• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذوالفقار علی بھٹو پر کس کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام تھا؟

فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو 44 برس بیت گئے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ایک قتل کیس میں کوٹ لکھپت جیل کے قیدی نمبر 1772 کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔

یہ واقعہ 11 نومبر 1974ء کو لاہور میں پیش آیا، نواب محمد احمد ایک نامور قانون دان تھے اور احمد رضا قصوری کے والد تھے اور بھٹو کے ناقد بھی تصور کیے جاتے تھے۔

اپنے صاحبزادے احمد رضا قصوری کے ہمراہ سفر کے دوران ان کی کار پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس سے نواب محمد احمد خان قصوری ہلاک ہو گئے تاہم احمد رضا قصوری محفوظ رہے۔

ذوالفقار علی بھٹو پر کون سی ایف آئی آر درج کرائی گئی؟

انہوں نے اس حملے اور اپنے والد کی ہلاکت کی ذمے داری ذوالفقار علی بھٹو پر عائد کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ حملہ ان کے حکم پر کرایا گیا تھا اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کرادی۔

18 مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ نے نواب محمد احمد کے قتل کے جرم میں ذوالفقار علی بھٹو جو سزائے موت سنائی۔

پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں یہ کیس سرد خانے میں پڑا رہا مگر 5 جولائی 1977ء کو جب مارشل لا نافذ ہوا تو اس کیس میں جان پڑگئی۔

ملک میں 3 ستمبر کو معزول وزیرِاعظم کو رات کے اندھیرے میں کلفٹن سے گرفتار کرلیا گیا اور اکتوبر 1977ء میں یہ کیس لوئر کورٹ کے بجائے ہائی کورٹ پہنچ گیا اور اس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔

بھٹو نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور جب سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو سابق وزیراعظم کو کوٹ لکھپت جیل لاہور سے پنڈی جیل منتقل کردیا گیا اور یہی وہ جگہ تھی جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 323 دن گزارے۔

واضح رہے کہ آج 44 سال بعد بھی پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قائد اور چیئرمین کو پھانسی دیے جانے کو ’’عدالتی قتل‘‘ قرار دیتی ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید