پرانی دلّی کافی گنجان آباد ہے۔ چھوٹی چھوٹی گلیاں اور بازار، جن میں لوگوں کی بِھیڑ ہر دَم رواں دواں رہتی ہے۔ گوکہ ستیش ڈرائیور نے بارہا خبردار کیا تھا کہ ’’اِن گلیوں، بازاروں میں جیب کترے اور چور اُچکّے بہت گھومتے ہیں، جو اس پرانے شہر کی آغوش میں پلےبڑھے ہیں، سیکڑوں آدمیوں کی بھیڑ میں ایک لمحے میں باہر کے آدمی کو پہچان جاتے ہیں، سائے کی طرح اس کا پیچھا کرتے ہیں اور جہاں موقع ملے یا تو موبائل فون چھین کے ہوا ہو جاتے ہیں یا جیب پہ ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔
اِس لیے اِن گلیوں، بازاروں میں بہت احتیاط کے ساتھ گھومنا پھرنا۔‘‘پھریہی بات ہوٹل میں پولیس والوں نے بھی دُہرائی۔ ایک رات چاندنی چوک کی آوارہ گردی کے بعد پروگرام طے پایا کہ مٹیا محل بازار میں رات کا کھانا کھائیں گے اور وہیں حاجی کی چائے سے لُطف اندوز ہو کے واپس ہوٹل لوٹیں گے۔ لال قلعے کی طرف سے چاندنی چوک بازار داخل ہوں، تو لال مندر سے تھوڑا آگے جا کر بائیں ہاتھ ایک چھوٹی سی بازار نما گلی مُڑتی ہے، جہاں روزمرّہ استعمال کی چیزوں کی چھوٹی چھوٹی دُکانیں ہیں، جب کہ کہیں کہیں کچھ لوگ سبزی کی چھابڑی اور ریڑھیاں لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
ویسے ہی تجسّس میں ایک چھابڑی والے سے پیاز، ٹماٹر، گاجر اور ہری مرچوں کے دام پوچھے، تو پاکستانی کرنسی میں سبزی ہماری نسبت کچھ منہگی ہی تھی۔ مثلاً ٹماٹر اُس وقت پاکستان میں ستّر، اسّی روپے کلو تھے، تو دہلی میں سو روپے چل رہے تھے۔ لاہور کی طرح وہاں بھی گلی میں تربوز کے ڈھیر لگے تھے۔ تربوز کے نرخ پوچھے، تو لاہور میں اُس وقت تیس روپے کلو، جب کہ دہلی میں بیس روپےمیں (بھارتی کرنسی) فروخت ہورہا تھا، یوں ہم نے اندازہ لگایا کہ منہگائی کی صورتِ حال دونوں طرف قریباً ایک جیسی ہے۔
یہ چھوٹا سا بازار چاندنی چوک کی کار پارکنگ کے پاس گزر کرآگےجا کر جامع مسجد دہلی کے ’’بابِ شاہ جہاں‘‘ سے متّصل بازار سے جاملتا ہے، جسے مینا بازار کہتے ہیں۔ اس طرح ہم چلتے چلتے مینا بازار جاپہنچے۔ کسی نے اگر انارکلی کے اندر بانو بازار دیکھا ہے، تو سمجھ لیں، جامع مسجد کا مینار بازار ہُوبہو بانو بازار کی نقل ہے۔ چھوٹی چھوٹی کھوکھا نما دُکانیں مسجد کے زیرِ سایا دو رویہ شمالاً، جنوباً جامع مسجد کے پہلو بہ پہلو مسجد کی شمالی حد سےلےکر جنوبی حد تک چلی گئی تھیں۔ ان دکانوں میں مصنوعی زیورات، سستے کپڑے، میک اَپ کا سامان، بیگز اورسستے جوتے فروخت کے لیے رکھے تھے۔ ایک بھیڑ، ایک انبوہِ کثیر بازار میں رواں دواں رہتا ہے، تو یہاں ازحد چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے۔ نیز، برقی قمقموں کی روشنی میں یہ بازار رشکِ بغداد نظر آتا ہے۔
ہم حیرت سے منہ کھولے اس کی رونقیں تکتے اپنے ساتھیوں سے کچھ پیچھے رہ گئے کہ اچانک ایک دھکّا سا لگا۔ سامنے کے رُخ سے ایک اوباش سا لڑکا کالر کھڑے کیے، چہرے پہ خشونت جمائے سیدھا ہمارے سینے سے آن ٹکرایا، شکل و صُورت اور حلیہ دیکھنے پر اولیور ٹوئسٹ کے جیب کتروں کی شکلیں آنکھوں میں گھوم گئیں۔ ’’ابے! دیکھ کے نہیں چل سکتا، آنکھیں نہیں ہیں کیا، اندھا ہے۔‘‘ اُس نے کہا تو ہم نے ’’اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کا عملی نمونہ دیکھ لیا۔ ’’ایک تو چوری، اوپر سے سینہ زوری۔‘‘ ہم نے بھی غصّے میں کہہ دیا، لیکن پھر محسوس ہوا کہ اُس کے ساتھی بھی پیچھے ہی کھڑے تھے۔
’’ابھی یہ معاملہ اُلجھائیں گے، تو بلاوجہ لڑائی کی صورتِ حال پیدا ہو جائے گی، پھر کہیں یہ ہمارا سفری بیگ ہی نہ چھین لیں، جس میں بھارت میں ہماری کُل جمع پونجی، کچھ ضروری کاغذات اور موبائل فون وغیرہ ہے۔‘‘ ہم نے سوچا۔ ’’اوئے! چور کس کو بولا، ایک تو خُود مجھ سے ٹکراگئےاور اوپر سے اکڑ دکھا رہے ہو۔‘‘ہمارا ایک ہی جملہ سُن کر وہ تو گویا ہتّھے سے اُکھڑ گیااور یہ کہتے ہوئے اُس نے اپنا ہاتھ ہمارے گریبان کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ کسی نے آکر اس کی کلائی پکڑلی۔ ہم نےآنکھیں اٹھا کر دیکھا، تو بھاری بھرکم ڈیل ڈول کے قادر گُل نے اس کی کلائی پکڑرکھی تھی۔
قادر گل کے مضبوط ہاتھوں میں اُس دھان پان سے لڑکے کی کلائی اِس طرح سے جکڑی ہوئی تھی، جیسےکوئی چوہا، چوہے دان کے شکنجے میں اپنی گردن پھنسا بیٹھا ہو اور اس سے نکلنے کی ناکام کوشش کر رہا ہو۔ اتنے میں چاچا منظور اور فیض مصطفیٰ بھی آن پہنچے، اس اچکّے کےساتھیوں نے جب معاملہ بگڑتے دیکھا، تو پہلے تو جہاں تھے، وہیں رُک گئے، پھر قریب آ کے بیچ بچاؤ کروا کے معاملہ رفع دفع کروایا۔ چوں کہ ہم لوگ اس مُلک اور شہر میں اجنبی تھے کہ اگر بات بڑھتی تو شاید یہاں ہماری طرف داری کوئی نہ کرتا۔ سو، ہم لوگوں نے بھی عافیت اِسی میں سمجھی کہ بات ختم کردی جائے۔
اِکّادکّا دُکانوں پہ رُک کر کچھ چیزیں دیکھیں، خریداری دَر کھڑکی یعنی وِنڈو شاپنگ کی اور گیٹ نمبر دو ’’بابِ شاہ جہاں‘‘ جا پہنچے۔ ہماری اصل منزل تو مٹیا محل میں حاجی کا چائے خانہ تھا، اور بس وہاں کی چائے کی چسکیاں لے کے آج کی آوارہ گردی اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ کچھ دیر ہم یوں ہی مینا بازار میں پِھرتے رہے۔ چاندنی چوک کی طرف سے آئیں تو جامع مسجد کے بابِ شاہ جہاں کے بالکل سامنے سے بازار کی ایک شاخ بائیں ہاتھ مُڑتی ہے اور بابِ شاہ جہاں کی سیدھ میں جامع مسجد کے بالکل سامنے پریڈ گراؤنڈ میں سے گزر کر سبھاش چندر بوس روڈ پہ جا نکلتی ہے۔
بائیں ہاتھ بابِ شاہ جہاں کے سامنے دو درگاہیں ہیں۔ ایک درگاہ کی دیواروں پہ سُرخ رنگ ہے، یہ صوفی سرمد شہید کی درگاہ ہے، جو شاہ جہاں اور اورنگ زیب عالم گیر کے دَور کے ایک صوفی بزرگ تھےاور آرمینیا سے ہندوستان آئےتھے۔ پیدائشی طور پہ یہودی تھے، راہِ سلوک پہ چلے تو مسلمان ہوگئے۔ لمبی مسافتیں طے کر کے دہلی آن وارد ہوئے۔ معرفت کی منزلیں طے کیں، تو خُود سے بےخُود ہو گئے۔ بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر صوفی سرمد کے بہت خلاف تھا۔
اس نے جامع مسجد کے سامنے (جہاں پہ صوفی سرمد کی درگاہ ہے) اُسی جگہ اس کا سر قلم کروایا تھا۔ آرون دھتی رائے نے اپنے ناول ’’منسٹری آف اَٹ موسٹ ہیپی نیس‘‘ میں صوفی سرمد کے قتل کا واقعہ اور درگاہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جب صوفی سرمد کا سر قلم کیا گیا اور سر زمین پہ گر پڑا، تو وہ اپنا سر اُٹھائے جامع مسجد کی سیڑھیاں طے کرتے صحن میں جاپہنچے اور مسجد کے صحن میں اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔‘‘اب اس بات میں کس قدر صداقت ہے، یہ تو اللہ پاک ہی بہترجانے۔ صوفی سرمد کی درگاہ سے ملحقہ حضرت ابوالقاسم صوفی ہَرےبَھرے کی قبر ہے۔ درگاہ کے جس حصّے میں صوفی ہَرےبَھرے کی قبر ہے، اس کی دیواروں، چھت، فرش اور جالیوں پہ سبز رنگ کیا گیا ہے۔
یہ صوفی سرمد کے مرشد تھے۔ بادشاہ جہانگیر کے دَور میں وسط ایشیا سے دہلی آئے۔ بادشاہ جہاںگیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب عالم گیر کا زمانہ دیکھا اور زمانے کے رنگ دیکھے۔ شنید ہے کہ جب صوفی سرمد کا سربریدہ دھڑ جامع مسجد کی سیڑھیوں پہ رقص کُناں تھا، تو آپ نے انہیں سمجھایا کہ فطرت کے خلاف اس قسم کا واقع دہلی کو تباہ و برباد کردےگا، تو صوفی ہَرےبَھرے کےکہنے پہ صوفی سرمد کے سربریدہ دھڑ نے وہ رقصِ بسمل ختم کیااورجامع مسجدکےصحن میں جاگِرا (واللہ عالم)۔ دونوں قبروں کے درمیان سنگِ مرمر کے فرش میں سے نکلتا ہوا ایک نیم کا درخت بھی ہے، جو چھت میں سے گزرتا ہوا چھت کے پار کُھلی فضا سے ہم کلام ہوتا ہے۔
صبح سویرے ایک دن فیض مصطفیٰ اور ہم چھے بجے کے قریب ہوٹل سے نکلے، بستی نظام الدّین جا کے درگاہ نظام الدین پہ سلام پیش کیا، وہاں سے بس میں بیٹھ کے لال قلعہ کے قریب بس اسٹاپ پہ اُترے اور جامع مسجد بابِ شاہ جہاں کے سامنے مینا بازار میں داخل ہوگئے۔ یہاں صبح دس بجے کے قریب ہی رونقیں لگ جاتی ہیں۔ ایک ریڑھی پہ ٹھنڈا لال شربت فروخت ہو رہا تھا۔ ایک دُبلے پتلے نو عُمر لڑکے نے شربت کی ویسی ہی ریڑھی لگا رکھی تھی، جیسی بچپن سے ہماری آنکھیں اپنی گلیوں، بازاروں میں دیکھتی آرہی ہیں۔ جب کہ ریڑھی پہ رکھے لاؤڈ اسپیکر میں بار بار یہی اعلان ہو رہا تھا ’’ٹھنڈا ٹھار لال شربت، صرف دس روپے میں نوشِ جاں کریں۔‘‘
اس بازار میں صبح آنے کا واحدمقصد مولانا ابوالکلام آزاد کے مزار پہ حاضری تھی۔ ریڑھی والے لڑکے سے مولانا ابوالکلام آزاد کے مقبرے کا پوچھا، تو اُس نے دائیں ہاتھ ایک سنگِ سُرخ کے چھوٹے محرابی دَر کی طرف اشارہ کیا، جس کا آہنی سلاخوں سے بنا سیاہ رنگ کا دروازہ کُھلا تھا اور اسے ریڑھیوں نے گھیر رکھا تھا۔ اس بھیڑ میں سے راستہ بناتے، ہم اس محرابی دروازے کےسامنے جا پہنچے، جہاں دُکان داروں نےقبضہ جما رکھا تھا۔ دروازے کی محراب کا دایاں بازو ایک باریش بزرگ کے قبضے میں تھا۔
جالی دار ٹوپی سر پہ اوڑھے ایک تختے پہ سوتی پائجاموں کا انبار لگائے دیوار پہ شرٹس لٹکائے مقبرے کی سیاہ رنگ کی تعارفی لوح سے پشت ٹکائے، عجب شانِ بے اعتنائی سے بازار کی رونق کو تکتے تھے، جب کہ دروازے کا بایاں بازو ایک نوجوان کے تصرّف میں تھا، جس نے لکڑی کے تختے پہ سستے قسم کے پرفیومز سجا رکھے تھے، اس کے سر پہ دیوار کے ساتھ پائجامے معلّق تھے، وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر، عالمِ استغراق میں موبائل فون کی اسکرین تک رہا تھا۔پھر کُھلے دروازے کی سلاخوں سے ٹیک لگائے، ایک نوجوان مینا بازار کی بھیڑ تک رہا تھا، جس کے قریب پانی کے دو کُولرز ایک دوسرے کے اوپر دَھرے پیاسوں کی پیاس بجھانے کےمنتظر تھے۔
اس دروازے میں کھڑے ہو کر ہم نے فیض مصطفیٰ سے تصویریں بنوائیں۔ دائیں طرف سنگِ سُرخ کی سیڑھیاں اوپر جارہی تھیں، وہ طےکر کے ہم سنگِ مَرمَر کےایک چبوترے نما احاطے میں پہنچ گئے، جسے تین اطراف سے شرینہہ کے درختوں اور بوگن ویلا کی سُرخ و سفید پھولوں کی بیلوں، گھاس کے قطعات اور مختلف پھول، پودوں نے گھیر رکھا تھا۔ ایک سادہ سی چو طرفہ محرابوں والی چھتری تھی، جس کے نیچے مولانا ابوالکلام آزاد کی قبر تھی۔ سفید رنگ کاچھتری نُما بالکل سادہ سا مقبرہ، جس کے نیچے سنگِ مَرمَر کی جالیوں کا ایک کٹہرا سا تھااور جس کا کُھلا دَر جنوب کی طرف مقبرے کے مینا بازار کی طرف سے داخلی دروازے کی جانب تھا۔
مقبرے کی چھتری کے نیچے سنگِ مرمر کی جالیوں کےاندرسنگِ مَرمَر کے فرش کے بیچوں بیچ سفید رنگ کا سادہ سا قبر کا تعویز تھا۔ تعویز پہ ایک طرف اُردو، انگریزی میں، تو دوسری جانب ہندی میں محی الدّین احمد مولانا ابوالکلام آزاد سیاہ رنگ کی لکھائی میں کندہ تھا۔ جنوب کی طرف اُردو میں نام کے دائیں طرف تاریخِ پیدائش اور بائیں طرف تاریخِ وفات درج تھی۔ ہم سوچنے لگے’’تاریخ کا ایک سنہری باب اس گوشۂ گُم نامی میں محوِ خواب ہے۔‘‘ سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کر رہا ہے، دہلی کا اُداس آسمان، اِس تنہا، اُداس لحد پہ شبنم افشانی کرتا ہے۔
ایک بےبدل عالم، قلم کا دَھنی، جس کی نثر کا ڈنکا چہار دانگِ عالم بجتا تھا، الفاظ جس کی بارگاہ میں دست بستہ کھڑے ہو جاتے اور وہ جس طرح چاہتا، اُن سے نثر کا گلستاں سجاتا۔ معروف ادیب، خادم حُسین مجاہد ہمارے گاؤں بھابڑہ میں ہمارے محلے دار اور گاؤں کی ادبی تنظیم ’’دستک‘‘ کے بانیوں میں شامل ہیں۔ دستک کے ایک ہفتہ وار اجلاس میں انہوں نے ایک لطیفہ سنایا کہ ’’مولانا ابوالکلام آزاد نے اسیری کے دِنوں میں کچھ خودنوشت مکاتیب لکھے، جس میں انہوں نےجیل میں اپنے شب و روز کی کہانی بیان کی۔ بعد میں وہ مکاتیب ’’غبار خاطر‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع ہوئے۔
یہ کتاب مولانا ابوالکلام آزاد کی بے مثال نثر کا لاجواب شاہ کار ہے۔ ایم اے اردو کے زبانی امتحانی میں جب کسی طالبِ علم سے سوال کیا گیا کہ ’’غبارِ خاطر‘‘ کس کی تصنیف ہے؟ تو طالب علم بہت دیر تک سوچ بچار کے بعد بولا، میرا خیال ہے یہ شاعر خاطر غزنوی کا مجموعۂ کلام ہے۔ ممتحن یہ جواب سُن کے تادیر ہنستے رہے۔‘‘ اس اجلاس میں غبارِ خاطر کا ذکر سُن کےغالباًآٹھویں جماعت میں ہم نے لائبریری میں مولانا ابوالکلام آزاد کی کتابیں تلاش کیں۔
مولانا کی کتاب ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ کا ترجمہ ’’آزادیِ ہند‘‘ ہمارے اسکول کی لائبریری میں موجود تھا، وہ ترجمہ اسکول کے زمانے میں پڑھا، بعد میں غبارِ خاطر جب پڑھی، تو مولانا کی نثر دل کے تار چُھوتی چلی گئی۔ چائے بنانے اور چائے پینے کا قصّہ ہی ایسا شان دار ہے کہ پڑھ کے بندہ اَش اَش کر اُٹھتا ہے۔ ایک چائے بنانے اور چائے پینے کے عمل سے جیل کی پریشاں خیالی میں مولانا آزاد کس قدر لُطف کشید کرتے اور حَظ اُٹھاتے تھے،پڑھ کے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مولانا آزاد کے مقبرے پہ آلتی پالتی مارے کچھ دیر کے لیےبیٹھے رہے اور غبارِ خاطر کے اُن شان دار صفحوں کی نثر دماغ میں تازہ کرنے کوشش کرتے رہے۔ (جاری ہے)