اور پریشان ہیں۔ آج اگر حسان نیازی کو لمحوں میں سنگین دفعات کے تحت درج مقدمات میں ضمانتیں مل رہی ہیں تو اس میں ان کی شہرت یا پی ٹی آئی اور ان کے ماموں کی مقبولیت کا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ سب کچھ ان کے والد محترم حفیظ اللہ خان نیازی کی شرافت ، کردار اور پاکستان اور اس کے آئین سے وفاداری کا ثمر ہے ۔ لہٰذا وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ حسان نیازی اپنے رویے پر غور کریں اور سوچیں کہ جو شخص رشتے میں اس کا ماموں کہلاتا ہے اس کے والد اور اپنے حقیقی کزن، جس نے پی ٹی آئی کو حقیقی معنوں میں پی ٹی آئی بطور قومی سیاسی جماعت کے طور متعارف کروانے کےلئے اپنا دن رات ایک کیا اس کو اپنی سیاست اور انا کےلئے سائیڈ لائن کرسکتا ہے وہ ماموں وقت آنے پر اسے بھی اپنے سیاسی مفاد پر قربان کرنے میں دیر نہیں لگائے گا ۔ باپ کا رشتہ بلاشبہ ایک ایسا رشتہ ہے جو اپنی اولاد کے سکھ کےلئے اپنے آپ کو قربان کردیتا ہے لیکن اپنی اولاد پر آنچ نہیں آنے دیتا اور ہم اگر دینی حوالے سے بھی دیکھیں تو کہاگیا ہے کہ ماں کی خدمت کرنے سے جنت ملے گی لیکن اس جنت میں داخل ہونے کےلئے والد کو جنت کا دروازہ کہا گیا ہے کہ والد کی خدمت اور اس کے احکامات کی پیروی کرنے سے ہی جنت میں داخلے کا راستہ اولاد کےلئے کھل سکتا ہے ۔ اس لئے ابھی وقت ہے کہ حسان خان نیازی یورپ کی مادر پدر آزاد زندگی گزارنے کی بجائے اپنے والد کے دیئے ہوئے راستے کا انتخاب کریں کیونکہ یہی راستہ مستقبل میں ان کےلئے سیاسی و سماجی منزلوں کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔